امریکہ: کورونا وائرس کی نئی لہر

دنیا بھر کے سیاست دان معاشی تباہی کے تصور سے ہی کانپ رہے ہیں

امریکہ میں کورونا وائرس کی روک تھام کمیٹی (ٹاسک فورس) کی ناظمہ ڈاکٹر ڈیبرا برکس نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ عالمی وبا کے نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ اب بلندو بالا عمارتوں اور گنجان شہروں کے ساتھ دیہی امریکہ کو بھی اس نامراد وائرس سے سخت خطرہ ہے۔ اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ اس وبا کا نشانہ شہر ہیں اور امریکی دیہات اس عذاب سے محفوظ ہیں۔ سی این این کو ایک انٹرویو میں ڈاکٹر برکس نے انکشاف کیا کہ وائرس کی صورتِ حال مارچ اور اپریل سے مختلف ہے اور دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے بھی ماسک اور دوسری احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق بھی کورونا وائرس پر قابو پانے کا مرحلہ ابھی بہت دور ہے اور امریکہ میں انسدادِ کورونا وائرس سرگرمیوں کے روحِ رواں اور ماہرِ متعدی امراض ڈاکٹر انتھونی فائوچی کے تبصرے کا بامحاورہ ترجمہ حضرتِ کلیم عاجز کا یہ شعر ہے:۔

ابھی تیرا عہدِ شباب ہے ابھی کیا حساب و کتاب ہے
ابھی کیا نہ ہوگا جہان میں ابھی اس جہاں میں ہوا ہے کیا

اس ڈائن کی حشر سامانیاں تو گزشتہ سال دسمبر سے جاری ہیں لیکن چین سے باہر کورونا وائرس کا پہلا مریض 13 جنوری کو تھائی لینڈ میں سامنے آیا تھا اور عالمی ادارۂ صحت نے 30 جنوری کو 18 ملکوں میں کورونا وائرس کے 82 مریضوں کی تصدیق کی تھی، جس کے بعد اس مرض کو COVID-19کانام دیا گیا۔ 11 مارچ کو کووڈ 19 ایک عالمی وبا و بلا کے طور پر سامنے آیا، تاہم امریکہ اور یورپ کے ماہرین اختتامِ جنوری کو اس عذاب کا نقطہ آغاز قرار دے رہے ہیں، اور اس اعتبار سے 31 جولائی کو یہ دشمنِ جان وایمان 6 ماہ کی ہوگیا۔
6 ماہ کے دوران دنیا بھر میں اس مرض کے متاثرین کی تعداد ایک کروڑ 80 لاکھ سے تجاوزکرگئی ہے جس میں سے 7 لاکھ کے قریب لوگ زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس مرض سے ہلاک ہونے والے امریکیوں کی تعداد ایک لاکھ 55 ہزار کے قریب ہے۔ کورونا وائرس کی گرفت کے حوالے سے برازیل کا دوسرا نمبر ہے جہاں اس زہریلے ناگ نے 27 لاکھ انسانوں کو ڈسا، جن میں سے 94 ہزار افراد جانبر نہ ہوسکے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک ہندوستان کا یہاں تیسرا نمبر ہے جہاں 38 ہزار سے زیادہ لوگ کورونا وائرس سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان میں کورونا وائرس نے جولائی کے اختتام تک 6 ہزار لوگوں کی جان لی۔ بھارتی ریاست مہارشٹرا کا شہر ممبئی سارے ہندوستان میں سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں اوسطاً 3 ہزار کے قریب نئے مریض روزانہ سامنے آرہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہم نے امریکہ کے جان ہاپکنز انسٹی ٹیوٹ کے اعلامیوں سے لیے ہیں جو مختلف ممالک کے سرکاری اعداد و شمار سے مختلف ہوسکتے ہیں۔
ہمارے رب کی بڑی مہربانی کہ کورونا وائرس کی وبا اُس وقت نازل ہوئی ہے جب اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا نے انسانوں کے درمیان فاصلے عملاً ختم کردیے ہیں۔ اب جبکہ اس موذی مرض سے بچنے کا واحد راستہ تن دوری ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے علیحدہ رہ کر بھی اپنے عزیزوں کو دل کے قریب رکھا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ کورونا وائرس سے دم توڑتے مریضوں کو بھی فیس ٹائم اور ویڈیو چیٹنگ کے ذریعے آخری لمحات میں اپنے پیاروں کی قربت میسر آجاتی ہے۔ یہودی ربائی اور مسیحی پادری قبل ازموت نصیحت کے لیے سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے مسلمان مریضوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ہسپتال کے مسلم کارکن موت سے پہلے کلمے کا اعادہ اور دم نکلتے ہی جسدِ خاکی کو پلاسٹک بیگ میں بند کرنے سے پہلے میت کو علامتی تیمم کروا دیتے ہیں۔
