قائداعظم نے کیا کہا؟۔

اسلام:’’میں ہر ایک مسلمان سے یہ کہتا ہوں کہ اسلام تم سب سے یہ توقع رکھتا ہے کہ تم اپنا فرض نبھائو، اور ایک قوم کی حیثیت سے اپنے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ (22 مارچ 1939ء، ص 92)
’’رمضان کے روزوں اور نماز کا نظم و ضبط خدا کے حضور لازوال رقتِ قلب اور عاجزی پر منتج ہوگا، لیکن یہ کمزور دل کی نرمی کے مترادف نہیں ہوگا۔ جو لوگ ایسا سوچیں، وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں، کیونکہ تمام مذہب کا تضاد یہ ہے کہ منسکرالمزاج لوگ طاقتور ہوں گے۔ اسلام کے لیے تو یہ خاص مفہوم رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے، اسلام کا حقیقی مطلب عمل ہے‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 100۔101)
’’ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کے لیے ہمیں ضروری قوت دینے کی خاطر ماہِ رمضان کا نظم و ضبط دیا تھا۔ عمل کا مفہوم انسانوں کی سوسائٹی کی دلالت کرتا ہے۔ جب ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عمل کی تعلیم دی تھی تو ان کے ذہن میں صرف کسی ایک انسان کی تنہا زندگی نہیں تھی‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 101)
’’قرآن پاک کی رُو سے دعا اور زندگی کے درمیان ایک نہایت حقیقی ربط پایا جاتا ہے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ اپنے ساتھیوں سے ملنے اور انہیں سمجھنے اور پھر افہام و تفہیم کے ذریعے ان کی خدمت کرنے کے لیے ہمیں کتنے حیرت انگیز مواقع دیے گئے ہیں۔ تم یہ دیکھو گے کہ نماز کا آئین وضع کرکے تمام مواقع پیدا کیے گئے ہیں۔ دن میں پانچ مرتبہ ہمیں اپنے محلے کی مسجد میں جمع ہونا پڑتا ہے۔ ہر ہفتے جمعہ کے روز ہمیں جامع مسجد میں اکٹھا ہونے کا حکم ہے۔ پھر عید کے دن سال میں دو مرتبہ ہمیں شہر سے باہر سب سے بڑی مسجد یا میدان میں مجتمع ہونا پڑتا ہے‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 101)
’’حج کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو بیت اللہ میں حاضر ہوکر خدا سے رازونیاز کرنے کے لیے زندگی میں کم از کم ایک بار وہاں کا سفر اختیار کرنا پرتا ہے۔ تم نے اس امر کا ضرور مشاہدہ کیا ہوگا کہ ہماری نماز کی یہ اسکیم لازمی طور پر نہ صرف دوسرے مسلمانوں سے ہمارا رابطہ قائم کرتی ہے بلکہ اپنے سفر کے دوران ہم دیگر قوموں کے افراد سے بھی ملتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ نماز کے بارے میں یہ احکام صرف ایک حادثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ ان نمازوں کا مقصد انسانوں کو مواقع مہیا کرنا ہے تاکہ وہ اپنی سماجی جبلتوں کو پورا کرسکیں‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 101۔102)
’’قرآن میں انسان کو خلیفۃ اللہ کہا گیا ہے۔ اگر انسان کا یہ ذکر کسی اہمیت کا حامل ہے تو پھر ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم قرآن پر عمل کریں اور دوسرے انسانوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو خدا بنی نوع انسان کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ وسیع معنوں میں یہ فرض دوسروں سے محبت اور رواداری کا متقاضی ہے۔ تم میری بات پر یقین کرو کہ یہ کوئی منفی فرض نہیں بلکہ یہ تو مثبت فریضہ ہے۔
اگر ہم کسی بھی گروہ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے ساتھ محبت اور رواداری میں ایمان رکھتے ہیں، تو پھر ہمیں اپنی روزمرہ زندگی کے سادہ فرائض پر ضرور عمل کرنا چاہیے‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 103)
