خوراک کا خاتمہ

موسم ہرجگہ ایک سے نہیں ہیں، مختلف خطے مختلف فصلیں اُگاتے ہیں، سازگاری میں مختلف برتاؤ کرتے ہیں۔مگرآج صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ کھیتی باڑی کی فضا ہر جگہ مرجھا رہی ہے۔ اگر اس صدی کے آخر تک کرۂ زمین مزید پانچ ڈگری گرم ہوجاتا ہے، توپچاس فیصد مزید بھوکے انسان اور پچاس فیصد اناج کی کمی ہمارے سب سے بڑے مسائل بن جائیں گے۔ ماہرین روزامنڈنیلر اور ڈیوڈ بیٹسٹی نے ظاہر کیا ہے کہ گرم علاقے پہلے ہی قابلِ زراعت نہیں ہیں، اور جہاں جہاں زمین زرخیز ہے وہاں دن بہ دن درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ذرا سی بھی زیادہ گرمی سے زیادہ زرعی پیداوارگھٹتی چلی جائے گی۔
شاید قحط حدت سے بھی بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ دنیا کے سب سے زرخیز خطے تیزی سے ریگستان بنتے جارہے ہیں۔ ترسیب ایک ناپسندیدہ نمونہ ہے، اُس پر اس صدی کے اواخر کے لیے پیش گوئیاں بنیادی طور پر متفق ہیں: ہر جانب بے نظیر قحط پڑجائیں گے۔ سن2080ء تک اگرکاربن کے اخراج میں ڈرامائی کمی نہ کی گئی تو جنوبی یورپ شدید قحط کی لپیٹ میں آجائے گا۔ یہی صورتِ حال عراق، شام، اور بیشتر مشرق وسطیٰ میں بھی سامنے آئے گی۔ آسٹریلیا کے بہت زیادہ گنجان آباد علاقے، افریقہ، اورجنوبی امریکہ میں بھی یہی حالات بن جائیں گے۔ چین کے انتہائی زرخیز ترین breadbasket خطے بھی قحط سے دوچار ہوجائیں گے۔ ان میں سے کوئی بھی مقام، جو آج دنیا کا سب سے زیادہ اناج پیدا کررہا ہے، قابلِ بھروسا ذرائع’’خوراک‘‘ نہیں رہے گا۔
یاد رہے ہم ایک ایسی دنیا میں نہیں رہتے کہ جہاں بھوک کا کوئی وجود نہ ہو۔ اکثر تخمینے کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اسّی کروڑ انسان ضروری خوراک سے محروم ہیں۔افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی ریکارڈ قحط آچکا ہے۔ ادارہ اقوام متحدہ مختلف موقعوں پر صومالیہ، جنوبی سوڈان، نائیجیریا، اور یمن کو بھوک سے ہلاکتوں کے امکان پر خبردار کرتا رہا ہے، یہ ہلاکتیں سالانہ دوکروڑ تک رہی ہیں۔
موسمی وبائیں: کیا ہوگا کہ جب ببونک (وبائی، جراثیمی) آئس پگھلے گی؟
چٹانیں، انجان صدیوں سے ارضی تاریخ اپنی تہوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح برف کام کرتی ہے، موسموں کا کھاتا جمائے رکھتی ہے۔ یہ منجمد تاریخ ہے، مگر پگھل جائے تو پھر سے حرکت میں آسکتی ہے۔ جیسا کہ آرکٹک آئس میں آج بھی بیماریوں کی صورت جمی ہوئی ہے، اور کروڑوں سال سے فضا میں گردش نہیںکرسکی ہے۔ ان میں سے بہت سی وہ نامعلوم وبائیں ہیں جن سے آج کے انسان کا امیون سسٹم (دفاعی نظام) شناسا بھی ہے یا نہیں، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ نہ جانے ما قبل تاریخ کی یہ بیماریاں کس نوعیت کی ہوں گی۔
