مودی کے نامۂ عمل میں کشمیر سے گجرات تک کی لہو رنگ داستانیں ہی نمایاں تھیں مگر عرب بھائی اس کے باوجود مودی پر تمغوں کی برسات جاری رکھے ہوئے تھے
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک سال کی گومگو والی کیفیت اور انتظارِ لاحاصل کے بعد آخرکار رائے عامہ کی مقبول لہر پر سوار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس لہر پر سوار ہی رہتے ہیں، یا لہرکی زد میں آکر کہیں دور دراز ساحل کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ہر دو امکانات کو بہرطور رد نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی عوام کا مزاج کلیم عاجز کے اس شعر کے مصداق ہے:
سامانِ زندگی فقیرانہ ہے تو ہو
تیور ہر ایک حال میں شاہانہ چاہیے
اس مزاج کے زیراثر اُن کا خیال ہے کہ خزانہ خالی اور آئی ایم ایف جیسا قرض خواہ دہلیز پر کھڑا ہو، ایف اے ٹی ایف کا داروغہ نامۂ عمل ہاتھ میں لیے تاڑ رہا ہو، امریکہ سے سعودی عرب تک سب اوپر والے ہاتھوں کو برابری پر لائیں نہیں تو جھٹک دیں… عین اسی مزاج کے مطابق اس وقت رائے عامہ کی مقبول لہر یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی آئی ایم ایف کی بیڑیاں اور ایف اے ٹی ایف کی ہتھکڑیاں جھٹک کر بھارت کو کشمیر پر پانچ اگست کے فیصلے کا عملی جواب دینا چاہیے اور جارج بش ثانی کے انداز میں’’تم ہمارے ساتھ ہو یا نہیں‘‘ کا ایک آبجیکٹو ٹائپ سوال پوچھ کر ایک لکیر کھینچ لینی چاہیے۔ مجبوریوں کا بوجھ اُٹھانے والا ملک جسے بیتے ماہ وسال میں معاشی بحرانوں کا شکار بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ یہ بڑے فیصلوں کی صلاحیت سے محروم ہوکر رہ جائے۔ ہو نہ ہو وہ بڑے فیصلوں کا یہی دور تھا جس سے آج پاکستان گزر رہا ہے۔ اس کو دنیا میں کہاں اور تاریخ کی کس سمت میں کھڑا ہونا ہے، آج کا پاکستان تاریخ میں اپنے مقام کا تعین کررہا ہے۔ ایسے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کا روایتی فدویانہ انداز ترک کرکے کشمیر، او آئی سی اور سعودی عرب کی حکومت کے حوالے سے اہم لائن لینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ایک پرائیویٹ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ او آئی سی چھپن چھپائی کھیلنے کے بجائے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان سعودی عرب کے بغیر کشمیر پر حمایت کرنے والے ملکوں کا اجلاس بلانے کی طرف جائے گا خواہ یہ اجلاس او آئی سی کے پلیٹ فارم پر ہو یا اس سے باہر۔ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کو گزشتہ برس دسمبر میں وزیراعظم عمران خان کا ملائشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی یاد دلایا اور کہا کہ پاکستان نے یہ فیصلہ سعودی عرب کے اعتراض کے باعث مگر بوجھل دل سے کیا تھا۔ شاہ محمود قریشی نے اسے اپنی اوقات سے بڑی بات کہا توکچھ غلط نہیں کہا۔ پاکستان میں بڑے فیصلوں کی منظوری کہیں اور سے ہونا ایک ناقابلِ تردید حقیقت رہی ہے۔ یہاں بڑے فیصلوں کو بڑے اورنادیدہ دبائو پر بدلتے بھی دیکھا گیا ہے۔ اس سیاسی تاریخ کے تناظر میں اتنی بڑی بات کہنے والے شاہ محمود قریشی بدستور نظر آتے ہیں تو واقعی بڑی بات ہوگی۔
شاہ محمود قریشی کی بات حقیقت میں ریاست اور عوام کی مایوسی اور اس مایوسی میں ایک نئے امکان اور راستے کی تلاش کی خواہش ہے۔ پانچ اگست کے بعد پورا ایک سال پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کا در کھلنے کا انتظار کیا تاکہ زنجیر عدل ہلائی جائے اور اس دربار سے مظلوموں کی حمایت میں کوئی نعرۂ مستانہ سنائی دے۔ ایک سال تک اس خواہش کا انجام ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ اور نہ ہوا۔ یہی نہیں سعودی عرب کے زیراثر ملک نے پانچ اگست کے فیصلے کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ اس فیصلے سے پہلے مودی کو عرب ملکوں نے اعزازات اور تمغوں سے لاد دیا۔ یہ اعزازات اور تمغے مسلمانوں کے کس عظیم کاز کی خدمت کے عوض دیے گئے؟ شاید مودی بھی دل ہی دل میں اس پر ہنستا رہا ہوگا۔ اُس وقت بھی مودی کے نامۂ عمل میں کشمیر سے گجرات تک کی لہو رنگ داستانیں ہی نمایاں تھیں، مگر عرب بھائی اس کے باوجود مودی پر تمغوں کی برسات جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ حقیقت میں پاکستان کو چڑانے اور کچھ آزادانہ فیصلوں کی سزا دینے کی کوشش تھی۔ حد تو یہ کہ سعودی عرب کی طرف سے اس معاملے میں اسی انداز کے ’’صبر وشکر‘‘کی تلقین کی جاتی رہی جس کا مظاہرہ عرب بھائی مدتِ دراز سے فلسطین کے معاملے میں کرتے چلے آرہے ہیں، اور اس صبر وشکر کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین کا ایک خوبصورت اور قابلِ قبول حل ازخود وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نکل رہا ہے، وہ حل یہ ہے کہ فلسطین جو مسئلہ فلسطین پیدا ہوتے وقت ایک دائرہ تھا اب 72 برس بعد سکڑتے سکڑتے ایک نقطہ رہ گیا ہے، اور صبر وشکر کا یہی اعلیٰ معیار قائم رہا تو یہ نقطہ دیکھنے کے لیے محدب عدسے کی ضرورت پیش آئے گی، پھر کسی روز یہ تحلیل ہوجائے گا۔
پاکستان نے رویّے بدلنے کی موہوم امید پر ملائشیا کانفرنس کو بے اثر بنایا اور پاکستان کی شرکت کے بغیر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ قدآور رجب طیب اردوان، مدبر مہاتیر محمد اور مالدار اور کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھنے والے حسن روحانی کے ساتھ پاکستان کی طاقت اور توانائی شامل نہ ہوئی تو یہ صفر اور ایک کا معاملہ ہی ثابت ہوا۔ یہ پاکستان کا وہ پوٹینشل ہے جس کو ایک منظم انداز سے تباہ کیا گیا ہے۔ جس دن پاکستان اس مثلث میں شامل ہوکر مستطیل بنائے گا اوآئی سی کا وجود کٹی پتنگ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ اسلامی تعاون تنظیم ایک ایسی مُہر ہے جو سعودی عرب کی دراز میں بند ہے، اور سعودی حکمران اس دراز کی چابی بحیرۂ عرب میں پھینک چکے ہیں، یا یہ ہیکلِ سلیمانی کی بنیادوں میں کہیں دفن کردی گئی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم میں اب اسلام اس کیفیت سے دوچار ہے:
میر کے دین ومذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترکِ اسلام کیا
تعاون بھی کبھی محدب عدسے سے بھی دیکھنے اور ڈھونڈے سے نہیں ملا۔ لے دے کر تنظیم باقی رہ گئی تھی، شاہ محمود قریشی نے اس کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ حقیقت میں او آئی سی اپنے نام کی طرح اپنے وجود اور اس کے جواز کی طبعی عمر پوری کرچکی ہے۔ اس نے فلسطین نامی حقیقت کے افسانہ بننے کے عمل میں جس کمالِ مہارت اور ڈھٹائی سے انجوائے کیا ہے اب یہ کشمیر نامی حقیقت کو اسی صبر وشکر اور ذوق وشوق کے ساتھ افسانہ بنتے دیکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان اس افسانوی انداز کا متحمل نہیں ہوسکتا، اسے یہ اندازہ ہے کہ افسانوں میں ڈھل جانے کا عمل کہیں رکنے والا نہیں، اور مودی نے بھی اس راز کو اب راز نہیں رہنے دیا۔ اُن لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو اپنے وجود کو خود سپردگی کی نذر کرنے والی اور اپنے وجود کی حقیقت کو افسانے، اور آگ کو راکھ میں بدلتا دیکھنے والی عرب دنیا کی اس ادا کا جواب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں دینا چاہتے ہیں۔ عرب دنیا… مگرکون سی عرب دنیا؟ جس نے فلسطین کے ڈوبنے کے منظر کو انجوائے کیا۔ اس کا انتقام فلسطینی عوام سے لینا قرین انصاف نہیں۔ فلسطین اب عرب اور غیر عرب دنیا کا معاملہ نہیں بلکہ اصول اور غیر اصولی کا مسئلہ ہے۔ فلسطین ترکی، ایران، ملائشیا، قطر اور پاکستان کا مسئلہ ہے جو ایک اصول پر کھڑے ہونے کی تمنا دلوں میں پالے ہوئے ہیں۔ اس قطار سے باہر والوں کا مسئلہ اسرائیل ہے۔ فلسطین پر ایک اصول کو قربان کرکے کشمیر پر ہم اسی اصول پر کیونکر کھڑے رہ سکتے ہیں؟ یہ عربوں سے نہیں اپنے آپ سے انتقام ہوگا۔ او آئی سی کو اب راکھ ہوجانا ہے، اور اس خاکستر سے ایک نئی چنگاری کا نمودار ہونا نوشتۂ دیوار ہے۔