چمن سرحد واقعہ، ذمہ دار کون؟۔

تحقیق ہونی چاہیے کہ اتنے لمبے عرصے تک دھرنے کے شرکاء سے منطقی گفت و شنید کیوں نہیں کی گئی

۔8 اکتوبر2001ء کو افغانستان پرامریکہ 44 ممالک کی فوجوں کے ساتھ حملہ آورہواتھا۔ نومبر2001ء میں جرمنی کے شہر بون میں استعماری دروبست کے تحت حامد کرزئی کی صدارت میں افغانستان کے لیے عبوری حکومت بنائی گئی تھی۔ پرویزمشرف رجیم اس سیاہ واردات میں آلہ کار تھی۔ کابل کے انصرام کے ساتھ ہی بھارت نے بالادستی حاصل کرلی۔ پاکستان بے دخل کردیا گیا۔ کرزئی اور اُس کی حکومت نے پاکستان مخالف شعار اپنایا۔ مختلف محکموں اور وزارتوں میں بھارتی مشیر و معاونین تعینات ہوئے۔ افغانستان سے متصل سرحدیں غیر محفوظ ہوئیں، غیر یقینی حالات پیدا ہوگئے۔ دراندازی شروع ہوئی، سرحدوں پر فورسز پر حملوں اور جھڑپوں کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔ ایسا ہنوز ہورہا ہے۔ 5 اگست کو دیر میں سرحد پار سے بھاری ہتھیاروں سے حملہ، اور چمن سرحد کا حالیہ واقعہ اس کی تازہ مثال ہیں۔ البتہ آخرکار حامد کرزئی کو ماننا پڑا کہ اُن کا ملک آزاد نہیں۔ انہوں نے امریکہ سے سیکورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا، نئی دہلی میں بھارتی صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان برادر ملک ہیں۔ بھارت اور اس کی لابی نے دونوں ملکوں کے مابین خلیج کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ پاکستان کے اندر بعض سیاسی حلقے اس لابی کے زیرِدست و زیراثر ہیں۔ جبکہ پاکستان کی intelligensia نے ان حلقوں کے مفسد و لغو بیانیے کو سنجیدہ نہیں لیا ہے، حالانکہ اس کا مؤثر طور پر رد ہونا چاہیے، تاکہ نوجوان نسل مزید ان کے فریب میں مبتلا نہ ہو۔ پاک افغان سرحدی شہر چمن کے واقعے کو لے لیجیے جسے بروقت سلجھانے میں حکومت اور عوام کے نمائندے ناکام رہے، نتیجتاً حکومت و ریاست کو سبکی اُٹھانی پڑی۔ حیرت ہے کہ چمن میں جون2020ء سے دھرنا جاری تھا۔ افغانستان کو جانے والی اہم شاہراہ بند رکھی گئی تھی۔ احتجاج کرنے والے پاکستانی حکام کی جانب سے سرحد کی بندش پر معترض تھے کہ اس اقدام سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے رزق وروزی کا وسیلہ بند ہوا۔ دھرنے میں تاجر،کاروباری لوگ اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے متاثرین بالخصوص شریک رہے۔ صوبے کے مختلف علاقوں سے لوگ یکجہتی کے لیے جاتے، الٹے سیدھے نعرے لگتے، تقریریں ہوتیں، بعض تبرا بازی کرتے۔ مگر اس پورے منظرنامے میں وزیراعلیٰ جام کمال، ان کی کابینہ اور نہ ہی اسمبلی کا فورم بلاتخصیص حزبِ اقتدار و اختلاف معاملے کی نزاکت کو سمجھ سکے۔ قلعہ عبداللہ کی انتظامیہ اور فرنٹیئر کور حکام بھی بری الذمہ نہیں ہیں۔ یوں30 جولائی کو ہجوم نے حملہ آور ہوکر سرکار کی عمل داری کی دھجیاں اڑا دیں۔ نادرا مرکز نذرِ آتش کردیا، قریب قائم قرنطینہ مرکز جلا ڈالا، اور بڑھ کر سرحدی گیٹ باب دوستی توڑ ڈالا، لوٹ مار ہوئی۔ عین اسی لمحے افغانستان کی جانب سے بھی پتھرائو اور اشتعال کا ماحول بنایا گیا تھا۔ وہاں کی بے مہار فور سز سرحد پر جمع تھیں۔ یہاں تک کہ یہ فورسز پاکستان کی حدود میں داخل ہوگئی تھیں۔ اس دوران ہزاروں افغان باشندے پاکستان سے افغانستان داخل ہوگئے۔ اُس پار سے بھی لوگ پاکستان آئے۔ ظاہر ہے کہ افغانستان جانے والے افراد میں سے شاید ہی کوئی شخص دستاویز کا حامل ہوگا۔ اور یہ معمول ہے کہ افغان باشندے پاکستان بغیر سفری دستاویزات کے آتے جاتے ہیں۔ گویا سول و دوسری فورسز یرغمال بن گئیں۔ ہجوم میں بھی لوگ اسلحہ رکھے ہوئے تھے۔ انہیں روکنے اور منتشر کرنے کی غرض سے آنسو گیس کا استعمال ہوا، فائرنگ ہوئی، خاتون سمیت چھ افراد جاں بحق ہوگئے۔ مزید برآں افغانستان کی طرف سے شر و فسادکے تدارک کے پیش نظر پاکستان کی سرحدی فورسز نے گولے داغے۔ اطلاعات ہیں کہ وہاں پندرہ افغان باشندے جاں بحق ہوئے اور درجنوں زخمی بھی ہوئے۔ دراصل دونوں جانب کی صلاح اس گڑبڑ میں شامل تھی۔ مگر ہمارے ہاں بے خبری کا عالم تھا۔ چناں چہ تحقیق ہونی چاہیے کہ اتنے لمبے عرصے تک دھرنے کے شرکاء سے منطقی گفت و شنید کیوں نہیں کی گئی۔ صوبائی حکومت اور وہاں تعینات ایف سی ذمے داران جواب دہ ہیں۔ بالعموم اسمبلی کے اندر حزبِ اختلاف بھی لاتعلق نہیں ٹھیرائی جاسکتی۔ قلعہ عبداللہ کی سول انتظامیہ سے بازپرس ہو، اور اُن افراد کے خلاف ایکشن ہو، جنہوں نے لوگوں کو سرکاری املاک اور فورسز پر دھاوا بولنے کی ترغیب دی ہے۔ یاد رکھا جائے کہ سرحد کا یہ مسئلہ بہت ہی گمبھیر ہے۔ لوگوں کو مزدوری، تجارت اور آمدورفت سے یک لخت روکا نہیں جاسکتا۔ سرحد کے لیے قابلِ قبول اور مربوط میکنزم کی ضرورت ہے۔ نیزافغانستان کے تناظر میں پشتون زعماء بھی بے سرو پا منطق پیش نہ کریں، نہ معروضی حقائق سے آنکھیں پھیریں۔ گویا اُن کی افغانستان کو ایک آزاد اور جمہوری روایات کا حامل ملک باور کرانے کی رٹ دراصل قوم و نوجوان نسل کو راہ سے ہٹانے کی ناروا کوشش ہے۔ لہٰذا خود بھی مداخلت سے اجتناب برتیں اور کابل کی حکومت کو بھی تلقین کی جائے جس کی تمام حکومتی مشنری فی الواقع بھارت کے انتظام میں ہے۔ افغان عوام کسی افغان کی بے دخلی کے بجائے قابض خارجی افواج کے انخلا کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ 29 فروری 2020ء کے دوحہ معاہدے میں امریکہ تسلیم کرچکا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے اور فوجی اڈے ختم کرنے کا پابند ہے۔ اور یقیناً ملک کا استقلال تب قائم ہوگا جب وہاں کا اختیار اور اقتدارِ اعلیٰ وہاں کے عوام کے ہاتھ میں ہو۔ عجیب بات ہے کہ جب پرویزمشرف افغانستان پر حملے میں امریکہ کا اتحادی بنا تب ان زعماء کی نگاہ میں سب کچھ جائز تھا۔ گویا غیر ملکی تسلط کے حامی و موید زعماء اسی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں، جو ماضی میں سوویت یونین کے فوجی قبضے کے دوران ماسکو کے من و سلویٰ سے شکم بھرتے تھے۔ جیسے ذکر ہوا کہ پاکستان اور افغانستان ہی دراصل ایک دوسرے سے جڑے ہیں، سابق افغان صدر حامد کرزئی نے نئی دہلی میں بھارتی صحافیوں کو جواب میں کہا تھا کہ بھارت یقیناً افغانستان کا دوست ملک ہے لیکن پاکستان برادر ملک ہے۔ غرض حالیہ چمن سرحد واقعہ سبوتاژ اور تخریبی تھیوری کا حصہ ہے۔ چناں چہ پاکستان اپنے عوام کو کسی صورت متنفر نہ ہونے دے۔