آرکٹک میں حالیہ وقتوں ہی سے بہت خوفناک جرثومے جمع ہوچکے ہیں۔ امریکی ریاست الاسکا کی برف میں محققین کو 1918ء فلو کی باقیات مل چکی ہیں، جس نے پچاس کروڑ انسانوں کو متاثر کیا تھا، اوردس کروڑ کی جان لی تھی، جو اُس وقت دنیا کی آبادی کا پانچ فیصد تھی۔ سائنس دانوں کوشبہ ہے کہ سائبیرین برف میں بھی جراثیمی وبائیں جمع ہیں۔ یوںسمجھیں کہ انسانی بیماریوں کی مختصر تاریخ آرکٹک میں محفوظ ہے۔ بتیس ہزار سال قدیم بیکٹیریاextremophile سن 2005ء میں ازسرنو زندہ ہوچکا ہے۔ اسّی لاکھ سال پرانا ایک جرثومہ سن 2007ء میں پھر سے زندہ کیا جاچکا ہے۔ جو چیز ماہرینِ وبا کو زیادہ پریشان کررہی ہے، وہ قدیم بیماریوں سے زیادہ موجودہ متعدی امراض ہیں، جوحدت کے سبب مقامات بدل رہے ہیں اورخود کو دہرا رہے ہیں۔
آج کی دنیا میں، کہ جب عالمگیریت ہے، آبادیوں میں بھرپور ملنا جلنا ہے، ہمارا ماحولیاتی نظام مستحکم ہے۔ مگر عالمی حدت اس ماحولیاتی نظام کو اُتھل پُتھل کرسکتی ہے۔ آپ اگر امریکی ریاست میں یا ملک فرانس میں رہتے ہیں تو ڈینگی یا ملیریا سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگرگرمی شمال کی طرف بڑھنے لگے اور مچھر بھی ساتھ ہی سفر کرجائیں، تو پھر پریشانی ساتھ ساتھ منتقل ہوجائے گی۔
ہم اس بارے میں پُریقین نہیں ہیں کہ بدلتا موسم کس طرح بیماریوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ سائنس دان درحقیقت نہیں جانتے کہ وہ کیا کچھ سمجھ چکے ہیں، اور کیا کچھ نہیں جان سکے ہیں۔ مثال کے طور پرملیریا ہے، جوگرم موسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے، اور ہر بڑھتے درجے میں دس گنا زیادہ تیزی سے بیماری پھیلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ بینک نے تخمینہ لگایا ہے کہ سن 2050ء تک 5.2 ارب انسان اس سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوں گے۔
ایسی ہوا، کہ سانس لینا دشوار ہوجائے…ایک جان لیوا اسماگ، جوکروڑوں انسانوں میں گھٹن پیدا کردے
ہمارے پھیپھڑوں کو آکسیجن کی ضرورت ہے، مگر یہ ضرورت ہماری سانس کا محض ایک جُز ہے۔ جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا جُز بڑھتا جارہا ہے، کُل بنتا جارہا ہے: یہ فی دس لاکھ چارسو حصوں کونگل چکا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ سن 2100ء میں فی دس لاکھ ہزار حصوں تک چلا جائے گا۔ اس ارتکاز پر، اُس ہوا سے اگر موازنہ کیا جائے کہ جس میں ہم آج سانس لے رہے ہیں، انسان کی حسی صلاحیت اکیس فیصد گھٹ جاتی ہے۔ گرم ہوا کے دیگر اجزائے ترکیبی اور بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ فضا میں آلودگی کا معمولی سا اضافہ بھی انسانی زندگی کی مدت دس سال گھٹا دیتا ہے۔ جوں جوں کرۂ ارض گرم ہورہا ہے، اور مزید اوزون تشکیل دے رہا ہے، اکیسویں صدی کے وسط تک امریکی ممکنہ طور پر ستّر فیصد اضافی مضر صحت اوزون اسماگ میں زندگی بسر کریں گے، جیسا کہ نیشنل سینٹر برائے ماحولیاتی تحقیق نے محقق کیا ہے۔ سن2090ء تک دو ارب انسان اُس ہوا میں سانس لے رہے ہوں گے کہ جو عالمی ادارۂ صحت کی مقرر کردہ ’محفوظ‘ سطح سے تجاوزکرچکی ہوگی۔
