اسی ہفتے احمد حاطب صدیقی کے دائرئہ علم و ادب میں اطہر ہاشمی صاحب کا واٹس ایپ نمبر نظر آیا تو بہت حیرت ہوئی، جی چاہا کہ اس ترقی پر آپ کو مبارک باد دی جائے، اور اب سے دو روز قبل ان سے فون پر کچھ ہلکی پھلکی ہنسی مذاق کی باتیں ہوئیں، انہوں نے بتایا کہ وہ آفس جارہے ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے اپنی عادتیں نہیں بدلی ہیں، فون کو صرف بات چیت کے لیے استعمال کرتے ہیں، بچے واٹس ایپ وغیرہ دیکھ کر بتلاتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر دل خوش ہوا۔ وہ بڑی اپنائیت سے بات کررہے تھے، لیکن آج صبح ان کی دائمی جدائی کی خبر آئی تو دل دھک سے بیٹھ گیا، خبر ماننے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، عجیب کیفیت ہوئی، لیکن جانے والا اپنے رب کی بارگاہ میں جا چکا تھا۔
جنوری 2015ء سے آپ کے کالم(خبر لیجے زباں بگڑی) پر نظر پڑنے لگی، یہ ہمیں اتنا پسند آیا جتنا کسی زمانے میں مشفق خواجہ کا کالم سخن در سخن پسند آیا کرتا تھا،اور جس کا انتظار ہوا کرتا تھا۔ دونوں کا موضوع الگ تھا، لیکن بے ساختگی اور بانکپن میں مماثلت ضرور تھی۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں سوشل میڈیا کا دور ملا، ای میل گروپوں، فیس بک اور واٹس ایپ پر ہم نے ان کی پوسٹنگ شروع کردی، اور پابندی سے ترسیل کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران ہم نے اس بات کا اہتمام کیا کہ قارئین کے تاثرات اور تبصروں کو جمع کرکے ہاشمی صاحب کو بھیجتے رہیں۔ ہاشمی صاحب ای میل نہیں دیکھتے تھے، رابطے کے لیے انہوں نے فرائیڈے اسپیشل کے جناب شکیل صاحب سے ملوا دیا، جو موصولہ تبصروں کو ہاشمی صاحب تک پہنچاتے تھے۔ اس دوران فرائیڈے اسپیشل کی ویب سائٹ مشکلات سے دوچار رہی تو اہتمام سے اپنے دستیاب کالموں کی اِن پیج فائل بھجوا دی۔ان سے بات چیت کے بعد گزشتہ دو روز کے اندر ہم نے انہیں کالموں پر موصولہ 6 تبصرے واٹس ایپ سے بھیج دیے تھے، لیکن ان کا جواب کیا آتا؟ آپ کے اِس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر نے دلوں کو مغموم کردیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ایک ڈیڑھ سال قبل انہیں بڑی پریشانیاں ہوئی تھیں، وہ خود سخت بیمار ہوئے، پھر ان کی اہلیہ شدید بیمار ہوئیں تو ٹوٹ سے گئے، باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ زندگی کا ساتھ نہ چھوڑیں، پہلے نہ جائیں۔ کسے معلوم تھا کہ یہ مزاح نہیں تھا، دردِ دل کی آرزو تھی، جو قبول ہوئی۔ پھر حالات میں ٹھیراؤ آگیا، روزانہ کے معمولات میں مشغول ہوگئے، بجھتی لو کی طرح جو بجھنے سے پہلے بھڑک اٹھتی ہے۔
ہاشمی صاحب نے زندگی کی 74 بہاریں دیکھیں۔ آپ کا آبائی وطن قصبہ راجو پور تھا۔ یہ قصبہ پہلے ضلع مظفرنگر میں واقع تھا، چند برس پہلے نئی ریاست اتراکھنڈ کے ضلع ہری دوار میں آگیا۔ یہ قصبہ راجوپور شہر دیوبند سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مشہور عالم مولانا کاشف الہاشمیؒ ان کے چچا تھے۔ اور دارالعلوم کراچی کے ناظم مولانا راحت علی ہاشمی آپ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ تعلیمی مراحل ایف سی کالج لاہور، اور کراچی یونیورسٹی میں مکمل کیے۔ صحافت ان کا ترجیحی میدان نہیں تھا، لیکن 1979ء کے حالات میں اتفاقی طور پر انہوں نے جسارت کراچی میں لکھنا شروع کردیا، اور پھر اسی کے اسیر ہوگئے۔ اس دوران جب جدہ سے اردو نیوز جاری ہوا تو اسلامی فکر سے وابستہ اردو صحافیوں کی ایک ٹیم اس سے وابستہ ہوئی۔ جب 1990ء میں سعودی عرب میں سعودی نائزیشن شروع ہوا تو پھر آپ واپس آکر جسارت سے دوبارہ وابستہ ہوگئے۔ اب کے وہ اس میں چیف ایڈیٹر کے منصب پر فائز ہوئے اور آخر دم تک اس منصب پر رہے۔ آپ نے جنگ لندن، روزنامہ امت کراچی میں بھی وقتاً فوقتاً ذمہ داریاں سنبھالیں۔
ہاشمی صاحب سے بالمشافہ ملنے کا ہمیں کبھی موقع نہیں ملا، لیکن جب بھی فون پر بات ہوئی بڑی اپنائیت کا احساس ہوا۔ وہ بے پناہ سادگی اور بے تکلفی کے عادی تھے، ان کی بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ اپنی ذات کے بارے میں کہنے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا، ان میں ایک کامیاب استاد اور رہنما کی صفات بہ درجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ انہوں نے اپنی تربیت میں صحافیوں اور لکھنے والوں کی ایک قطار کھڑی کی ہے۔ ان کی زندگی ہمیشہ مشعلِ راہ بن کر آئندہ نسلوں کو روشنی فراہم کرتی رہے گی۔ ایک عظیم انسان ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے،اسے دیکھنے والوں کی گواہی ہے کہ اس نے ایک روشن اور اجلی زندگی گزاری، اس کا کردار داغ دھبوں سے پاک تھا، وہ چاہتا تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکتا تھا، لیکن اس نے اپنے فرضِ منصبی کا حق ادا کیا، اب ہم اس کی مغفرت اور بلندیِ درجات کے لیے دعائیں ہی کرسکتے ہیں۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ۔