’’ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں دوسرے انسانوں کے ساتھ محبت اور رواداری کے فرض کے والہانہ اور شدید احساس سے بڑھ کر اور کوئی حکم زیادہ ضروری اور الہامی طور پر لازم نہیں ہے‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 103)
’’ہر قسم کے سماجی احیاء اور سیاسی آزادی کا آخری انحصار کسی ایسی چیز پر ہونا چاہیے جو زندگی کے عمیق تر مفہوم کی حامل ہو۔ اگر تم مجھے کہنے کی اجازت دو تو میں کہوں گا کہ وہ چیز اسلامی اسپرٹ ہے‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 103)
’’ہم میں سے ہر ایک ذاتی نظم و ضبط اختیار کرکے اپنے ملک کی خدمت سرانجام دے سکتا ہے۔ میری رائے میں نظم و ضبط اس مبارک مہینے (ماہِ رمضان) کا لب لباب ہے‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 103)
’’میں تم پر یہ زور دوں گا کہ تم یہ مت بھولو کہ اسلام ہر ایک مسلمان سے اپنے فرض کی ادائیگی کی توقع رکھتا ہے‘‘۔ (13 نومبر 1939ء، ص 104)
’’ہندو مت ذات پات کے اپنے مظہر سے نمایاں اور ممیز ہے کیونکہ ذات پات، ہندوئوں کے مذہبی اور سماجی نظاموں کی بنیاد ہے… اس کے برعکس مذہب اسلام انسانی مساوات کے تصور پر مبنی ہے‘‘۔ (انڈین آئینی اصلاحات کی مشترکہ سلیکٹ کمیٹی کی رپورٹ) (19 جنوری 1940ء، ص 123)
’’ماہِ رمضان روزہ رکھنے، دعا اور اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں قرآن پاک نازل ہوا تھا۔ بنیادی طور پر مسلمانوں پر روحانی نظم و ضبط فرض کیا گیا ہے لیکن اس فرض کی ادائیگی میں اخلاقی ڈسپلن اور اس کی معاشرتی اور جسمانی قدروقیمت بھی کم درجہ نہیں رکھتی ہے۔ ماہ صیام تمہیں بھوک کا مطلب سمجھاتا ہے۔ یہ تمہیں یہ سبق دیتا ہے کہ اس فرض کو نبھاتے ہوئے تم کو عسرت کے لیے تیاررہنا چاہیے اور سخت آزمائش کو برداشت کرنا چاہیے… اس کی جسمانی قدروقیمت کو بھی کم اہمیت نہیں دی جا سکتی، کیونکہ سارا مہینہ جسم کے اعضائے انہضام کو جو آرام ملتا ہے یہ انہیں مزید صحت مند اور طاقتور بناتا ہے۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ ہمارے جسم کے تمام اعضاء اس طرح بنائے گئے ہیں کہ صرف آرام ہی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ جسم کی خوراک ہضم کرنے والے اعضا میں بہتر صلاحیتِ کار انسان کی جسمانی نشوونما کو زیادہ صحت مند بنا دیتی ہے‘‘۔ (2 نومبر 1941ء۔ ص 317۔318)
’’اسلام امورِ زندگی کے سماجی پہلو پر بہت زور دیتا ہے۔ ہر روز مسجد میں پانچ دفعہ علاقے کے امیر و غریب اور خورد وکلاں جمع ہوتے ہیں… یہ اجتماع انسانوں کی کامل مساوات کا مظہر ہوتا ہے۔ اس طرح نماز کے ذریعے صحت مندانہ سماجی تعلق کی بنیاد پڑتی ہے اور نماز ہی سے اسے استوار کیا جاتا ہے‘‘۔ (اکتوبر 1941ء۔ ص 318)
’’رمضان شریف کے اختتام پر ہلال یعنی نئے چاند کا ظہور عید کے دن بہت بڑے اجتماع کی علامت ہوتا ہے۔ یہ اجتماع مسلمانوں کے بھائی چارے اور مساوات کی حیثیت سے سارے عالم اسلام کو متاثر کرتا ہے۔ تم پورے ایک مہینے تک رمضان شریف کے نظم و ضبط کے مرحلے سے گزر چکے ہو اور اب عیدالفطر آگئی ہے، جس کا مطلب ہے بار بار آنے والی خوشی۔ عید کا دن خوشی کا دن ہے جو تکمیلِ فرض کے بعد آتا ہے تاکہ تمہارے اندر احساس پیدا کردے کہ حقیقی مسرت کا راز فرض کی کامیاب ادائیگی میں پنہاں ہے۔ تم سب کو خدائے قادر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے تمہیں یہ فرض ادا کرنے کی توفیق دی ہے۔ تم اس عظیم دن کے موقع پر یہ مصمم ارادہ کرلو کہ ہم اپنے قومی فرض کو بھی ضرور ادا کریں گے‘‘۔ (اکتوبر 1941ء۔ ص 318۔319)
