جب کشمیر سے واپسی پر قائداعظمؒ سے سوال کیا گیا کہ:۔
’’آپ کی قادیانیوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’میری رائے وہی ہے جو علمائے کرام اور پوری امت کی ہے‘‘۔
آپ کے ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ آپ پوری امت کی طرح قادیانیوں کو کافر سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں نے آپ کا جنازہ پڑھنے سے انکار کردیا تھا اور آپ کی حکومت کو کافر کہا تھا۔
قائداعظمؒ نے 1948ء میں راجا صاحب آف محمود آباد کی کراچی آمد کے موقع پر اُن کو آگاہ کیا تھا کہ ’’قادیانی وزیرخارجہ سر ظفر اللہ کی وفاداریاں مشکوک ہیں، میں ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہوں اور عملی اقدامات اٹھانے کے لیے مجھے مناسب وقت کا انتظار ہے‘‘۔
شومئی قسمت کہ قافلۂ وقت تیزی سے رواں دواں تھا، قائداعظم کو مہاجرین کی آبادی کاری اور دیگر مسائل نے مہلت نہ دی، وگرنہ وہ اس خطرے کا ابتدا میں ہی حل ڈھونڈ لیتے اور قوم آئندہ تباہیوں سے محفوظ ہوجاتی۔ قائداعظم کے انتقال پُرملال سے ساری قوم کی کمر ٹوٹ گئی۔ آپ کے داغِ مفارقت سے ہر شخص یوں دکھائی دیتا تھا جیسے وہ یتیم ہوگیا ہو۔ لیکن اس جانکاہ صدمے پر بھی قادیانیوں کے رویّے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ پاکستان کے باشعور شہری جانتے ہیں کہ چودھری ظفر اللہ خان نے بانیِ پاکستان کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہ کی اور وہ ایک طرف الگ بیٹھے رہے حالانکہ اُس وقت وہ وزیرخارجہ کے عہدے پر فائز تھے۔ جب اخبارات اس معاملے کو منظرعام پر لائے تو ان کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ ’’چودھری ظفر اللہ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے قائداعظم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، حالانکہ تمام دنیا جانتی ہے کہ قائداعظم احمدی نہ تھے۔ لہٰذا جماعتِ احمدیہ کے کسی فرد کا اُن کا جنازہ نہ پڑھنا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے‘‘۔ (آتش فشاں، 24 مئی 1981ء)
قادیانی جماعت کا آرگن روزنامہ ’’الفضل‘‘ اس سلسلے میں لکھتا ہے: ’’اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ حضرت ابوطالب بھی قائداعظم کی طرح مسلمانوں کے بہت بڑے محسن تھے، مگر نہ مسلمانوں نے آپ کا جنازہ پڑھا اور نہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ لیکن دنیا کے پردے پر ایسا بدبخت کون ہوسکتا ہے جو یہ کہہ سکے کہ حضرت محمد مصطفیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مرتبہ صحابہؓ کو حضرت ابوطالب سے محبت و الفت نہ تھی۔ اور وہ بھی احسان فراموشی کے مرتکب ہوئے تھے‘‘۔ روزنامہ الفضل 27 اکتوبر 1952ء)
سپریم کورٹ کے فل بینچ نے قادیانیوں کے خلاف اپنے تاریخی فیصلے ظہیر الدین بنام سرکار (1993SCMR1718) میں لکھا: ۔
’’یہ امر بہت معروف ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ اخبار ’’زمیندار‘‘ مورخہ 8 فروری 1950ء کے مطابق جامع مسجد ایبٹ آباد کے خطیب مولانا محمد اسحاق نے سر ظفر اللہ خان سے نمازِ جنازہ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں قائداعظم کو صرف ایک سیاسی لیڈر سمجھتا ہوں‘‘۔ ان سے استفسار کیا گیا کہ ’’کیا وہ بھی مرزا صاحب کو نہ ماننے کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں؟ حکومت کے وزیر ہوتے ہوئے بھی‘‘۔ سر ظفراللہ نے جواب دیا ’’آپ مجھے ایک کافر حکومت کا مسلمان ملازم یا مسلمانوں کی حکومت کا کافر ملازم سمجھ لیں‘‘۔
