بلا تبصرہ

سیاسی جماعتوں کے طرزِ حکمرانی نے عوام کو اعصابی تناؤ میں مبتلا کردیا ہے۔ ذہنی و اعصابی تنائو کے مظاہر سماجی ذرائع ابلاغ پر جا بجا نظر آتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے سخت تبصروں اور عوام کے اظہارِ غیظ و غضب کے باوجود طاقتور اداروں اور اشخاص کے رویّے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہمارا طرزِ حکمرانی کیسا ہوگیا ہے اس کی ایک جھلک چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد کے تبصروں سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے کراچی رجسٹری میں کراچی کے اہم مسائل سرکلر ریلوے کی بحالی، کے الیکٹرک کی کارگزاری، غیرقانونی تعمیرات اور زمینوں پر قبضے کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے دوران دیے۔ چیف جسٹس کا تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں مافیا کی حکمرانی ہے۔ ہم عالی مرتبت چیف جسٹس کے تبصروں کو بلا تبصرہ پیش کررہے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ”کے الیکٹرک کا حال دیکھیں، بجلی کا نظام تباہ کردیا اور اربوں کھربوں کے حساب سے کمالیا ہے، کے الیکٹرک والے یہاں مزے کررہے ہیں، باہر کا قرضہ کراچی سے نکالا ہے، چھوٹا سا آدمی آتا ہے، کراچی کی بجلی بند کرتا ہے، اس کی اتنی ہمت کیسے ہوئی؟ بند کردیں اس کو جیل میں، ہم دیکھتے ہیں کون کرتا ہے کراچی میں یہ سب۔ روز 8 سے10لوگ کرنٹ سے مر رہے ہیں، سب کی ایف آئی آر کے الیکٹرک کے سی ای او کے خلاف کاٹی جائے، ضمانت بھی نہیں ہونی چاہیے، ہم آج ہی حکم نامہ جاری کریں گے۔ مافیا حکومتوں کو پال رہی ہے، سب اس کا پیسہ کھاتے ہیں، حکومتیں اس کا کیا بگاڑیں گی! اگر کچھ کیا تو دانا پانی بند ہوجائے گا“۔ بل بورڈز اور سائن بورڈز کی غیر قانونی تنصیب کے معاملے پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون اجازت دیتا ہے؟ کمشنر کراچی کہاں ہیں؟ میٹروپول پر بورڈ گرا تھا، کیسے ہوا یہ؟ کون ذمے دار ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ دو افسران کو معطل کردیا گیا ہے، مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جی ہمارے پاس ایف آئی آر ہے،کہاں ہے وزیر علی؟ایس ایس پی ساؤتھ نے بتایا کہ ڈھونڈ رہے ہیں مل جائے گا۔، عدالت کا کہنا تھا کہ سمندر کے اندر چلا گیا ہے کیا؟ جہاں بھی ہے ابھی لاؤ پکڑ کر اسے، عدالت میں فضول باتیں مت کرو،جاؤ اور آدھے گھنٹے میں ڈھونڈھ کر لاؤ، عمارتوں پر بل بورڈز لگے ہیں، یہ خطرناک ہے، ان سے انسانی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ جو لوگ پیسے لے کر اجازت دیتے ہیں ان سب کو ابھی بلائیں۔ تمام بوسیدہ عمارتوں پر بورڈز لگے ہوئے ہیں، ایف ٹی سی کے سامنے اور اطراف میں کتنے اشتہار لگے ہوئے ہیں، لوگ کیسے زندگی گزار رہے ہیں! ان کی روشنی، ہوا تک بند ہوگئی، لوگ ان عمارتوں میں رہتے کیسے ہیں جہاں نہ ہوا جاتی ہے، نہ روشنی، نہ دن کا پتا چلتا ہے نہ رات کا! پورے شہر میں کچرا اور گندگی ہے، ہر طرف تعفن کی صورت حال ہے، کیا یہاں کے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی دشمنی نکالی جارہی ہے؟ کھمبوں پر لگے اشتہارات بھی ہٹائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیوپلیکس سنیما پر بہت بڑا اشتہار لگا ہوا تھا یا نہیں؟ نیوپلیکس سنیما خود غیر قانونی تعمیر ہوا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق سماعت پر عدالت نے سندھ حکومت کو مقررہ مدت میں انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنانے اور صوبائی حکومت کو فینسنگ اور دیگر کام فوری مکمل کرنے کا حکم دیا۔ سماعت کے موقع پر سیکرٹری ریلوے کی سرزنش کرتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ کھیل رہے ہیں؟ آپ کا ایک سال ختم ہوگیا ہے، عدالت کی دی ہوئی مدت ختم ہوگئی ہے، سرکلر ریلوے کیوں بحال نہیں ہوئی؟ کچھ مقامات پر گرین لائن کی وجہ سے رکاوٹ ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ کی حکومت نے کیا کیا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ہم انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برجز بنا رہے ہیں تاکہ رکاوٹ ختم ہوجائے۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ سندھ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سال بجٹ میں ان منصوبوں کے لیے5ارب روپے رکھے ہیں، 3 ارب جاری ہوگئے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی حکومت کے پاس جو بھی کام جاتا ہے وہ لامحدود مدت کے لیے ہوتا ہے۔ عدالتی حکم کی کوئی پروا نہیں؟ عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کسی طرح بھی کریں مقررہ مدت میں کام ہونا چاہیے۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ ریلوے نے ہمیں 24 کراسنگز کا بتایا تھا، ہم نے 10 بنادی ہیں باقی ہمیں ضرورت نہیں۔
غیر قانونی تعمیرات پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ان کاموں میں بہت پیسہ ہے، آپ کے افسران کے بھی ہاتھ لگ جاتا ہے، ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس بھیجیں تو بھی کچھ نہیں ہوگا، پیسے دے کر اپنا ٹرانسفر کرالیں گے، پیسہ بنانے والوں کے نصیب میں کھانا پینا تک نہیں ہوتا، یہاں غریب کی طرح رہ رہے ہوتے ہیں اور پیسے باہر بھیج رہے ہوتے ہیں، پاکستان سے پیسے دبئی اور لندن بھیج دیے جاتے ہیں۔