تحریک نظام مصطفی اور ہم (2)۔

ایک تاریخی تجزیہ

فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ سے پیوستہ شمارے میں ’’تحریک نظام مصطفی اور ہم‘‘ کے موضوع پر لکھا گیا کالم تاحال سوشل میڈیا پر زیربحث ہے۔ اندازہ نہیں تھا کہ 43 سال گزر جانے کے باوجود یہ موضوع اور تحریک اب بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ جو لوگ اس تحریک میں شریک تھے اور جنہوں نے اس میں جانی و مالی قربانیاں دی تھیں اُن کی اس سے جذباتی وابستگی آج بھی قائم ہے۔ اور جو اس تحریک کی راہ میں مزاحم تھے، یا جن کے سیاسی اقتدار کو تحریک سے نقصان پہنچا تھا، وہ آج بھی یہ زخم بھلا نہیں سکے ہیں۔ ان میں یہ جرأت تو آج بھی نہیں ہے کہ اس تحریک کی عوامی مقبولیت اورپذیرائی پر بات کرسکیں یا اس کے محرکات کو جھٹلا سکیں، البتہ وہ ضیا الحق کو گالی دے کر اپنی بھڑاس اب تک نکال رہے ہیں۔ ہماری رائے میں اس تحریک کو صحیح طور پر سمجھنے اور تاریخ سے انصاف کرنے کے لیے اس پورے دور کا عمیق جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
۔1970ء کے انتخابات سے 5 جولائی 1977ء کو لگنے والے مارشل لا تک کے عرصے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ملک میں ہونے والے پہلے انتخابات میں (انتخابی مہم کے دوران) مرحوم مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب اورسندھ میں پیپلزپارٹی گالی گلوچ، الزام تراشیوں، مخالفین کی کردارکشی اور تضحیک پر مبنی انتخابی مہم چلا رہی تھیں، اور مارشل لا کے باوجود انہیں روکا نہیں جارہا تھا۔ یہ دونوں جماعتیں نہ صرف اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے نہیں دے رہی تھیں بلکہ ان کے انتخابی جلسے باقاعدہ الٹا بھی رہی تھیں۔ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان سے جانے والے شاید کسی ایک لیڈر کو بھی جلسہ کرنے نہیں دیا گیا، اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی اپنے مخالفین کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کے ساتھ ان کے جلسے الٹا رہی تھی۔ ان کے لیڈروں کی کھلے عام تضحیک کررہی تھی۔ انتخابی مہم شروع ہونے سے بھی پہلے فروری 1969ء میں لاہور کے نیلا گنبد میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی جانب سے جماعت اسلامی کے دفتر میں آگ لگانے کا واقعہ اس کی ایک واضح مثال تھا۔ یہ صورتِ حال بتا رہی تھی کہ یہ دونوں جماعتیں شریف اور کمزور ووٹر کو خوف زدہ کررہی ہیں اور انتخابی نتائج پر بری طرح اثرانداز ہورہی ہیں۔ بدقسمتی سے کسی ذمہ دار اتھارٹی نے اس کا نوٹس نہیں لیا، اور آج یہ کہا جارہا ہے کہ 1970ء کے انتخابات سب سے زیادہ منصفانہ تھے۔ حالانکہ یہ نہ صرف انتخابی ضوابط کی صریح خلاف ورزی تھی، بلکہ اس کے ذریعے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس کے باوجود تمام جماعتوں نے ملکی مفاد میں ان نتائج کو قبول کرلیا تھا۔ لیکن ملک کے دونوں حصوں میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی جو اس انتخابی طریقہ کار اور حکمرانوںکی خاموشی پر افسردہ تھے اور بعد میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن اور پھر مشرقی بازو کی علیحدگی کو بھٹو اور فوجی ٹولے کا گٹھ جوڑ سمجھتے تھے۔ ان حالات میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے بطور صدرِ پاکستان اور عوامی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالا تو نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ فسطائیت کے دور کا آغاز ہوگیا۔ گویا 1970ء کی انتخابی مہم، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بچے کھچے پاکستان میں پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار اس تاریخ کا حصہ تھے۔ بدقسمتی سے یہ کوئی سعید دور نہیں تھا، اس میں ہونے والے مظالم، انسانی حقوق کی پامالی، خواجہ رفیق، مولانا شمس الدین اور ڈاکٹر نذیر کا قتل، سیاسی رہنمائوں پر جھوٹے مقدمات، دفاتر میں حکومتی پارٹی کی کھلی غنڈہ گردی، مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان، ضمنی انتخابات میں دھونس اور دھاندلی اور پورے ملک میں سیاسی افراتفری اور گھٹن وہ معاملات تھے جو اس تحریک کے محرکات بنے۔
