آٹے کا بحران : پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف محاذ آرائی کا نیا میدان

دعووں کے باوجود حکومت پنجاب میں بھی آٹے کی قیمتوں میں استحکام لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی

کرپشن، کورونا اور کراچی میں کچرے کے ڈھیروں کے بعد اب آٹے کا بحران سندھ میں پیپلز پارٹی اور وفاق میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومتوں کے مابین محاذ آرائی کا نیا میدان ہے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک میں اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے جائزے کے لیے منعقدہ ہفتہ وار اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز اور تحفظِ خوراک کے وفاقی وزیر سید فخر امام نے بتایا کہ گندم کی طلب و رسد میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں، البتہ سندھ حکومت کا طرزِعمل ہمارے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے جو صوبے میں موجود گندم کے وافر ذخائر میں سے اپنے حصے کی گندم فراہم نہیں کررہی، جس کے باعث بازار میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ گندم کی قلت ہے اور اس وجہ سے آٹے کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یوں سندھ حکومت کے ہر معاملے میں سیاست کھیلنے سے عوام کو مہنگا آٹا خریدنا پڑ رہا ہے۔ سندھ حکومت گندم کی فراہمی شروع کردے تو قیمتیں یقینی طور پر کم ہوجائیں گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھ میں گورنر راج کی دھمکی بھی دے ڈالی اور کہا کہ ہم غیر جمہوری اقدام نہیں چاہتے، تاہم اس سے قبل کہ گورنر راج کی بات کی جائے، سندھ حکومت کو اپنی روش بدلنا چاہیے۔
پنجاب کے سینئر و خوراک کے وزیر عبدالعلیم خان نے بھی وفاقی وزرا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ سندھ کی حکومت کو بے حسی چھوڑ کر عوام پر رحم کرنا چاہیے اور پنجاب اور صوبہ خیبر کی طرح آٹا ملوں کو رعایتی نرخوں پر گندم کی فراہمی شروع کرنی چاہیے تاکہ آٹے کی قیمتوں میں پایا جانے والا فرق ختم ہوسکے، ہم پنجاب میں آٹا ملوں کو کم نرخوں پر گندم سرکاری گوداموں سے مہیا کررہے ہیں جس کے باعث پنجاب میں 20کلو آٹا 860 روپے میں دستیاب ہے مگر رحیم یار خان سے صوبائی سرحد پار کرتے ہی سندھ میں بیس کلو گرام کا یہ تھیلا بارہ سو روپے سے بھی مہنگا ہوجاتا ہے۔آئینِ پاکستان کے مطابق کوئی صوبہ گندم اور آٹے کی بین الصوبائی نقل و حمل روک نہیں سکتا، چنانچہ سندھ حکومت کے اپنے صوبے میں ملوں کو گندم فراہم نہ کرنے کا بوجھ پنجاب کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے، ہم اس بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے، اس لیے وزیراعلیٰ سندھ سے درخواست ہے کہ وہ اپنے صوبے میں آٹا ملوں کو سرکاری ذخائر سے کم نرخوں پر گندم کی فراہمی یقینی بنائیں اور سندھ میں بھی آٹے کی قیمتوں کو پنجاب کی سطح پر لائیں۔حکومتِ سندھ کے وزیر سید ناصر شاہ نے ان الزامات اور دھمکیوںکے جواب میں کہا کہ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اپنی نااہلی چھپانے کے لیے سندھ پر الزام عائد کررہی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ سندھ سے گندم دیگر صوبوں کو منتقل کی جارہی ہے۔ پنجاب کے وزرا کی ذخیرہ اندوزوں سے شراکت داری ہے، حکومت یہ شراکت داری ختم کراکے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرے تو گندم کا مصنوعی بحران ختم ہوسکتا ہے۔ سندھ کے وزیر خوراک ہری رام اور صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے بھی وفاقی وزرا کی پریس کانفرنس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں یہ تسلیم کیا کہ سندھ میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں مگر ان کی حکومت اس وقت جب کہ بازار سے گندم دستیاب ہے، سرکاری ذخائر سے آٹا ملوں کو گندم فراہم نہیں کرے گی، اور ہماری پالیسی ہے کہ سرکاری گندم کو ماضی کی طرح اکتوبر، نومبر کے مہینوں میں اُس وقت آٹا ملوں کو فراہم کیا جائے گا جب بازار میں گندم کی قلت کا امکان ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کی گورنر راج کی دھمکی کے بارے میں مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ تحریک انصاف کے وزرا کی باتوں کو ان کے گھر والے بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے، اس لیے ہمیں ایسی دھمکیوں کا نہ تو کوئی خوف ہے نہ ہی کوئی پروا۔
یہ بات حیران کن ہے کہ گندم کی فصل کو آئے ابھی دو تین ماہ ہی گزرے ہیں مگر ملک میں فصل کے آنے کے فوری بعد سے آٹے اور گندم کا بحران سر اٹھا چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بار بار اس بحران پر قابو پانے کی ہدایات جاری کرچکے ہیں، آٹا ملوں کے کارپردازوں سے بھی آٹے کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھنے کے لیے مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں، اور ایک سے زائد بار فریقین کے مابین معاہدوں کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے کہ عوام کو بیس کلو آٹے کا تھیلا 860 روپے میں فراہم کیا جائے گا، حکومتِ پنجاب نے آٹا ملوں کو سرکاری ذخائر سے سستے داموں گندم کی فراہمی بھی ابھی سے شروع کردی ہے، جب کہ کئی دیگر مراعات بھی ملوں کو دی گئی ہیں، مگر حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق تمام تر حکومتی اقدامات اور اعلانات کے باوجود عوام کو مقررہ نرخوں پر آٹا دستیاب نہیں ہے، دور دراز علاقوں کی صورتِ حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور جیسے شہر میں جہاں تمام تر حکومتی مشینری سرکاری اعلانات پر عمل کرانے کے لیے متحرک ہوتی ہے، وہاں بھی وزیراعلیٰ اور وزیر خوراک کی ناک کے نیچے بیس کلو آٹے کا تھیلا ایک ہزار اور گیارہ سو روپے کے درمیان فروخت ہورہا ہے اور ضلعی انتظامیہ، پولیس اور محکہ خوراک کے اہلکاروں سمیت کسی میں یہ سکت نہیں کہ وہ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر خوراک کے اعلانات پر عمل کروا سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘ والا معاملہ ہے۔ ذخیرہ اندوز، گراں فروش، اسمگلر اور دیگر سماج دشمن عناصر مکمل طور پر من مانی کررہے ہیں، صوبائی محکمہ خوراک اس بات سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود کہ صوبے میں 270 سے زائد گھوسٹ فلور ملیں حکومت سے سستی گندم حاصل کرکے سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہی ہیں اور ان ملوں کے نام پر حاصل کی جانے والی گندم کا آٹا عام لوگوں تک پہنچنے کے بجائے منافع خوروں کی تجوریوں میں پہنچ جاتا ہے اور وہ یہ گندم بلیک مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں، مگر حکومت ان کو گندم کی فراہمی روکنے میں نہ تو کامیاب ہے اور نہ سنجیدہ۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہو جو سندھ کے صوبائی وزرا کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ صوبائی کابینہ کے بعض ارکان ان کے شراکت دار ہیں۔ اس طرح پنجاب سے صوبہ خیبر کے راستے افغانستان کو آٹے کی اسمگلنگ بھی اب کوئی راز کی بات نہیں۔ افغانستان کی غذا کی ضروریات کے ضمن میں پاکستان کی ذمہ داریوں کے سبب اس کو روکنا تو شاید ممکن نہیں، اور بعض حلقوں کی رائے میں مناسب بھی نہیں، مگر اس کو قانون کے دائرے میں لاکر اگر باقاعدہ تجارت کی شکل دے دی جائے تو اس سے جہاں قومی خزانے کو پہنچنے والے بھاری نقصان سے بچا جا سکے گا، وہیں اس کے اعداد و شمار سے آگاہی کے سبب حکومت کو ملک کے اندر آٹے کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