چھے ماہ بعد کورونا کے پھیلائو کی کیفیت ساری دنیا میں ایک جیسی نہیں۔ نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا اس وبا پر قابو پاچکے ہیں۔ چین، ترکی اور پاکستان میں صورتِ حال قابو میں آرہی ہے۔ جبکہ اسرائیل میں زورٹوٹنے کے بعد ایک بار پھر یہ وبا بے قابو ہوتی نظر آرہی ہے۔
بھارت میں بھی کورونا کی صورتِ حال اطمینان بخش نہیں۔ اِس بار رکشا بندھن کے موقع پر کسی بھی قسم کی عوامی تقریب یا پروگرام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ گھر پر رہ کر تہوار منائیں۔ رکشا بندھن بہنوں کی جانب سے بھائیوں کے لیے محبت کا اظہار اور نظر اتارنے کا تہوار ہے جب خواتین کنگن یا کڑے کی شکل میں دفع بلیات کے تعویذ اپنے بھائیوں کی کلائی پر باندھتی ہیں جسے راکھی یا رکھشا کہا جاتا ہے۔ برصغیر کے دوسرے تہواروں کی طرح یہ مٹھائی کھانے اور کھلانے کا بھی ایک موقع ہے۔ اِس بار رکھشا بندھن کا تہوار 3 اگست کو منایا گیا۔
نیوزی لینڈ کے لوگ وبا کے قابو میں آجانے پر اب زندگی معمول کے مطابق گزار رہے ہیں، لیکن شمال مغرب میں واقع ان کا پڑوسی سخت آزمائش میں ہے۔ آسٹریلیا کے دوسرے بڑے شہر میلبورن میں کورونا وائرس کا پھیلائو بے قابو ہوگیا ہے جسے روکنے کے لیے 2 اگست سے رات کا کرفیو عائد کردیا گیا ہے جو چھے ہفتے نافذالعمل رہے گا۔ معاملہ صرف میلبورن تک محدود نہیں بلکہ پوری ریاست وکٹوریہ وائرس کی لپیٹ میں ہے، جس کی وجہ سے میلبورن سمیت اس کے اکثر شہروں میں لاک ڈائون سخت کردیا گیا ہے۔
فلپائن کی صورتِ حال گزشتہ دوماہ سے بہت خراب ہے، حالانکہ وہاں بہت سخت قسم کا لاک ڈائون ہے، بلکہ کرفیو کی خلاف ورزی پر دارالحکومت منیلا میں ایک شخص کو گولی بھی ماری جاچکی ہے۔ گزشتہ ماہ کے اختتام پر ایک لاکھ فلپائنی کورونا وائرس سے متاثر تھے اور یہاں ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔
سنگاپور، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا میں متاثرہ ملکوں سے آنے والوں کی نگرانی کے لیے الیکٹرانک آلات استعمال کیے جارہے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے کلائی بند کی شکل کے اس آلے کو ہر وقت پہنے رکھنا ضروری ہے۔ قرنطینہ کے دوران گھر سے نکلنے کی کوشش پر یہ آلہ حکام کو آگاہ کردے گا۔
جرمنی میں فوج اپنے تربیت یافتہ کتوں کو ایسے افراد کی شناخت کے لیے استعمال کررہی ہے جو کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ کتے سونگھ کر منشیات اور دھماکہ خیز مواد کا ایک عرصے سے کھوج لگارہے ہیں۔ جامعہ ہنوور برائے بیطاری ادویہ (University of Veterinary Hanover)کے سائنس دان ان کتوں کو کورونا سونگھنے کی تربیت دے رہے ہیں، اور اب یہ کتے سونگھ کر کورونا مریض کی شناخت کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ فی الحال یہ حکمت آزمائش کے مرحلے میں ہے اور ماہرین نے 60 فیصد کامیابی کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔
پاکستان میں اب کورونا کے مثبت ٹیسٹ کا تناسب 4 فیصد رہ گیا ہے، اور اگست کے آغاز سے مرنے والوں کی تعداد 8 افراد یومیہ سے کم ہے۔ اسی بنا پر پنجاب سے جزوی یا اسمارٹ لاک ڈاؤن بھی ختم کردیا گیا ہے۔ لیکن تعلیمی ادارے، شادی ہال، ریسٹورنٹ، پارک اور سینما ہال بدستور بند رہیں گے۔ سماجی اور مذہبی اجتماعات اور کھیل کی سرگرمیوں کے لیے اجتماع کی اجازت نہیں ہوگی۔ بین الاضلاع ٹرانسپورٹ پر عائد پابندیاں بھی ختم کردی گئی ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت اور مرض پر قابو کے مرکز CDCکے مطابق اس وقت سب سے خراب صورتِ حال امریکہ میں ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو اگست کے اختتام تک مزید 30 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ امریکہ کے ڈھیلے ڈھالے وفاق اور ریاستوں کی خودمختاری کی وجہ سے پابندیاں عائد کرنا اتنا آسان نہیں۔ شہریوں سے متعلق قانون سازی میں ریاستیں آزاد ہیں اور کئی جگہ کائونٹی و شہری انتظامیہ بھی اپنا حقِ حاکمیت جتا رہی ہیں۔ جہاں ریاستی گورنر اور امرائے شہر ایک پارٹی کے یا ہم خیال ہیں وہاں تو مسئلہ نہیں، لیکن سیاسی تنائو روک تھام کی کوششوں پر اثرانداز ہورہا ہے۔
ملک کو جلد از جلد کھول دینے پر صدر ٹرمپ کا اصرار بھی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ CDCکے حکام خاص طور سے ڈاکٹر فائوچی اقتصادی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے اور ڈاکڑ حضرات کو اندازہ ہی نہیں کہ لاک ڈائون سے ملکی معیشت کس بری طرح متاثر ہے۔ وہ اکثر شکوہ کرتے ہیں کہ معیشت کی تعمیر کے لیے ان کی تین سال کی سخت محنت پر اس وبا نے پانی پھیر دیا ہے۔ وہ بار بار یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بندش کی وجہ سے معیشت کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کے منفی اثرات کورونا وائرس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کاروبارِ حیات جلد معمول پر نہ آیا تو بھوک، ناداری اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کی تعداد کورونا کی ہلاکت سے کہیں زیادہ ہوگی۔
معاملہ صرف امریکی صدر ٹرمپ تک محدود نہیں۔ دنیا بھر کے سیاست دان معاشی تباہی کے تصور سے ہی کانپ رہے ہیں۔ کورونا وائرس انسانی حیات سے زیادہ ہمارے اسبابِ حیات کو غارت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ دنیا نے 1860ء میں ایک خوفناک عالمی کساد بازاری کا عذاب سہا تھا جو 1873ء میں اپنے عروج کا پہنچا اور ساری دنیا اس کے منفی اثرات 1896ء تک بھگتتی رہی۔ عالمی بینک نے نوید سنائی ہے کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں جنم لینے والا کساد بازاری کا طوفان عالمی جنگ کے بعد کی مشکلات سے زیادہ سخت اور پھیلائو کے حوالے سے اس کی شدت 1860ء کی کساد بازاری سے دوچند ہوگی۔ یعنی یہ انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جب تقریباً ہر ملک اقتصادی تنزل کا شکار ہے اور بہت سے معاشرے دیوالیے سے چند قدم کے فاصلے پر ہیں۔ عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ بھی اب تک نہیں لگایا جاسکا اور اربوں، کھربوں کی باتیں قیاس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ دنیا کا سارا نظام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ سیاحت، تجارت، تعلیم، حتیٰ کہ فوج اور دفاعی ادارے بھی اس وائرس کی زد میں ہیں۔
اقتصادیات کے ساتھ فرد و خاندان کے باہمی تعلقات اور سماجی رویّے بھی تنائو کا شکار ہیں۔ مکمل اور جزوی لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ اب دفتر کے بجائے گھروں سے کام کررہے ہیں۔ ماحول کی یکسانیت اور متوقع بے روزگاری کے خوف سے طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہوگیا ہے۔ مستقبل کے خوف اور مایوسی نے بہت سے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔
ماہرین جنوبی ایشیا یعنی پاک و ہند اور جنوبی امریکہ کے بارے میں بے حد فکرمند ہیں۔ بھارت میں طویل ترین لاک ڈاؤن اور صنعتی سرگرمیوں میں خلل کی وجہ سے اقتصادی ترقی کی شرح منفی 5 فی صد تک گرنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ فصلوں کے زیاں اور نقل و حمل میں خلل کی بنا پر خوراک کی بروقت ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے کچھ علاقوں میں غذائی قلت کی صورتِ حال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ جنوبی امریکہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ بھارت امریکہ اور چین کے بعد تیل پھونکنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جس کی بنا پر ماحولیاتی آلودگی ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اقتصادی بحران سے ماحولیاتی کثافت دور کرنے کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ صنعتی سرگرمیوں میں تعطل سے ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ گویا موت کا خوف اور ناداری کا خدشہ اپنی جگہ، لیکن اس وبا سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا معاملہ کچھ بہتر ہوگیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ پر مظاہرہ روز کا معمول بنا ہوا ہے اور مجمع کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مظاہرے کی بنیادی وجہ تو نیتن یاہو پر بے ایمانی اور بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ ان کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ اتنے سنگین الزامات میں ملوث شخص وزارتِ عظمیٰ کا اہل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے تک عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ ادھر کچھ عرصے سے کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں اسرائیلی حکومت کی ناکامی ان کی بے ایمانی سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکی ہے۔
معیشت کے حوالے سے مشکل یہ ہے کہ کسی بھی جگہ یہ وبا اب تک قابو میں نہیں آئی، اور متاثرین کی مالی پریشانیوں کا علاج انتظامی سطح پر کیا جارہا ہے۔ ٹیکسوں میں چھوٹ، چھوٹے تاجروں کو آسان شرائط پر قرض، نادار طبقے کی نقد مدد، راشن کی فراہمی، نادہندہ کرایہ داروں کا تحفظ اور بے روزگاری الائونس جیسے اقدامات سے وقتی راحت فراہم کی جارہی ہے، لیکن اقتصادی تباہی کا پوری طرح ادراک نہ ہونے کی بنا پر کہیں بھی تعمیرنو کا کام شروع نہیں ہوسکا۔
اس حوالے سے عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ اور دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا نے دنیا کی معیشت کو محض نقصان نہیں پہنچایا بلکہ عملاً اسے چاٹ لیا ہے، اور اب اصلاحی اقدامات سے کام نہیں چلے گا بلکہ عالمی معیشت و مالیاتی نظام کی تعمیرنو کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امیر و غریب، چھوٹے یا بڑے کسی بھی ملک کے لیے الگ تھلگ رہ کر برباد معیشت کی تعمیرنو ممکن نہیں۔ معیشت کے ساتھ اس وبا نے دنیا کو یہ بھی سکھا دیا ہے کہ صحت ِ عامہ ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور سرحدوں پر پہرہ بٹھاکر کسی وبائی بلا کا راستہ روکنا ناممکن ہے، بلکہ بروقت سدباب کے لیے تمام اقوام کو شفاف طرزِعمل کے ذریعے باہمی اخلاص واعتماد کے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی۔
ماہرین کے مشورے کے صائب ہونے میں کوئی کلام نہیں، لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا۔ دورکیوں جائیں، کیا بھارت، پاکستان، افغانستان، ایران، چین اور بنگلہ دیش اقتصادی تعمیرِنو کے لیے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھنے پر آمادہ ہیں؟