دوسرا دور 1977ء کے انتخابات اورحزب اختلاف کے انتخابی اتحاد بی این اے کا قیام تھا۔ بھٹو دور کے مظالم کے خلاف پوری قوم پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوگئی۔ اس اتحاد میں شامل 9 جماعتوں کے سربراہوں کو عوام نے آنکھوں پر بٹھایا، انہیں ’’نو ستاروں‘‘ کا نام دیا، اور جب 7 مارچ 1977ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں کھلی دھاندلی کی گئی تو اس پلیٹ فارم سے قوم احتجاج کے لیے نکل آئی۔ اس تحریک میں اتنی جان تھی کہ اس کا اپنا بھی کوئی لیڈر عوام کے غیظ و غضب کے باعث پیچھے ہٹنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔
۔10 مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان ہوا تو پوری دنیا نے دیکھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر ہو کا عالم تھا۔ حکومتی مشینری اور طاقت کے خوف کے باوجود ووٹرز ووٹ دینے کے بجائے بائیکاٹ کا حصہ بنے۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پی این اے کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے 37 ارکانِ قومی اسمبلی نے ان انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ اس دوران بھٹو صاحب پی این اے کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل رفیق احمد باجوہ، جو عوام میں بے حد مقبول تھے اور اپنی خطابت کے باعث ہر مجمع پر چھا جاتے تھے، انہوں نے بھٹو صاحب سے خفیہ ملاقات کی تو اُسی روز صفر ہوگئے۔ یہ عوامی لہر اتنی شدید تھی کہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے چار ارکانِ قومی اسمبلی نے عوامی جذبات کی حمایت کرتے ہوئے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان میں بلخ شیر مزاری، میاں صلاح الدین اور دو دوسرے ارکان شامل تھے۔ لاہور میں مسلم مسجد اور نواپریل کے علاوہ پیلی بلڈنگ کے واقعے میں، جبکہ دوسرے شہروں کے احتجاجی مظاہروںمیں لوگوں نے جس جرأت کا مظاہرہ کیا اور جس طرح پولیس تشدد کا مقابلہ کیا، وہ ایک نئی تاریخ تھی۔ لوگوں کے جذبے کا یہ عالم تھا کہ مسلم مسجد اور نواپریل کو زخمی ہونے والوں کے لیے خون کی اپیل کی گئی تو اسپتالوں میں خون دینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔
اس تاریخ کا تیسرا مرحلہ مارشل لا کا نفاذ تھا جو پیپلز پارٹی ہی نہیں، پی این اے کے لیے بھی نئی صورتِ حال تھی۔
گزشتہ کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس رائے کا اظہارکیا کہ اس تحریک کو سی آئی اے کی درپردہ حمایت حاصل تھی۔ اس الزام میں رتی بھر صداقت نہیں ہے، یہ خالصتاً ایک عوامی تحریک تھی جو ظلم اور دھاندلی کے خلاف چلی تھی۔ پیپلزپارٹی اُس زمانے میں بھی یہ الزام لگاتی تھی لیکن 1977ء کے بعد تین بار اقتدار میں آنے کے باوجود وہ اپنے الزام کے حق میں کوئی ثبوت نہیں لاسکی۔ امریکی دستاویزات تیس سال بعد اوپن کردی جاتی ہیں۔ سی آئی اے نے بھی اپنی کسی دستاویز میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ یہ دراصل اُس وقت عوام کو کنفیوژ کرنے اور ان کی ہمت کو توڑنے کی کوشش تھی جو اُس وقت تو کامیاب نہ ہوسکی مگر لبرل دانشور اب تک یہ لکیر پیٹنے میں مصروف ہیں۔
