6.8 ارب ڈالر مالیت کے منصوبے کی منظوری سے کراچی تاپشاور ٹریک اپ گریڈ کیا جائے گا
پاکستان کے قدیم دوست چین کے تعاون سے ریلوے کی جدت، تعمیر وترقی کے ML-1 نامی جس منصوبے کا آج کل ہر طرف شہرہ ہے اور گزشتہ دنوں حکومت پاکستان نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس سے مراد کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن براستہ ملتان اور لاہور ہے، جس کا فاصلہ قریباً1872کلومیٹر ہے۔ پلاننگ کمیشن نے 6.8 ارب ڈالر یعنی 1122 ارب کا منصوبہ منظور کرتے ہوئے سفارشات ایکنک کو بھجوا دی تھیںجس کی منظوری ہوگئی ہے۔ جس میں کراچی سے پشاور تک ٹریک اور برجز کو تبدیل کیا جائے گا۔ اس وقت ML-1 پر کراچی سے پشاور تک 720 پھاٹک ہیں، اُن کو ختم کردیا جائے گا اور پھاٹکوں کی جگہ انڈر پاس اور فلائی اوور بنائے جائیں گے جو کہ اس منصوبے میں شامل ہیں۔ جبکہ 2445 چھوٹے بڑے پلوں کو بھی ازسرنوتعمیر کیا جائے گا۔ ریلوے لائنوں کے دونوں طرف جنگلہ لگا دیا جائے گا۔ لاہور سے پشاور تک ڈبل لائن بنائی جائے گی۔ کراچی سے پشاور تک جدید سگنلنگ نظام لگایا جائے گا اور یہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد مسافر گاڑیوں کی رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بڑھائی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ مال گاڑیوں کے لیے مزید گنجائش پیدا ہوجائے گی اور ایک دن میں سوسے زائد گاڑیاں آسانی کے ساتھ کراچی سے پشاور کے درمیان چلائی جا سکتی ہیں۔ ان مال گاڑیوں اور پیسنجر ٹرینوں کے چلنے سے ملک کی اکانومی اور پاکستان ریلوے کو زبردست مالی فائدہ ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ مسافروں کے لیے بھی بہتر سہولیات میسر آ سکیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ریلوے کو اس منصوبے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ریلوے کے اکثر پُل اپنی طبعی مدت پوری کرچکے ہیں اور اکثر کی زندگی سوسال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ پھاٹک ختم ہونے سے حادثات میں یقیناً سوفیصد کمی آ جائے گی۔ ٹریک کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے کیونکہ جتنی انویسٹمنٹ ٹریک پر ہونی چاہیے تھی اُتنی انویسٹمنٹ نہ ہو سکی، اور ٹریک پر اُتنا کام نہ ہوسکا کیونکہ ریلوے کے مینول کے مطابق ٹریک پر کام کرنے والے گینگ مینوں کی تعداد قریباً15 ہزار کم ہے۔ نتیجتاً حادثات کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ریلوے میں مسافروں کی سیفٹی کے معاملے میں خدشات موجود ہیں۔ لہٰذا اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ منصوبہ ریلوے اور پاکستانی قوم کے لیے نئی زندگی کہلائے گا اور ان شاء اللہ ریلوے پھر سے اپنی پُرانی زندگی 1970ء کی طرح پُرفارم کرسکے گی۔ آج ہرآدمی جس کو ریلوے کے بارے میں بالکل بھی معلوم نہیں اور شاید کبھی سفر بھی نہ کیا ہو لیکن وہ تنقید میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے ریلوے کو نظرانداز کیے رکھا اور ریلوے میں جتنی انویسٹمنٹ ہونی چاہیے تھی وہ نہ ہوسکی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ2011ء میں انڈین حکومت نے 12 ارب ڈالر ریلوے کی ترقی کے لیے انویسٹ کیے اور ریلوے نظام کو کشمیر کی پہاڑیوں تک پہنچا دیا۔ اس سلسلے میں کئی کلو میٹر ٹنل بنائی گئی۔ انڈین ریلوے کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روزانہ 13500پیسنجر ٹرینیں اور 9000گڈز ٹرینیں ملک کے طول و عرض میں رواں دواں ہوتی ہیں، مگر وہاں پر وہی نظام ہے، وہی ریلوے بورڈ ہے جو 1947ء میں تھا۔کیونکہ اُن کی پارلیمنٹ نے ایک بِل منظور کیا کہ لکڑی، تیل اور اجناس ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں روڈ کے ذریعے منتقل نہیں کی جا سکیں گی، جس کی وجہ سے تمام بزنس ریل کی گڈز ٹرینوں کو ملتا ہے۔ سعودی عرب نے ریلوے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ریلوے کے چار بڑے منصوبے شروع کررکھے ہیں جن کے ذریعے 2400 کلو میٹر ٹریک بچھایا جا رہا ہے، جبکہ 1200 کلو میٹر کی مزید توسیع کی جا رہی ہے۔ ان منصوبوں پر 72 ارب ڈالر کے اخراجات ہوچکے ہیں اور 100 ارب ڈالر کی مزید انویسٹمنٹ کی جا رہی ہے۔ ہمارے دوسرے ہمسایہ ملک ایران نے اپنے ریلوے نظام کے لیے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ سابق امریکی صدر اوباما نے اپنے ایک پالیسی بیان میں کہا تھاکہ ہماری غلط حکمت عملی کی بناء پر ریلوے نظام کو بھرپور توجہ نہیں دی جا سکی مگر امریکن ریلوے کو دیگر یورپین ریلویز کے ہم پلہ اور جدید کرنے کے لیے ایک ہزار ارب ڈالر انویسٹ کیے جائیں گے۔ ML-1 کے اتنے اچھے منصوبے کے ساتھ کچھ خدشات بھی ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں جب ایک حکومت چلی جاتی ہے تو دوسری حکومت آنے پر اُن منصوبوں کو یا تو ختم کردیتی ہے یا پھر اُن میں تبدیلی کردیتی ہے۔ 6.8ملین ڈالر یعنی 1122 ارب کا منصوبہ چین سے قرض لے کر مکمل کیا جائے گا اور اس کی تعمیر کا کام بھی چینی کمپنیاں ہی کریں گی۔ ریلوے افسران اور ملازمین کو آپس کی دوریاں ختم کرنی ہوں گی کیونکہ 1122 ارب کا قرض مع سود واپس کرنا ہو گا ورنہ موٹروے کی طرح ریلوے کو بھی گروی رکھنا نہ پڑجائے۔ ظاہری طور پر پاکستان ریلوے کے پاس ٹیکنیکل اسٹاف، سپروائزری اسٹاف، گینگ مین، شیڈ اسٹاف، کیرج اسٹاف، ٹریفک یارڈ اسٹاف، اسٹیشن ماسٹر، ٹرین ڈرائیور، آر ٹی ایل اسٹاف، الیکٹرک اسٹاف، برج اسٹاف، ٹیلی کام اسٹاف اور سگنلنگ اسٹاف سمیت ہر شعبے میں ملازمین کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے بہت مسائل پیدا ہوچکے ہیں، ہر کیٹگری میں اسٹاف کا قحط ہے۔ ٹیکنیکل اور اسکلڈ اسٹاف خال خال نظر آتا ہے، اس وجہ سے ریلوے کے ہرشعبے میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ بہت تیزی سے ہورہی ہے اور متبادل بالکل نہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے جی ٹی روڈ اور موٹروے پر توجہ دی، کاش اتنی توجہ ریلوے پردی جاتی تو آج پاکستان پولوشن فری ہوچکا ہوتا۔ ML-1 کے بعد روزانہ اس ٹریک پر دن میں سو سے زائد پیسنجر اور مال گاڑیاں چلائی جاسکیں گی۔ آج کے دور میں جب کہ ریلوے کے پاس انجنوں کی کمی نہیں مگر صرف 10سے 12مال گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔ ٹرین چلانے سے ٹرین کی لوڈنگ، ان لوڈنگ ٹرمینل کی بھی ضرورت ہے، جبکہ ریلوے کے پاس محدود ٹرمینل ہیں جن سے صرف 10 سے 20 ٹرینیں ہی چلائی جاسکتی ہیں۔ زیادہ گاڑیاں چلانے کے لیے مزید ٹرمینل بنانے پڑیں گے جو کہ تاحال سی پیک کے پراجیکٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سی پیک منصوبے میں مزید نئے ٹرمینل بھی شامل کیے جائیں۔ اگر یہ ٹرمینل نہ بنائے گئے تو ML-1 پراجیکٹ سے شاید وہ فوائد حاصل نہ ہوسکیں جن کی ہم نے اوپر بات کی ہے۔ ML-1 منصوبے پر دل و جان اور خلوصِ نیت کے ساتھ عمل کیا گیا تو یہ یقیناً نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ ریلوے کے لیے بھی گیم چینجر کی حیثیت رکھے گا۔ ML-1 چین کے عوام اور حکومت کا پاکستان کو تحفہ ثابت ہوگا۔ یہ پاکستان ریلوے کی بحالی کا منصوبہ ہے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اس حکومت نے ML-1کے ساتھ ساتھ ML-2 پر کام کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ ML-2 لائن کوٹری سے دادو، جیکب آباد، ڈی جی خان اور کندیاں سے ہوتی ہوئی ML-1 سے مل جائے گی۔ ML-3 جوکہ روہڑی سے براستہ کوئٹہ ایران تک جائے گی۔ گوادر سے نیا ٹریک کوئٹہ تک لایا جائے گا تاکہ گوادر پورٹ سے لایا جانے والا سامان ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں پہنچایا جا سکے۔ مزید ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ سارا کام چینی کمپنیوں کو کرنا ہے۔ یہ سی پیک کا واحد پراجیکٹ ہے جوکہ چین اور پاکستان کے درمیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے، بلکہ یہ پاکستان کی لائف لائن ہے ۔اس پراجیکٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ حادثات کی روک تھام کے لیے اے ٹی پی یعنی آٹو ٹرین پروٹیکشن خودکار حفاظتی نظام نصب کیا جائے گا، یعنی اگر خدانخواستہ ٹرین نے ڈینجر سگنل کراس کرلیا ہے تو فوری طور پر آٹومیٹک بریک لگ جائے گا۔ جب جدت کے ساتھ یعنی 160 کلومیٹر کی رفتار سے ٹرین چلائی جائے گی تو پھر ٹرین ڈرائیور، اسسٹنٹ ڈرائیور، گارڈ اور ٹرین عملے کے لیے کھانے پینے، ٹرانسپورٹ اور اُن کی رہائش کا بہترین انتظام کرنا چاہیے تاکہ وہ آرام کرسکیں اور پھر دوبارہ مقررہ وقت پر اپنی گاڑی کو لے کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوں۔ ML-1 پراجیکٹ پر پاکستان ریلوے اور حکومتِ پاکستان کا کنٹرول ہونا چاہیے۔ ML-1 پر کام شروع ہونے سے ٹریک پر ٹریفک کا دبائو بڑھ جائے گا، ٹرینوں کی آمدورفت میں خاصی رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کی حکمت عملی اپنائی جائے کہ گاڑیاں کم سے کم تاخیر کا شکار ہوں تاکہ مسافروں کو کم سے کم تکالیف کا سامنا ہو۔ بہرحال جب اتنا بڑا منصوبہ شروع ہوگا تو یقیناً مسافروں کو تھوڑی بہت تکلیف تو اُٹھانی پڑے گی، لیکن ان شاء اللہ آنے والے وقت میں یہ منصوبہ پاکستان اور اس کے عوام کے لیے خوشحالی کا سنگب میل ثابت ہوگا۔ ML-1 ریلوے کی لائف لائن ہے جس کی شدید ضرورت ہے۔ اس پراجیکٹ پر عمل درآمد ہونا چاہیے، یہ ملک و قوم اور ادارے کے لیے ضروری ہے۔ جن خدشات کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے بارے میں سوچنا چاہیے تاکہ نقصانات کم سے کم ہوسکیں۔ اس پراجیکٹ میں حکومت کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی لیبر، ٹیکنیشن، انجینئرز اور اسکلڈ اسٹاف کو بھرتی کیا جائے تاکہ چین سے ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہوسکے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے نے کہا ہے کہ میں ملک کے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو روزگار دوں گا۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب زیادہ سے زیادہ لیبر، ٹیکنیشن اسٹاف اور نوجوان انجینئر پاکستانی بھرتی کیے جائیں۔