بھارتی آئین کے آرٹیکل370 کی کہانی گزشتہ365 دنوں میں دنیا بھر میں ہر انصاف پسند شخص کی دہلیز پر المیہ بن کر کھڑی ہے۔ کشمیری مرد و خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان سب اس آرٹیکل کی زد میں آئے ہوئے ہیں، اور ان پر زندگی کے دروازے بند اور سانس لینے پر بھی پابندی ہے۔ حکومت نے پانچ اگست کو ایک سال مکمل ہوجانے پر ’’یومِ استحصال‘‘ منانے کا اعلان کیا ہے، مگر ہر پاکستانی اس روز اپنے اپنے شہر میں مقامی حالات کے مطابق لاک ڈائون کا بھی شکار ہوگا۔ کشمیر کی آزادی کے لیے تین الفاظ ’’سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت‘‘ گزشتہ 72 سال سے دہرائے جارہے ہیں، مگر عملی زندگی میں یہ کہیں نظر نہیں آتے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل370 میں ترمیم کے بعد ہمیں عملی میدان میں کود جانا چاہیے تھا، مگر اسلام آباد نے اعلان کیا کہ جو لائن آف کنٹرول کے پار جائے گا وہ کشمیریوں کا غدار ہوگا۔ یہ اعلان سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی مکمل نفی کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ایک سال گزر جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے تمام تر حقائق سامنے آجانے پر اب اپنے اس اعلان کو واپس لینا چاہیے۔ 5 اگست 2020ء کی تاریخ وہ سیاہ تاریخ ہے جب بھارت کی انتہا پسند اور ہٹلر کے فسطائی فلسفے پر عمل پیرا بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے اس جنونی اقدام کو ایک سال ہوجائے گا۔ بھارت نے یہ فیصلہ لے کر دراصل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری سے کیے گئے خود اپنے وعدوں کو پامال کردیا ہے، اور متنازع علاقے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی یونین کا حصہ بنانے اور علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی مکروہ منصوبہ بندی واشنگٹن کے غلاف میں لپیٹ کر دنیا کے سامنے رکھ دی ہے۔ معاملہ یہیں تک نہیں رہا، بھارت نے بدترین قانون سازی کرکے ڈومیسائل سمیت قوانین کا ایک مجموعہ ری آرگنائزیشن ایکٹ کے نام سے نافذ کردیا ہے، جس سے مسلم اکثریتی ریاست میں آبادی کا توازن تبدیل ہورہا ہے مگر عالمی برادری کشمیری عوام کے حق سے منہ موڑے کھڑی نظر آتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام جس کیفیت سے گزر رہے ہیں، ہمارے نعرے، مظاہرے اور جلسے جلوس اور یوم استحصال اُن کی کوئی مدد نہیں کررہے۔اگر بھارت کسی چیز سے پریشان ہے تو وہ کشمیریوں کی لازوال مزاحمت ہے، بھارت نے ایک آرٹیکل میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے، اور دہلی سرکار اس کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکی۔
یوم استحصال کے موقع پرجماعت اسلامی نے اسلام آباد میں سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں ایک بڑا مظاہرہ اور ریلی منعقد کی۔ پانچ اگست سے ایک روز قبل اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کی صدارت میں قومی کشمیر کانفرنس بھی ہوئی۔ جے یو آئی نےیوم سیاہ منایا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس کا کام صرف اعلان کردینا ہے، باقی کام کوئی دوسرا کرے۔ وزیر خارجہ نے اعلان کرکے ایک پیغام بھی دیا کہ تحریکِ آزادی کے لیے کشمیری لیڈ کریں، ہم پیچھے کھڑے ہیں۔ سفارتی زبان سمجھنے والے یہ پیغام اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کیا چاہتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگلی منزل سری نگر ہے۔ وزیر خارجہ کو چاہیے کہ وہ قوم کو حقائق سے آگاہ کریں، اسے پہیلیاں نہ بھجوائیں، وہ یہ بتائیں کہ ملک بھر میں صبح دس بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی صورت میں کیا ہوگا؟ کیا سری نگر اس سے آزاد ہوجائے گا؟ دوسری جانب ہندو بنیاد پرست بھارتی وزیراعظم مودی گزشتہ سال 5 اگست کو بھارتی آئین و قانون کو بلڈوز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرچکا ہے۔ عالمی سرمائے اور ’’بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی آکسیجن اسے میسر ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی 90 لاکھ نہتی آبادی اس وقت مکمل طور پر ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ ایک سال کے بعد حکومت کو چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ میں جائزہ پیش کرتی کہ اس دوران اس نے عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر کے لیے کہاں کہاں دستک دی ہے اور جواب کیا ملا؟ مگر حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی لڑائی سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ بھارت کس قدر طاقت ور ہے یہ ہم نے 27 فروری2019ء اور اب چین بھارت جنگ کے دوران بھی دیکھ لیا ہے، مگر ہماری حکومت مصلحت کا شکار ہے اور پرائے شکار پر فخر کرکے اسے اپنی کامیابی سمجھ رہی ہے۔ حالیہ جنگ میں بھارت پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے۔ چین نے غیرمسلح کارروائی اور ڈنڈوں اور مُکّوں کی مارپیٹ سے وہ کامیابی حاصل کی جسے دنیا میں ایک انمول تاریخ کہا جائے گا۔ امر واقع یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے سے پہلے شروع ہونے والے ایک سالہ کڑے عسکری محاصرے نے ثابت کردیا کہ مقبوضہ علاقے کے کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ نیپال جیسا ملک بھی بھارت کو آنکھیں دکھا رہا ہے اور ہم مصلحت کا شکار ہیں۔