اس تحریک پر دوسرا الزام یہ تھا کہ یہ تحریک فوج کے اشاروں پر چلی اور اس کا مقصد ملک میں مارشل لا لگانا تھا۔ پہلے الزام کی طرح یہ بھی محض الزام ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ضیا الحق بھٹو کا انتخاب تھے، بھٹو صاحب نے کئی سینئر جرنیلوں کو بائی پاس کرکے انہیں آرمی چیف بنایا تھا اور وہ ان کے لیے قابلِ اعتماد تھے۔ پوری تحریک کے دوران کئی بار تینوں مسلح افواج کے سربراہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقاتوں کی تصاویر میڈیا میں شائع کراتے تھے اور باقاعدہ یہ بیان جاری کررہے تھے کہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ ہیں۔ تحریک کے کسی مرحلے پر نہ تو بھٹو صاحب کو فوج پر کوئی شک ہوا اور نہ پی این اے کی قیادت کو اس معاملے میں کوئی امید نظر آئی۔ چنانچہ تحریک کے دوران بعض ایسے نعرے لگتے رہے جن کا یہاں تذکرہ مناسب نہیں۔ تحریک کا یہ نعرہ تو خاصا مقبول ہوا کہ ’’پاکستان کے تین شیطان… بھٹو، ضیا اور ٹکا خان‘‘۔ لاہور میں فوج ہی کے ایک دستے نے مظاہرین پر گولی چلا کر تین نوجوانوں کو شہید کیا جہاں مظاہرہ کرنے والے نوجوان اپنے سینے ننگے کرکے فوج کے سامنے آکھڑے ہوئے تھے۔کیا پی این اے سے ملی فوج اس کے مظاہرین پر گولیاں چلاتی اور جواب میں وہ کچھ سنتی جسے دہرانا بھی مناسب نہیں؟ عوام پر گولی چلانے کے معاملے پر اگرچہ تین بریگیڈیئرز نے استعفے دیے تھے، لیکن اس کے باوجود فوج کا مجموعی طرزِعمل حکومت کے حق میں تھا، اور فوج پر بھٹو صاحب کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے تحریک کے دوران فوج کو اعتماد میں لے کر کراچی، حیدرآباد اور لاہور میں جزوی مارشل لا نافذ کردیا تھا۔ ہماری رائے میں بھٹو صاحب کے اس اقدام نے فوج کو مداخلت کا راستہ دکھایا۔ نیز تین بریگیڈیئرز کا استعفیٰ فوج کے مضبوط اندرونی نظام کے لیے ایک وارننگ تھا۔ صدر ضیا الحق اقتدار سنبھالنے کے بعد جب بھٹو صاحب سے ملنے ریسٹ ہائوس گئے تو وہ انہیں ’’مسٹر پرائم منسٹر‘‘ کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔ پی این اے کے بعض حلقوں میں یہ تاثر موجود تھا کہ کہیں بھٹو اور ضیا الحق میں گٹھ جوڑ نہ ہوجائے۔ اگر پی این اے کی جماعتیں مارشل لا کے لیے تحریک چلا رہی تھیں تو وہ ضیا الحق کی دعوت پر تمام کی تمام ان کی کابینہ میں شامل ہوجاتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ پی این اے کی 9 میں سے 4 چار جماعتیں کابینہ میں شامل ہوئیں، گویا 5 جماعتوں نے بالکل ابتدائی مرحلے میں مارشل لا کا ساتھ دینے سے انکار کردیا، ان میں سے بھی دو جماعتیں پی ڈی پی اور جے یو آئی (ف) کچھ عرصے بعد ایم آر ڈی کا حصہ بن کر ضیا مارشل لا کے خلاف جدوجہد کررہی تھیں، جب کہ باقی دو جماعتیں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ بھی ایک مرحلے پر مارشل لا کے خلاف مزاحمت میںشریک ہوگئی تھیں۔
یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ ایم آر ڈی کے قیام کے وقت بیگم نصرت بھٹو نے شریک پارٹیوں کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ 1977ء کے انتخابات کو منصفانہ تسلیم کریں اور اعلان کریں کہ ایک منتخب حکومت کو مارشل کے ذریعے ختم کیا گیا۔ لیکن ایم آر ڈی میں شامل کسی جماعت نے اس شرط کو تسلیم نہیں کیا۔ گویا پی این اے کی جماعتیں آخری وقت تک 1977ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ سمجھتی تھیں اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو جائز منتخب حکومت نہیں مانتی تھیں۔ اگر اس تاریخ کا دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ 1971ء سے 1977ء تک کے تمام فسطائی، غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کے ذمہ دار مسٹر بھٹو تھے اور ان اقدامات کے باعث قوم سراپا احتجاج تھی۔ پی این اے کی تحریک خالصتاً عوامی مزاحمتی تحریک تھی جب کہ 1977ء کے مارشل لا، اور اس مارشل لا کے اقدامات کی ذمہ دار برسرِ اقتدار فوج تھی۔ ان اقدامات کی ذمہ داری نہ تو تحریک پر ڈالی جاسکتی ہے اور نہ ہی پی این اے کی جماعتوں پر۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی اپنی سیاسی ضرورت اور لبرل دانشوروں نے اپنی افتادِ طبع کے تحت اس تحریک کو دھندلانے کی کوششیں کیں جو اب تک جاری ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی اس شاندار تحریک اور تاریخ کے درست بیانیے کو ریکارڈ پر لایا جائے۔ یہ کام پی این اے میں شامل جماعتیں اور اُس وقت کے دانشور اور صحافی ہی کرسکتے ہیں۔