بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا نیا معاشی پھندا
پاکستان کا شہری پہلے سے زیادہ خطرے میں
سیاست طاقتور اور بے اختیار افراد کے درمیان کا کھیل ہے۔ یہ احساس اُس وقت زیادہ اجاگر ہوتا ہے جب ملک میں کسی ناگہانی آفت کا سامنا ہو۔ اونچے محفوظ محلات، آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دفاعی فصیلیں اور سیلاب کے پانی میں بہتی ہوئی جھونپڑیاں بتاتی ہیں کہ ملک میں کس درجے کا طبقاتی نظام موجود ہے، اور اس نظام کے خلاف مزاحمت کہیں نظر کیوں نہیں آتی، بلکہ مشکل گھڑی میں سیاسی قیادت کے غیر سنجیدہ بیانات کا شغل سیاسی جماعتوں کی بے حسی کوہمارے سامنے لے آتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق مساوی ہیں، مگر وسائل کی تقسیم کے وقت حکمران وسائل کی بوریوں کے منہ کسی ایک علاقے کے لیے کھول دیتے ہیں۔ ماضی میں پورا سندھ ایک جانب، اور لاڑکانہ میں لگنے والے وسائل کا کوئی شمار ہی نہیں تھا۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے دور میں ہوا کہ پنجاب کے بہترین وسائل شہبازشریف نے جہاں چاہے، اپنی مرضی سے استعمال کیے۔ سیاست دراصل اب طاقت کا کھیل بن چکی ہے، اور یہی رویہ ہمیں عالمی سطح پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی آکاس بیل میں جکڑا ہوا ہے۔ بھارت اس فورم پر امریکہ کی آشیرباد سے پاکستان کے خلاف شکایت لے کر گیا، اور پاکستان ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے اب ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے تاکہ گرے لسٹ سے باہر نکل آئے اور اسے بلیک لسٹ نہ ہونا پڑے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو جون 2018ء سے گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ یہ صورتِ حال ہمارے لیے بہت بڑے خطرے کی علامت ہے۔ بہرحال بھارت کی تمام کوششوں کے باوجود پاکستان آہستہ آہستہ اس سے اپنا دامن چھڑانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق دو مسوداتِ قانون کی منظوری دے دی گئی۔ قومی اسمبلی میں یہ بل پیش ہونے کے بعد اپوزیشن بینچوں کی جانب سے سخت احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی گئی۔ اپوزیشن کے شورشرابے کے دوران ان بلوں پر رائے شماری کرائی گئی اور اکثریتِ رائے سے ان کی منظوری ہوئی۔ سینیٹ میں یہ بل پیش کیے گئے جن کی منظوری میں حکومت کو کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، صرف جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے ان مسوداتِ قانون پر اعتراضات اٹھائے گئے۔ اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ان مسوداتِ قانون کے حق میں ووٹ دیا۔ بدلے میں انہیں نیب قانون میں من مرضی کی ترمیم کا حق مل جائے گا۔ حکومت کی جانب سے بلوں کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا عندیہ دیا جارہا تھا، تاہم اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے سینٹ میں مسودۂ قانون کی منظوری کے لیے حکومت کا ساتھ دے کر حکومت کو فائدہ پہنچایا، اسی لیے ان کی اتحادی یا ہم خیال جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت سے شکوہ بھی کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متذکرہ قوانین کی منظوری سے پاکستان پر بلیک لسٹ میں جانے کے خطرے کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹے گی یا نہیں؟ اور گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلتا ہے یا نہیں؟ اصولی طور پر تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بھی پاکستان کا نام ڈالنے کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ پاکستان تو خود بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ ملک میں دہشت گردوں کی سرکوبی اور اُن کا نیٹ ورک توڑنے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادتوں کے اتفاقِ رائے سے 22 نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے کر سیکورٹی فورسز کے مختلف آپریشنز کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشنز آج بھی جاری ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں دینی مدارس کی بھی اسکروٹنی اور ازسرنو رجسٹریشن کی گئی، جبکہ اقوام متحدہ کی لسٹ میں شامل متعدد تنظیموں اور ان کے قائدین کے فنڈز اور اکائونٹس منجمد کیے گئے۔ پاکستان کو اپنا مقدمہ بھارت کے خلاف درج کرانا چاہیے، جو ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہے مگر ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق پاکستان ہی ایف اے ٹی ایف کی ہر پابندی کی زد میں ہے۔ یہ ہماری حکومتوں کی سفارتی ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پارلیمنٹ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے باہر لانے کے لیے دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام سے متعلق قوانین میں متعدد ترامیم کی منظوری دے دی ہے، قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن مشاورت کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ یہ مشاورت متفقہ تجاویز کی تیاری کے لیے کی جارہی ہے جن میں 180 روز تک حراست میں رکھنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ جن قوانین میں ترامیم کی گئیں، ان میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1957 اور اقوام متحدہ (سلامتی کونسل) ایکٹ 1948 شامل ہیں۔ اس قانون سازی کے ذریعے وفاقی حکومت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت شکایات کے پیش نظر اقدامات اٹھانے کا اختیار حاصل ہوگا، جن میں اثاثوں کا منجمد اور ضبط کیا جانا، اور افراد اور اداروں پر سفری اور اسلحہ کی پابندیاں لگانا شامل ہوسکتا ہے۔ اسی لیے بجا طور پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ ہماری ڈور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ بہرحال اب ترمیمی بلوں کی منظوری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہوچکی ہے۔ یہ ترمیمی بل دونوں ایوانوں کے الگ الگ اجلاسوں میں پیش کیے گئے۔ وفاقی حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے حوالے سے پارلیمان میں متعارف کرائے گئے بلوں کے ساتھ ایک ایسا بل بھی پیش کیا جس کا تعلق بظاہر منی لانڈرنگ سے نہیں تھا۔ اس قانون کی طرف سب سے پہلے توجہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت اور اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس میں دلائی۔ ان کے مطابق حکومت اس قانون کے ذریعے کسی بھی شہری کی گرفتاری کا حق حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھی ، یہی وجہ تھی کہ اس پر مزید غور کے لیے اسے مؤخر کرنا پڑا۔ مجوزہ قانونی ترمیم بھی انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں کی جارہی تھی، جس کے تحت حکومت کسی بھی شہری کو 180 روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے، اور اس گرفتاری کا فیصلہ سرکاری ملازمین پر مشتمل ایک کمیٹی کرتی، جسے قانون کے تحت بااختیار بنایا جارہا تھا، لیکن حزبِ اختلاف کی مخالفت کے بعد حکومت نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں کی جانے والی یہ مجوزہ ترمیم واپس لے لی۔
ابتدائی طور پر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 27 شرائط پوری کرنے کا ہدف دیا تھا، جن میں سے 13 شرائط کی تکمیل ہونا باقی تھی، ان 13 شرائط کا تعلق دہشت گردی کی مالی اعانت کو روکنے، کالعدم تنظیموں کے خلاف قوانین کے نفاذ اور قانونی نظام کو بہتر بنانے سے متعلق ہے۔ اسی روشنی میں ایف اے ٹی ایف بل پاس کیا گیا، مگر یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر پاکستان کے شہریوں کے آئینی اور بنیادی حقوق کو پامال کیا جاسکتا ہے، وہ کسی بھی شہری سے متعلق اب کوئی بھی سوال اٹھا سکتی ہے۔ اگرچہ قوانین قومی اسمبلی نے پہلے ہی منظور کرلیے تھے، تاہم سینیٹ میں مجوزہ ترامیم میں تبدیلیوں کے ساتھ منظوری کے بعد قانوناً ان کی قومی اسمبلی سے دوبارہ منظوری ضروری ہوگئی تھی، اسی لیے قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب کرنا پڑا، حزبِ اختلاف کی تجاویز قانون سازی میں شامل ہونے کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں قانون سازی میں مسائل پیش نہیں آئے اور تمام ترمیمی بل آسانی سے منظور کرلیے گئے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس قانون سازی پر تنقید کی اور فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ ہر حکومتی بل کی مخالفت کرے گی۔ جے یو آئی (ف) کے سینیٹروں عطا الرحمٰن اور غفور حیدری نے فرائیڈے اسپیشل کو بتایا کہ ایف اے ٹی ایف اور بین الاقوامی اداروں کی شرائط اس لیے مانی جا رہی ہیں کہ پاکستانی حکومت کمزور ہے، آزاد ریاستیں اس طرح سے کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتیں اور اگر کرتی ہیں تو اپنے کمزور ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
اس بات کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس سال فروری میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے جون 2020ء تک کا وقت دیا تھا، تاہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث اب ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ستمبر میں ہوگا اور پاکستان نے اس سے قبل یہ قانون سازی کرنی ہے، تاہم ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کی رپورٹ رواں ہفتے ہی ایشیا پیسیفک گروپ کو پیش کرنا ہوگی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس قانون سازی پر کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط پوری ہوجائیں گی اور اب پاکستان کا گرے لسٹ میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے، امید کی جانی چاہیے کہ ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس میں پاکستان کو وائٹ لسٹ میں شفٹ کردیا جائے گا۔
