ماں، بچہ اور غذا

بے صبری ، مایوسی اور غصہ بچے کی غذائی ضروریات پوری نہیں کرسکتا

۔’’عائشہ کچھ نہیں کھاتی ڈاکٹر صاحب! پورا دن لگ جاتا ہے کچھ کھلانے میں، عبداللہ جو کھاتا ہے الٹی کردیتا ہے، دیکھیں ناں کتنا کمزور ہوگیا ہے،گھر کا کھانا تو کھاتے ہی نہیں میرے بچے…‘‘ روز ایسے ہی سوالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ کلینک میں آنے والی کوئی ماں اپنے بچوں کے کھانے سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ کائونسلنگ بار بار کرنے کے باوجود ہر وزٹ پر ایک ہی بات… ماں، بچہ اور اس کی غذا یا غذائی ضروریات خاص طور پر پیدائش سے تین سال کی عمر تک ہر روز کا موضوع ہے۔

ماں کا دودھ بچے کے لیے قدرت کا کرشمہ

بچے کو پیدائش کے فوراً بعد آدھے گھنٹے کے اندر اندر ماں کا دودھ پلا دینا چاہیے۔ ماں کا پہلا دودھ بچے کے لیے ویکسین کی حیثیت رکھتا ہے، اس میں موجود ایمونوگلوبین اے بچے کے بیماریوں سے بچاؤ کے لیے بہت ضروری ہے۔ بچے کو چھے ماہ کی عمر تک صرف اور صرف ماں کا دودھ ملنا چاہیے۔ ماں دودھ پلانے کے دوران اپنی غذا کا خاص خیال رکھے۔ دودھ پلانے والی ماؤں کی غذا میں کھانے پینے میں کوئی پابندی نہیں، اپنے گھر کا پکا ہوا ہر کھانا کھاسکتی ہیں۔ بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں۔ پانچ چھے ماہ کی عمر کے بچوں کے لیے صرف ماں کا دودھ کافی نہیں ہوتا، اس لیے پانچ چھے ماہ کی عمر سے بچوں کو دودھ کے ساتھ ساتھ اوپر کی نرم غذا شروع کرانی چاہیے۔ پہلے نمکین غذا کھلانے کی کوشش کریں۔ چاول اور دال تقریباً ہمارے ہر گھر میں موجود ہوتے ہیں، شروع کے چند دن چاول ابال کر اس کا پانی جسے ’کس پیچ‘ کہا جاتا ہے، پلائیں دن میں ایک دو بار۔ پھر چند دنوں بعد نرم چاول بھی کھلائیں گھوٹ کر، یا بلینڈر میں چاول اور پانی کا پیسٹ بنا کر۔ جب بچہ چاول کھانے لگے تو اس کو مونگ کی دال کی کھچڑی بھی کھلائی جاسکتی ہے۔ کھچڑی کو گھوٹ لیں یا پھر بلینڈر میں ڈال کر پیسٹ بنالیں۔ بچوں کو جب ٹھوس غذا دینی شروع کریں تو ایک بنیادی اصول یاد رکھیں: کوئی بھی نئی غذا چار پانچ دن تک ایک جیسی ہونی چاہیے، تاکہ اگر کسی غذا یا اس کے اجزاء سے کوئی الرجی ہو تو ماں کو اس کا پتا چل جائے۔ دوسری بات، بچے کو ہمیشہ نمکین یا سادہ غذا دیں۔ اسے ابتدا میں نمک اور چینی سے دور رکھیں۔ اگر آپ بچے کو پہلے میٹھی چیزیں کھلانا شروع کریں گے تو وہ سال بھر کی عمر میں آپ کے دسترخوان/ ٹیبل پر موجود کھانا کھانے میں مشکل کرے گا اور عام کھانے پینے پر توجہ نہیں دے گا، جس کا ذکر بالکل ابتدا میں کیا کہ بچے کو کھانے کا کوئی شوق نہیں۔ جب بچہ کھچڑی کھانے لگے تو ہر تین چار دن بعد اس میں ایک سبزی ابال کر پیسٹ بنا کر ملانا شروع کردیں، اسی طرح سات آٹھ مہینے کی عمر میں اس میں یخنی بھی ملائی جاسکتی ہے اور اس کے بعد مرغی کے گوشت کو ابال کر ریشے کی صورت میں ملا سکتے ہیں، بڑے کے گوشت کو بھی اسی طرح بچے کی غذا میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ کچھ علاقوں میں گندم زیادہ استعمال ہوتی ہے، وہاں پر ابتدا میں چاول، اور سات آٹھ مہینے کی عمر سے گندم کے دلیے میں یخنی اور گوشت کے ریشے کو ملایا جاسکتا ہے۔ پھلوں کے استعمال کے بارے میں اکثر سوال کیا جاتا ہے، جب آپ بچے کو کھچڑی کھلانا شروع کرتے ہیں تو ان ہی دنوں میں کیلے سے پھلوں کی ابتدا کی جاسکتی ہے۔ پھلوں کو مسل کر، یا بلینڈر میں اس کا پیسٹ بنا کر کھلایا جاسکتا ہے۔ بچے کے لیے عام طور پر کسی پھل کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ آٹھ نو ماہ کے بچے کو بڑے کے گوشت کا قیمہ اور جن علاقوں میں مچھلی کا استعمال کیا جاتا ہے وہاں مچھلی کھلانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ انڈا، مرغی، گوشت، مچھلی نو ماہ کی عمر سے بچے کو ضرور کھلائیں۔ سال بھر کی عمر کا بچہ آپ کی ٹیبل/ دسترخوان پر موجود گھر کا کھانا نرم کرکے کھانے کے قابل ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچھ بچے کسی خاص کھانے یا چیز کو پسند کرتے ہیں اور کچھ کو کھانے سے مکمل انکار کردیتے ہیں۔ خیال رہے بچوں کو زبردستی کوئی بھی چیز نہیں کھلائی جاسکتی۔ آپ کو بچے سے دوستی کرنی پڑے گی۔ حکم، زبردستی، زور، جبر صرف اور صرف بچے میں آپ کے لیے نفرت پیدا کرے گا اور کھانے کو دیکھ کر وہ الٹی کردے گا۔ بچہ مزید ضد میں آکر آپ کے لیے مشکلات ہی پیدا کرے گا۔ بچے کو کھانا کھلانے کے لیے اچھا ماحول بنانے کی کوشش کریں۔ موبائل دکھاتے ہوئے، پورے گھر میں گھوم پھر کر، جلدی میں، غصے کے اظہار کے ساتھ کھانا کھلانا بالکل درست نہیں۔ کچھ بچے کھانے کے معاملے میں بہت مشکل ہوتے ہیں، ان کو ایک چیز پر لانے میں بعض اوقات ہفتے مہینے لگ جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ آپ بچے کے ماں باپ ہیں، ڈرائیونگ سیٹ پر آپ موجود ہیں، آپ کی شروع سے کوشش ہونی چاہیے کہ بہتر طریقے سے بچے کی تربیت کریں، جو بچے کھانے میں مشکل کرتے ہیں یعنی کچھ خاص چیزوں کے سوا کچھ نہیں کھاتے ان کے کھانے کی لسٹ بنا لیں، پہلے وہ غذائیں جو اُن کو پسند ہیں، وہ کھلائیں، اس کے بعد پھر وہ، جو آپ اور بچہ تھوڑی سی دوستی اور وقت لگانے سے کھا لیتا ہے، اور آخر میں ان غذاؤں کی کوشش جو بچے کو بالکل پسند نہیں۔ کبھی کبھی ایک غذا کو کھلانے کے لیے ہفتوں لگ جاتے ہیں، بار بار اس غذا کو بچے کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے، حیلے بہانوں سے کھلانے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ایسے میں ماؤں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، غصے کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بچے پالنا آرٹ ہے، سائنس نہیں۔ بہت صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ بچے، بچوں کے ساتھ مل کر، کبھی کھیل کھیل میں بھی آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ آج کچھ اور کل کچھ ان کو کھانے میں پسند آتا ہے۔ ایک اور رویہ بچوں میں عام ہے کہ جس چیز سے منع کیا جائے وہ کام ضرور کرتے ہیں۔ اس نفسیاتی کیفیت کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جو چیز آپ کھلانا چاہتے ہیں وہ مزے لے لے کر بچے کے سامنے کھائیں، کچھ بچے چھین کر کھا لیں گے آپ سے۔ کچھ بچوں کو فوڈ ٹیکسچر یعنی اس کے پتلے اور گاڑھے ہونے سے مسئلہ ہوتا ہے۔ بڑے آرام سے پتلی غذا غٹاغٹ بوتل سے پینے کی عادت، مگر جہاں غذا میں تھوڑا سا گاڑھا پن وہیں مسئلہ۔ پہلی بات، بچوں کو اگر کسی مجبوری کے تحت دودھ کی بوتل شروع کروائی تھی تو وہ ایک سال کے بعد بالکل نہیں ہونی چاہیے، ورنہ بچے کے دانت خراب ہوجائیں گے، اور دودھ کی بوتل میں کسی بھی صورت میں کوئی چیز ملا کر نہیں دینی چاہیے۔ جن بچوں کو غذا کے گاڑھے ہونے سے الٹی ہوجاتی ہے یا غذا میں موجود کچھ چھوٹے چھوٹے ذرات سے مسئلہ ہوتا ہے ان کو غذا میں بہت معمولی تبدیلیوں سے بالکل پتلی غذا سے تھوڑا گاڑھی، پھر مزید گاڑھی، اور پھر باریک ذرات اور پھر ٹھوس غذا پر لایا جاسکتا ہے۔ مگر ظاہر ہے اس کے لیے محنت اور وقت چاہیے۔ بے صبری، مایوسی اور غصہ بہرحال بچے کی غذائی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔
غذا کے معاملے میں ایک طے شدہ اصول استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ بچے کو غذا کی صورت میں جو کھلایا جارہا ہے اُس میں متوازن خوراک کی تمام تر اشیاء موجود ہیں۔ متوازن خوراک کا مطلب ہے آپ بچے کو کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، اور چکنائی ہی نہ کھلائیں، بلکہ وٹامن اور دیگر غذائی ضروریات جیسے آ ئرن، آیوڈین اور دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھیں۔ اگر اس بات کو اس طرح دیکھا جائے کہ جب ہم بچے کو ٹھوس غذا شروع کروائیں تو خیال کریں کہ بچہ ایک کلین سلیٹ ہے، ہم جو کچھ جس طرح کلین سلیٹ پر لکھ سکتے ہیں اسی طرح جیسی کھانے کی عادت بچے کو ڈالیں گے ویسا ہی وہ کھانے کے معاملے میں بنے گا۔ اگر ہم شروع سے اس کو تمام چیزیں کھانے کی عادت ڈالیں گے تو وہ سارے سوالات اور مسائل نہیں ہوں گے جن کا ذکر بالکل ابتدا میں کیا گیا ہے۔