’’اسلام ہماری پناہ میں آنے والے غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف، مساوات، ایمان داری، تحمل اور فیاضی کا بھی حامی ہے۔ یہ غیر مسلم ہمارے بھائیوں کی مانند ہیں‘‘۔ (2 نومبر 1941ء۔ ص 326)
’’اسلام ہر ایک مسلمان سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں اور اپنی قوم کے فرض کو ادا کرے گا‘‘۔ (7 مارچ 1942ء۔ ص 379)
’’مسلمانوں کے دیگر تمام تہوار اسلام کے عالمگیر تہوار ہیں، اس لیے وہ دنیا کے تمام ممالک میں منائے جاتے ہیں۔ عیدالفطر وحدت و اخوت کی علامت ہے۔ یہ مذہبی بھی ہے اور اقتصادی بھی‘‘۔ (اکتوبر 1942ء۔ ص 436)
’’آئیے ہم اسلامی ورثے کی روشنی کے مطابق دنیا کے موجودہ اور آئندہ نئے نظام میں اپنے جائز مقام کو قائم کرنے کے لیے سنجیدگی سے قسم اٹھائیں‘‘۔ (اکتوبر 1942ء۔ ص 436)
’’موجودہ دنیا تاریخ کے عظیم ترین بحران میں سے گزر رہی ہے۔ اسلام اور مسلمان اس وسیع دنیا میں کسی اور قوم سے کم اہم پارٹ ادا نہیں کررہے ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر آج یہ مصمم ارادہ کریں کہ ہم آنے والے عالمی امن میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے‘‘۔ (اکتوبر 1942ء۔ ص 437)
’’ہماری ہدایت اور باطنی روشنی کے لیے ہمارے پاس قرآن کا عظیم ترین پیغام موجود ہے۔ ہمیں اب صرف یہ کرنا ہے کہ ہم اپنی ذات کی آگاہی حاصل کرنے کے علاوہ اپنی ان عظیم صفات، خوبیوں اور طاقتوں کو بھی جانیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں۔ آئیے ہم اس عظیم نصب العین کے مطابق عمل کریں۔ آئینے ہم اپنی عظیم مخفی صلاحیتوں سے درست انداز میں فائدہ اٹھائیں۔ آئیے ہم عوام کی اجتماعی فلاح اور اعلیٰ و نیک مقصد کی خاطر اپنے ذاتی مفادات اور سہولتوں کو ترک کردیں۔ پاکستان کا یہی مقصد ہے‘‘۔ (4 اپریل 1943ء۔ ص 490)
’’ہمارے پیچھے عظیم تاریخ اور ماضی ہیں۔ آئیے ہم اپنے آپ کو اس کے شایانِ شان ثابت کریں اور اسلام کی صحیح نشاۃ ثانیہ کو بروئے کار لائیں، اور اسلام کی شان و شوکت کا احیاء کریں‘‘۔ (30 ستمبر 1943ء۔ ص 550)
’’یہ کتابِ عظیم یعنی قرآن، ہندوستان کے مسلمانوں کا آخری سہارا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، توں توں ہم میں وحدت پیدا ہوتی جائے گی۔ یعنی ایک خدا، ایک کتاب، ایک پیغمبرؐ اور ایک قوم‘‘۔ (26دسمبر 1943ء۔ ص 597)
’’خواہ یہ میسور ہو یا دنیا کا کوئی اور کونہ، مسلمانوں کے درمیان ملّی یگانگت، قومی عزت اور محبت موجود ہوتی ہے۔ فرزندانِ اسلام (جغرافیائی) حدود سے ناآشا ہیں‘‘۔ (جون 1941ء۔ ص 305۔306)
’’اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم باقی انسانوں سے مساوی سلوک کریں۔ پاکستان میں ہندوئوں اور دوسری جماعتوں کے ساتھ عادلانہ اورمساویانہ برتائو کیا جائے گا، بلکہ ان کے ساتھ فیاضانہ سلوک ہوگا۔ یہ ہر ایک ذمہ دار مسلمان کا نظریہ ہے۔ مزید برآں ہماری اعلیٰ سند یعنی قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی ارشاد فرمایا ہے‘‘۔ (7 مارچ 1941ء۔ ص 377)
’’مسلمانانِ ہند مجھے بڑی عزت و محبت سے دیکھتے ہیں۔ اس کا راز کیا ہے؟ یہ راز عیاں ہے کیونکہ جو کچھ کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں تھا، میں نے اسے بڑی بے باکی سے بیان کیا ہے۔ میں نے بڑی وفاداری کے ساتھ تمہاری خدمت کی ہے اور سچائی کے ساتھ تمہاری قیادت کی ہے۔ میں اپنی خدمت کے سوا تمہیں کچھ نہیں دے سکتا۔ میں مسلمانوں اور اسلام کی خدمت جاری رکھوں گا‘‘۔ (25 دسمبر 1942ء۔ ص 478)
(جاری ہے)