پارلیمنٹ کے حالیہ سیشن میں جو قانون سازی ہوئی ہے اس کا تعلق انسدادِ دہشت گردی سے بھی ہے، اور اسی تناظر میں نیب قانون بھی تبدیل کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس مرحلے کو اپنے سیاسی اہداف کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپوزیشن کے مطالبات اور ان کی تجاویز کا بھی جواب دیا کہ حکومت چاہتی ہے پاکستان سے گرے لسٹ کی تلوار ہٹ جائے، اس لیے چار بلوں پر فوری قانون سازی ضروری ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے تین بڑے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہوئے ہیں کہ شفافیت پیدا کی جائے، احتساب کیا جائے اور عالمی اداروں سے تعاون کیا جائے۔ اسی تناظر میں حکومت اور اپوزیشن نیب قوانین پر بات چیت کررہی ہیں اور اب تک 35 ترامیم کی تجاویز ان کے روبرو ہیں۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ منی لانڈرنگ کو نیب قانون کے دائرۂ اختیار سے باہر کردیا جائے اور قومی ادارہ صرف ایک ارب روپے سے زائد کی کرپشن کے خلاف ایکشن لے۔ حکومت یہ تجویز تسلیم نہیں کررہی، لیکن حقائق یہ ہیں کہ سب کچھ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ احتساب اب ایک گھسا پٹا موضوع بن جائے گا اور مستقبل میں یہ فکس میچ اور ’ڈنگ ٹپائو‘ کام معلوم ہوتا ہے۔ ماحول بنانے کے لیے گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ جیسے نظام چل رہا ہے ویسے چلتا رہے گا، اور اگر نہیں بھی چلے گا تو آنے والے کی ذمہ داری ہوگی، جانے والوں کی نہیں۔ گویا اپوزیشن کو این آر او مل چکا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا مؤقف یہی رہا کہ نیب قانون میں ترامیم کا اطلاق 16 نومبر 1999ء سے ہو، اس سے پرانے کیسز نہ چھیڑے جائیں۔ مسلم لیگ (ن) چیئرمین نیب کی تعیناتی کی مدت بھی کم کرنا چاہتی ہے۔ نیب نے بھی متعدد کیسز میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے اور ریمارکس پر اپنا جواب داخل کرایا کہ نیب قانون کی شق 16 کے تحت بدعنوانی کے مقدمات کا 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں ہے، اور کرپشن کے ایسے مقدمات میں پچاس پچاس گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے اور احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اُٹھانے کے لیے ناکافی ہیں، حکومت کو چاہیے کہ عدالتوں کی تعداد بڑھائے۔ نیب چاہتا ہے کہ لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتیں قائم کی جائیں کیونکہ اس وقت ہر احتساب عدالت میں اوسطاً 50 مقدمات کی سماعت ہورہی ہے۔ اسی طرح وزارتِ قانون و انصاف نے بھی120 احتساب عدالتوں کے قیام سے متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نئی عدالتوں کے قیام میں مالی مسائل کا سامنا ہے، عدالتوں کے قیام کے بعد 2 ارب 86 کروڑ روپے کے بجٹ کی ضرورت ہوگی۔ جب یہ مشکل چیف جسٹس گلزار احمد کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے اس رقم کو چوزے کی خوراک کے برابر قرار دیا تھا، اور اتنی رقم تو ایک کیس سے نکل سکتی ہے۔
کلبھوشن کیس
اسلام آباد میں اس وقت اہم ترین موضوعات میں ایک اہم موضوع کلبھوشن کیس بھی ہے۔ یہ کیس اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ حکومت چاہتی ہے بھارت کلبھوشن کے معاملے پر میز پر آئے اور قانون کے مطابق گفتگو کرے۔ یہ مقدمہ اب عدالت میں ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن کے معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لارجر بینچ کے لیے عابد حسن منٹو، حامد خان اور مخدوم علی خان عدالتی معاون مقرر کیے گئے ہیں۔ اس وقت مشکل یہ ہے کہ کلبھوشن جسے دو بار سفارتی رسائی دی گئی ہے، وہ خود اپنے لیے وکیل مقرر کرنے سے اجتناب کررہا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوٹوک فیصلہ دے دیا ہے کہ بھارت اور کلبھوشن خود وکیل مقرر کریں۔ یہ رعایت صدر کی جانب سے جاری آرڈیننس میں دی گئی ہے۔ کلبھوشن کو موت کی سزا سنائی جاچکی ہے، اور آرمی چیف نے اس کی توثیق بھی کی ہے، مگر اب معاملہ کسی اور طرف چل نکلا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس میاں گل اورنگزیب نے درخواست پر سماعت کی اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں پیش ہوکر اس کیس کا پس منظر بتایا کہ 2016ء میں کلبھوشن یادیو کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا، کلبھوشن نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا۔ بھارت نے ویانا کنونشن رول 36 کے تحت عالمی عدالت سے رجوع کیا، اور عالمی عدالتِ انصاف کی ہدایت پر قونصلر رسائی کا حکم دیا تھا۔ 7 جون 2020ء کو کلبھوشن نے نظرثانی کے لیے معذرت کی۔ اس حوالے سے بھارت کو خط بھی لکھا گیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے لے کر سزا ہونے اور قونصلر رسائی سے لے کر بھارت کیس میں جو بھی نقائص ہیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اُس سے متعلق تمام باتوں پر دلائل دیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت بھارت کو کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی دوبارہ پیشکش کرے، مؤقف کے لیے بھارتی سفارت خانے کو بلایا جائے، مزید سماعت اب 3ستمبر کو ہوگی۔