…………
ڈاکٹر اظہر چغتائی (MD, Fellowship in Neonatology USA) چائلڈ اسپیشلسٹ اینڈ نیوبورن کنسلٹنٹ ہیں، ان سے بچوں اور ان سے متعلقہ بیماریوں سے متعلق سوالات مندرج ای میل پر کرسکتے ہیں:۔
drazharchaghtai@gmail.com

کیا آپ اپنے بچوں کو تمیزدار اور باادب بنانا چاہتے ہیں؟

ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تمیزدار ہوں یا نہ ہوں، اُن کا بچہ ضرور باتہذیب اور تمیزدار ہو۔ لیکن اب یہ بات بھی طے ہے کہ بچوں کی توہین اور تذلیل کرکے انہیں باادب، مہذب اور تمیزدار نہیں بنایا جاسکتا۔ ”اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے تمیزدار اور باادب بنیں تو اُن کے ساتھ شفقت سے پیش آئیے، اور محبت سے بات کیجیے۔‘‘ صدیوں پرانی یہ نصیحت ایک بار پھر ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے آئی ہے۔ ماضی میں امریکہ اور کینیڈا کے نفسیاتی ماہرین نے ایک مشترکہ تحقیق میں 13 سے 15 سال کی عمر کے 1400 سے زائد بچوں کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جن بچوں کے والدین اور بڑے ان کے ساتھ اکثر توہین آمیز رویہ رکھتے ہیں، انہیں طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے رہتے ہیں، وہ بچے گھر سے باہر کی دنیا میں انتہائی جھگڑالو بن جاتے ہیں اور بدتمیزی، بدکلامی، گالم گلوچ اور مار پیٹ تک ان کے روزمرہ معمولات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ دوسروں کے ساتھ مارپیٹ کرتے ہیں اس وجہ سے خود بھی دوسروں سے مار کھاتے ہیں۔ یہی چیز آگے چل کر ان کی شخصیت میں عدم اعتدال کو جنم دیتی ہے اور بڑے ہونے پر وہ تشدد پسند اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل بھی بن سکتے ہیں۔
13 سے 19 سال کی عمر کو ’’نو بلوغت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس دوران ایک بچہ اپنے بچپن کو خیرباد کہہ کر جوانی میں قدم رکھ رہا ہوتا ہے۔ ذہنی و جسمانی نشوونما کے اعتبار سے یہ عمر کسی بچے کےلیے خاص طور پر اہم ترین ہوتی ہے، کیونکہ اس عمر میں جو اثرات بھی شخصیت پر مرتب ہوتے ہیں، وہ بالعموم مرتے دم تک کسی نہ کسی صورت برقرار رہتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچوں پر سختی کرکے انہیں نظم و ضبط کا پابند بنانے اور سختی کے نام پر بچوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنے کے اثرات میں بہت فرق ہے۔ اگر بچوں کو ڈسپلن سکھانے کےلیے ان پر اس طرح سے سختی کی جائے کہ انہیں اپنے بڑوں سے کوئی خوف نہ ہو اور نہ ہی وہ اپنی توہین محسوس کریں، تو اس عمل کے اثرات مثبت نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر بچوں کو گالیاں دے کر، ان پر طنز کرکے، ان کی توہین کرکے یا انہیں طعنے دے کر ’’تمیز‘‘ سکھائی جائے تو اس کے اثرات الٹ نکلتے ہیں جو بچے کے اندر غصہ پیدا کرتے ہیں، جس کا اظہار وہ اپنے گھر کے بڑوں کے سامنے نہیں کرسکتا۔ اسی لیے گھر میں تذلیل و توہین کا نشانہ بننے والے بچے اپنی ساری بھڑاس باہر نکالتے ہیں جو اکثر اوقات اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ گالم گلوچ اور مارپیٹ کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہی چیز آگے چل کر انہیں جرائم پیشہ اور تشدد پسند مزاج کا حامل بنادیتی ہیں۔
تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بچے کی تربیت کیجیے لیکن اس کی عزتِ نفس مجروح نہ کیجیے، ورنہ آپ بچے کی شخصیت بنانے کے بجائے اسے تباہ کردیں گے، اور یہ اپ کا بھی نقصان ہوگا اور ملک و قوم کابھی نقصان ہوگا۔