فیصل آباد آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا تیسرا اور پنجاب کا بڑا صنعتی شہر ہے۔ تاریخی طور پر برطانوی ہند کے دور میں یہ شہر باقاعدہ ایک منصوبہ بندی سے تعمیر کیا گیا۔ اس وقت یہ میٹروپولیٹن شہر ہے۔ اسے ’’مانچسٹر آف پاکستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ فیصل آباد کی صوبہ پنجاب کی جی ڈی پی میں 20 فیصد سے زیادہ شراکت ہے، اور اس کی سالانہ جی ڈی پی اوسطاً 20.5 بلین ڈالر ہے۔ زراعت اور صنعت اس کا خاص مقام ہے۔ بلاشبہ یہ شہر ملک کا معاشی مرکز بھی ہے۔ یہاں پیدا ہونے والا، یہاں کے زمینی حقائق کو جاننے والا، یہاں کے گلی کوچوں سے واقفیت رکھنے والا ہی بہتر سمجھتا ہے کہ اس شہر کو کس طرح مسائل سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ یہاں کی بلدیہ، ٹرانسپورٹ، سیوریج سسٹم، پولیس، ایف ڈی اے اور دیگر ادارے شہر کے زوال کا سبب بھی ہیں۔ اس میں قصور یہاں کے شہریوں کا نہیں۔ یہاں سے منتخب ہونے والے زیادہ تر نمائندے اس شہر سے وفا نہ کرسکے۔ حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کو مسلم لیگ(ن) پر برتری ملی، مگر مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ یہ شہر ایک بہترین ماضی رکھتا ہے، نشانِ حیدر کے حامل کیپٹن سرور شہید یہاں مسلم ہائی اسکول کے طالب علم رہے ہیں۔ تعلیمی شعبے میں یہاں میاں عبد الغنی جیسے اکابرین نے بہت کام کیا۔ ختمِ نبوت تحریک میں مولانا تاج محمود، جماعت اسلامی کے میاں طفیل احمد ضیاء، اہلِ سنت کے صاحب زادہ فضل کریم سابق وزیر اوقاف اور دیگر رہنما یہاں اس تحریک کے سالار تھے۔ کھیلوں میں ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اختر رسول، سابق کپتان شہباز سینئر، خالد بشیر، قیصر اقبال، ظفر اقبال جیسے اولمپین اور قومی کھلاڑی یہاں پیدا ہوئے، میاں زاہد سرفراز یہاں کی سیاست کا ایک اہم نام رہا۔ قائداعظم تحریکِ پاکستان کے دنوں میں جب یہاں آئے تو زرعی یونیورسٹی (اُس وقت زرعی کالج) کے سامنے کیپٹن نثار اکبر کے والد کی رہائش گاہ پر قیام کیا تھا۔ دینی اور سیاسی لحاظ سے یہ شہر کبھی بانجھ نہیں رہا، یہاں کامیاب سیاسی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور تاجر تنظیمیں بھارت کے کشمیر سے متعلق اقدام کے خلاف 5اگست کو یوم استحصال منائیں گی۔
ملک کا یہ معروف شہر گزشتہ بیس سال سے بری طرح نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، مسلم لیگ(ن) کا خیال رہا کہ یہاں کام کیے جائیں نہ کیے جائیں ووٹ اسے ہی ملے گا۔ لیکن اِس بار یہ داغ دھل گیا اور یہاں تحریک انصاف کامیاب ہوئی، مگر مسائل ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا ایک حکم ہے اور یہ فیصلہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ کوئی شہری نجی طور پر گلیاں اور بازار رکاوٹیں کھڑی کرکے بند نہیں کرسکتا، مگر فیصل آباد کے بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں لوگوں نے اپنی مرضی سے جنگلے لگا کر عام آدمی کی آمد و رفت کے لیے گلیاں بند کی ہوئی ہیں۔ شہر کے آٹھ مرکزی بازار ہیں، مگر ہر بازار میں ٹریفک پولیس نے اپنی آسانی کے لیے ٹریفک کا داخلہ بند کررکھا ہے۔ یہ شہر صنعتی اعتبار سے اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ کپڑے کے کارخانے ایک وقت تھا کہ چوبیس گھنٹے کام کرتے تھے، اور مزدور تین تین شفٹوں میں ڈیوٹی پر آتے جاتے تھے، مگر ملک کے خراب معاشی حالات اور اب کورونا وائرس کی وبا کے باعث یہ سارے کا سارا کام ٹھپ پڑا ہوا ہے، اور اس کے نتیجے میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن نے حتی المقدور اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے منصوبہ بندی کے ساتھ کورونا سے متاثرہ لوگوں کی ریلیف کا کام کیا ہے۔ چونکہ یہ شہر کپڑے کا مرکز ہے لہٰذا متاثر معیشت کی فوری بحالی کے لیے نئی ٹیکسٹائل پالیسی پر مبنی خصوصی ریلیف پیکیج کا فوری اعلان ہونا چاہیے اور اس پر مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے وزارتِ ٹیکسٹائل کا مشیر بھی مقرر کیا جائے۔ پاکستان کی برآمدات کا سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل پر مشتمل ہے جس سے وطنِ عزیز چند سال قبل تک 26 ارب ڈالر سالانہ کما رہا تھا، مگر سابق ادوار کی غلط پالیسیوں اور کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے قیمتی زرمبادلہ کمانے اور لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار مہیا کرنے والا یہ سیکٹر اس وقت بحران کا شکار ہے، اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور ٹیکسٹائل کی برآمدات بتدریج کم ہونا شروع ہوگئیں، اور اب پاکستان ٹیکسٹائل کی برآمدات سے 26 ارب ڈالر کے بجائے صرف 18 ارب ڈالر کما رہا ہے۔ اس کے برعکس کپاس نہ پیدا کرنے والے ملک بنگلہ دیش نے اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت کو ٹھوس بنیادوں پر ترقی دی اور اِس وقت اُس کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 30 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہیں۔ پاکستان میں درآمدات اور برآمدات کا فرق بہت بڑھ گیا ہے، اس صورتِ حال پر قابو پانے کی ایک ہی صورت ہے کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے ہمارے تجارتی حریف ملکوں کے مساوی سہولتیں پاکستانی برآمد کنندگان کو بھی دی جائیں۔ موجودہ حکومت پہلے ہی ٹیکسٹائل پالیسی پر کام کرچکی ہے، لہٰذا اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مذکورہ صنعت کی بحالی کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں، کیونکہ اس کے بغیر ملکی معاشی استحکام ممکن نہیں۔