کبوتر بولا: ’’ہاں ایسا ہی ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اس صحرا میں ایک لومڑی آنکلی ہے۔ ہر روز یہاں آدھمکتی ہے اور مجھ سے میرا ایک بچہ لے جاتی ہے اور ایک روز کی مہلت دیتی ہے، اور کہتی ہے کہ اگر میں یہاں سے جائوں گا نہیں تو میرے سارے بچے کھا جائے گی۔ جب تک میرے بچے اُڑنے کے قابل نہیں ہوجاتے، میں یہاں سے نہیں جاسکتا اور مجھے معلوم نہیں میں کیا کروں، کدھر جائوں؟‘‘
بوتیمار آہ بھر کر بولا: ’’کاش تم نے یہ باتیں مجھے پہلے بتائی ہوتیں۔ میں بوتیمار ہوں، خیردان، خیر فہم اور خیر شناس ہوں۔ ہر مشکل حل کرلیتا ہوں اور کسی وقت بھی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا۔ تمہارے دکھ کا علاج بھی ہے۔ ذرا صبر کرو، میں ابھی واپس آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ تمہیں کیا کام کرنا چاہیے‘‘۔
بوتیمار چلا گیا۔ اس نے دریا سے ایک چھوٹی سی مچھلی پکڑی۔ اس کے شکم کو چاک کرکے اس میں تھوڑا سا سانپ کا زہر بھرا۔ پھر وہ مچھلی، کبوتر کے پاس لایا اور بولا: ’’ذرا کان کھول کر سنو اور دیکھو میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اول یہ کہ لومڑی تمہیں خوامخواہ ڈرا رہی ہے اور وہ درخت پر چڑھ کر اوپر نہیں آسکتی۔ جو کچھ وہ کہتی ہے جھوٹ ہے۔ وہ یہ حیلہ اس لیے استعمال کرتی ہے کہ تم سے تمہارا بچہ ہتھیا سکے۔ دوسرے یہ کہ لومڑی کا علاج آسان ہے۔ تم یہ مچھلی لے لو اور اس کی حفاظت کرو۔ اس مچھلی کا پیٹ سانپ کے زہر سے پُر ہے۔ کل جب لومڑی آئے اور داد فریاد کرے تو اسے صاف کہہ دینا: ’’میں اس جگہ سے کہیں نہیں جارہا اور درخت خود میری ملکیت ہے۔ تمہیں جو کرنا ہے کرلو‘‘۔ اس وقت تم دیکھوگے کہ لومڑی درخت پر چڑھ کر اوپر نہیں آسکتی، چناں چہ وہ واپس چلی جائے گی۔ لیکن اگر تم دیکھو کہ وہ واقعی درخت پر چڑ کر اوپر آرہی ہے تو اسے کہنا کہ میں مذاق کررہا تھا اور میں آج بھی ایک بچہ تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ اس وقت اسے اپنا بچہ دینے کے بجائے یہ مچھلی دے دینا۔ لومڑی نے کبھی مچھلی نہیں دیکھی اور اسے معلوم نہ ہوگا کہ یہ کیا ہے۔ اگر وہ پوچھ ہی لے کہ بچہ اس طرح کیسے ہوگیا، تو کہنا تمہارے ڈر سے اس کا یہ حال ہوگیا ہے۔ لومڑی یہ زہر بھری مچھلی کھا جائے گی اور اپنے انجام کو پہنچے گی۔ اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے۔ اگر وہ نہ بھی مری، میں ہر روز ایک زہر بھری مچھلی لایا کروں گا حتیٰ کہ لومڑی کے جسم میں آہستہ آہستہ زہر پھیلتا جائے گا۔ ہر کوئی بری غذا سے رفتہ رفتہ مسموم ہوجاتا ہے‘‘۔
کبوتر نے بگلے کو دعا دی اور کہا: ’’خدا تمہیں سلامت رکھے۔ لوگ ایسے ہی نہیں کہتے کہ بوتیمار لوگوں کا غم خوار ہے۔ خدا تمہیں دریا اور مچھلیاں بخشے۔ خدا تمہیں عمرْ نوحؑ عطا کرے۔ خدا کرے تمہارا واسطہ ہمیشہ خیر و برکت سے ہو‘‘۔
بوتیمار بولا: ’’بالکل۔ اگر کسی شخص کے ہوش و حواس بجا ہوں تو بے چاری لومڑی تو کیا شیر اور بھیڑیا بھی اسے دھوکا نہیں دے سکتے۔ کل ظہر کے وقت ملاقات ہوگی‘‘۔
کبوتر نے مچھلی کو حفاظت سے رکھا۔ اگلے دن لومڑی صبح صبح آئی اور اس نے آواز نکالی۔ کبوتر نے دل میں سوچا کہ لومڑی کے ساتھ شوخی مذاق نہیں چلے گا۔ بہتر یہ ہے کہ میں اسی سوراخ میں بیٹھا رہوں گویا میں نے اس کی آواز نہیں سنی۔ اگر لومڑی واپس چلی گئی تو معلوم ہوجائے گا کہ بوتیمار کی بات درست تھی، یعنی یہ کہ لومڑی درخت کے اوپر نہیں آسکتی۔ لیکن اگر وہ اوپر آگئی تو میں یہ مچھلی اس کو دے دوں گا اور کہوں گا کہ میں نیند میں تھا، نہ سمجھ پایا۔ میں کہوں گا کہ کل رات ایک سانپ یہاں آگیا تھا اور ہم خوف سے صبح تک جاگتے رہے۔ صبح نیند آگئی۔ میرے بچے بھی خوف سے بیمار ہوگئے ہیں۔ میں اس طرح کی باتیں کرکے……‘‘
کبوتر نے یہی کیا۔ لومڑی نے چند بار آواز لگائی اور پھر بولی: ’’جواب نہیں دیتے۔ میں ابھی تمہیں تمہارے کیے کی سزا دیتی ہوں۔ میں خود اوپر آتی ہوں اور تمہارے سارے بچے کھاتی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے درخت پر اپنے پنجے مارنے شروع کردیئے۔