مسٹر مجیب الرحمٰن (قادیانی جماعت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل) سر ظفر اللہ کے اس مؤقف کی تردید نہ کرسکے۔ لہٰذا یہ امر کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوجاتا ہے جیسا کہ سر ظفر اللہ نے پیش کردیا ہے، کہ یا تو پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت کافر ہے یا قادیانی کافر ہیں، جس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ہرگز نہیں مل سکتے اور نہ ہی ایک امت کے افراد ہوسکتے ہیں۔ دونوں میں وحدت کا کوئی نکتہ موجود نہیں، کیونکہ مسلمان ختمِ نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں، اور اس کے برعکس قادیانی مرزا صاحب کو ایک نیا نبی مانتے ہیں۔ مسلمانوں کی ایک عظیم صاحب ِ بصیرت شخصیت نے قادیانیوں کوامت ِ مسلمہ کی سالمیت کے لیے خطرہ اور انتشار کا علَم بردار قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: ’’اس (امتِ مسلمہ) کی سالمیت صرف عقیدۂ ختمِ نبوت کی رہینِ منت ہے‘‘
(Thoughts and Reflections of Iqbal, p, 249)
احمدیوں کو ’’قادیانی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک کے بانی مرزا غلام احمد پنجاب کے ضلع گورداس پور کی تحصیل قادیان میں 1835ء میں پیدا ہوئے تھے۔ 54 برس کی عمر میں یعنی 1889ء میں انہوں نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی۔ یہاں تھوڑی سی تفصیل نہ صرف نوجوان نسل کے لیے ضروری ہے بلکہ اُن لوگوں کی یادداشت تازہ کرنے کے لیے بھی ہے جو 1974ء میں شعور رکھتے تھے۔ یہی وہ سال ہے جب قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔
احمدیوں کے خلاف کئی تحریکیں چلیں اور 1953ء میں ان کو تحفظ دینے کے لیے مارشل لا بھی لگا، جس کے سربراہ جنرل اعظم خان تھے۔ 1974ء میں نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ بذریعہ ٹرین کہیں جاتے ہوئے ربوہ سے گزرے تھے جو کہ پاکستان میں احمدیوں کا مرکز ہے۔ ان طلبہ نے ربوہ اسٹیشن پر احمدیہ لٹریچر دینے پر احمدیت کے خلاف بعض نعرے لگائے جنہیں مقامی افراد نے اشتعال انگیز سمجھا۔ ربوہ میں اسٹیشن سمیت تمام انتظامی امور احمدی افراد کے ہاتھوں میں ہوتے تھے۔ چنانچہ واپسی پر جب ٹرین رکی تو اس میں سے طلبہ کو جو ملتان واپس جارہے تھے، مبینہ طور پر اتار لیا گیا اور بعض بیانات کے مطابق سخت جسمانی اذیت پہنچائی گئی۔ اس واقعے کی خبر پورے پاکستان میں آگ کی طرح پھیل گئی اور منتخب اسمبلی اور اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار عل بھٹو سے مطالبہ کیا گیا کہ اس واقعے کی تحقیقات کرائی جائے اور اس گروپ کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔
اسمبلی میں اس بات پربحث شروع ہوئی کہ مسلمان کون ہے؟ احمدی تحریک کے اُس وقت کے پیشوا مرزا ناصر احمد اسمبلی کی سماعت میں احمدی تحریک کی نمائندگی کر رہے تھے۔ جب اس امر پر اتفاقِ رائے نہ ہوسکا کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں تو اُس وقت کے رکن قومی اسمبلی مولانا ظفر احمد انصاری نے مرزا صاحب سے ایک سادہ سا سوال پوچھا اور وہ یہ تھا کہ ’’کیا وہ باقی قوم کو مسلمان سمجھتے ہیں؟‘‘ مرزا صاحب سے گزارش کی گئی کہ وہ اس کا جواب ہاں یا ناں میں دیں۔ مصدقہ اطلاع کے مطابق مرزا صاحب نے نفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد اراکینِ اسمبلی اور وزیراعظم بھٹو کے پاس کوئی چارۂ کار نہ رہا کہ وہ احمدی تحریک کو غیر مسلم قرار دیں۔ دوسری صورت میں پوری قوم کو غیر مسلم تصور کرنا پڑتا۔
(اسلام کا سفیر، محمد متین خالد۔ ص387۔389)
بیادِ مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ بسا اوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیںتو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