پہلے ہی دس ہزار سے زائد لوگ روزانہ قدرتی ایندھن سے خارج ذرات کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں۔ ہر سال 339,000 افراد جنگلات کی آگ سے بننے والے دھویں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ بدلتے موسم کے سبب جنگلات میں آگ بھڑکنے کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔ امریکہ میں1970ء سے اب تک جنگلات میں آگ بھڑکنے کی مدت 78 روز بڑھ چکی ہے۔ امریکہ کی فاریسٹ سروس کے مطابق سن 2050ء تک جنگلات کی آگ دگنی تباہ کُن ہوجائے گی، اور کچھ علاقوں میں یہ پانچ گنا زائد بڑھ جائے گی۔ جو بات زیادہ تشویش ناک ہے، وہ یہ کہ جنگلات کی یہ آگ نباتاتی کوئلے سے جو دھواں اٹھائے گی، وہ انتہائی زہریلا ہوگا۔ اس کی ایک مثال انڈونیشیا کے ایک نباتاتی دلدلی جنگل میں بھڑکنے والی وہ آگ ہے جس کی آلودگی نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عالمی اخراج میں چالیس فیصد اضافہ کردیا تھا۔ مزید آگ کا مطلب مزید گرمی ہے، اور مزید گرمی کا مطلب مزید آگ ہے۔ ایمازون جیسے بارشوں والے جنگل کے لیے بھی خدشات ہوسکتے ہیں، کہ جو پہلے ہی سن 2010ء میں دوسرے ’’سوسالہ قحط‘‘ سے گزرچکا ہے، اور یہ قحط سالی پانچ سال تک رہی، اور مستقبل میں یہ اُس حد تک خشک پڑسکتا ہے کہ آگ بھڑکنے کے سلسلے چل سکتے ہیں۔ یہ سلسلے نہ صرف فضا میں کاربن کی مقدار خوفناک حد تک بڑھا سکتے ہیں بلکہ جنگلات کا رقبہ بھی گھٹا سکتے ہیں۔ اس کی بہت زیادہ اہمیت اس لیے ہے کہ ایمازون تنہا پوری دنیا کو بیس فیصد آکسیجن مہیا کرتا ہے۔
یہاں فضائی آلودگی کے اور بھی کئی جانے پہچانے نمونے موجود ہیں۔ 2013ء میں آرکٹک کی پگھلتی برف نے ایشیا کے موسمی نمونے بدل دیے تھے، صنعتی چین کو قدرتی ہواداری(ventilation) کے نظام سے محروم کردیا تھا،کہ جس پر اُس کا بہت انحصار تھا۔ اور اب شمال کا بہت بڑا علاقہ مضر صحت اسماگ کی لپیٹ میں رہتا ہے۔
جنگ مسلسل :تشدد حدت میں پک جائے گا
ماہرینِ ماحولیات جب شام کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں تو بہت محتاط لب ولہجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب بدلتا موسم قحط برپا کرے گا، اور جس کے سبب خانہ جنگی پھوٹ پڑے گی، تب یہ کہنا درست ہوگا کہ تنازعے کا سبب محض ’’حدت‘‘ ہے، کیونکہ پڑوس لبنان میں بھی فصلیں اچھی نہ ہوئی ہوں گی۔ تاہم محققین، جیسے کہ مارشل برک اورسولومون سیانگ کہتے ہیں کہ درجہ حرارت اور تشدد میں گہرا تعلق ہے: ہر آدھا درجہ ڈگری بڑھنے پر معاشرے مسلح تنازعات میں دس سے بیس فیصد اضافہ دیکھیں گے۔ ماحولیات کی سائنس کہتی ہے کہ کچھ بھی سادہ نہیں، دراصل اعدادوشمار دل خراش ہیں: رواں صدی میں معاشرتی تصادم دگنے ہوسکتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے جس بھی سائنس دان سے بات کی، اُس نے یہ نشاندہی ضرور کی کہ امریکی فوج بدلتے موسم کی لپیٹ میں ہے، اس کے وہم میں مبتلا ہے۔ سمندروں کی بلند ہوتی لہروں میں امریکی نیوی کے اڈے ڈوب جائیں گے، اور دنیا کا پولیس مین بڑی مشکل میں پڑجائے گا۔ اُس پر مستزاد یہ کہ جرائم کی شرح دگنی ہوجائے گی، جن سے نمٹنا امریکہ کے بس میں نہ ہوگا۔ یقیناً یہ صرف شام نہ ہوگا کہ جہاں موسم کی گرمی تنازعے کا سبب بنے گی، بلکہ پوری دنیا کا یہی مقدر ہوگا۔ موسم اور جنگ کا یہ تعلق بڑی بڑی ہجرتوں کا سبب بن جائے گا۔ جبکہ پہلے ہی چھے کروڑ پچاس لاکھ مہاجرین دنیا بھرمیں در بہ در ہیں۔
(جاری ہے)