کبوتر درخت کی چھال پر پنجوں کی رگڑ سے ڈر گیا اور سمجھا کہ لومڑی اوپر آرہی ہے۔ وہ فوراً سوراخ کی طرف لپکا اور بولا: ’’کیا خبر ہے؟‘‘ لومڑی بولی: ’’چاہتے ہو کہ کیا خبر ہو؟ یا بچہ میرے حوالے کرو یا میں اوپر آکر تمہارے سارے بچے کھاتی ہوں‘‘۔ کبوتر بولا: ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن تم اس قدر اونچی بول رہی ہو کہ سب کو ڈرا رہی ہو اور میرے بچے ڈر اور خوف سے بیمار ہوگئے ہیں۔ یہ لو ایک بچہ، لیکن یاد رکھنا یہ میں نے گروی رکھا ہے۔ اسے پوری حفاظت سے رکھنا‘‘۔ یہ کہا اور مچھلی لومڑی کے آگے پھینک دی۔
لومڑی کبوتر کے سامنے مچھلی کو کھاگئی اور بولی: ’’یہ کس طرح کا بچہ تھا؟‘‘ کبوتر بولا: ’’بچہ خوف سے اس طرح ہوگیا تھا۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ شور سے لوگ مریض بن جاتے ہیں!‘‘ لومڑی بولی: ’’نہیں میں اسے قبول نہیں کرتی۔ ایک اور دو‘‘۔ کبوتر کو بڑا دکھ ہوا اور بولا: ’’اب کوئی بچہ نہیں۔ جو کچھ تمہارے بس میں ہے کر گزرو۔ مجھے معلوم ہے تم درخت کے اوپر نہیں آسکتیں‘‘۔
لومڑی نے جب یہ بات سنی اور دیکھا کہ اس کی بڑی سبکی ہوئی ہے تو بولی: ’’تم نے درست کہا۔ میں درخت کے اوپر نہیں چڑھ سکتی۔ اگر آبھی سکتی تو نہ آتی کیوں کہ تم بہت اچھے پرندے ہو۔ لیکن تمہیں یہ بات کہاں سے پتا چلی؟ یہ سوچ تمہاری اپنی نہیں۔ کبوتروں کو اس قدر تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ بچہ بھی جو تم نے مجھے دیا کبوتر کا بچہ نہ تھا اور میں سمجھ گئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی دانا، تجربہ کار شخص نے یہ باتیں تمہیں سکھائی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سچ سچ بتادو کہ یہ حیلہ تم نے کس سے سیکھا۔ اگر تم سچ سچ کہہ دوگے تو میں دوبارہ یہاں ہرگز نہیں آئوں گی اور آواز بھی نہیں نکالوں گی‘‘۔
کبوتر بولا: ’’میں نے یہ باتیں ایک ایسے شخص سے سیکھی ہیں کہ تمہیں اس کے سامنے ستّر برس تک بیٹھ کر سبق پڑھنا چاہیے۔ میں نے یہ باتیں اس سے سیکھی ہیں جو خیر کا علم رکھنے والا، نیک فہم اور خیر شناس ہے۔ اس سے، جس کا تجربہ سب سے بڑھ کر ہے اور جو انسانوں کا غم خوار ہے، اور تمام دریا اور سمندر اس کی ملکیت ہیں اور اس کا نام مالک حزیں ہے۔ اب یہاں سے چلتی بنو اور ادھر کا رخ نہ کرنا ورنہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا‘‘۔
لومڑی بولی: ’’بہت خوب! میں مالک حزیں کو جانتی ہوں۔ اس کا نام بوتیمار ہے۔ میں آئندہ یہاں نہیں آئوں گی، لیکن بوتیمار بھی اب یہاں نہیں آئے گا۔ میں جارہی ہوں اس سے نپٹنے‘‘۔
کبوتر بولا: ’’بوتیمار میری طرح کمزور نہیں۔ وہ اپنی چونچ کی نوک سے تمہاری آنکھیں نکال لے گا۔ وہ اپنے کام میں کبھی غلطی نہیں کرتا‘‘۔
لومڑی بولی: ’’میں اس کا بندوبست کرتی ہوں، تم تک اس کی خبر پہنچے گی‘‘۔
لومڑی سیدھی دریا کے کنارے پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ بوتیمار دریا کے کنارے کھڑا کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ جونہی اسے لومڑی کے وہاں آنے کا احساس ہوا اس نے پہلو بدلا اور اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ وہ لومڑی سے جنگ کرنے کے لیے تیار تھا۔ لومڑی نے سوچا کہ اگر اس نے کبوتر کے بارے میں بات کی تو معاملہ بگڑ جائے گا، چناں چہ اس نے کچھ تامل کیا اور بوتیمار سے کہنے لگی: ’’سلام عرض کرتی ہوں‘‘۔ بوتیمار نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ اسے تھوڑا سا اطمینان ہوا اور اس نے پوچھا: ’’مجھ سے کوئی کام ہے؟‘‘ لومڑی بولی: ’’ہاں، اگر اجازت ہو تو۔ میں نے سنا ہے کہ تم بڑے تجربہ کار ہو اور سب تمہاری فکر سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ آج میں بھی ایک مشکل سے دوچار ہوں اور تم سے مشورہ کرنے آئی ہوں‘‘۔
(جاری ہے)