تمباکو نوشی اب ہمارے معاشرے میں ایک کینسر کی طرح روز بروز بڑھتی جارہی ہے، خصوصاً نوجوانوں میں اس کا استعمال اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فیشن بنتا جارہا ہے، بڑے ماڈرن گھرانوں کی تقریبات میں شیشہ نوشی کا خصوصی اہتمام لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی سے تمباکو کی مصنوعات تیار کرنے والے خوب پھل پھول رہے ہیں۔
سوسائٹی برائے تحفظ ِحقوقِ اطفال (اسپارک) گزشتہ کئی دہائیوں سے اس سلسلے میں مصروفِ عمل ہے۔ گزشتہ دنوں خصوصی SOP میں ڈپٹی کمشنر سائوتھ کی اجازت سے ایک خصوصی سیشن ’’تمباکو نوشی سے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟‘‘ مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا جس میں قانونی ماہرین، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی اور اپنی سفارشات پیش کیں۔ سیشن کی ابتدا میں میڈیا منیجر (اسپارک) محمد کاشف مرزا نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اسپارک کئی دہائیوں سے تمباکو نوشی کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’اسموک فری کراچی‘ کے تحت ہم نے جیلوں خصوصاً بچہ جیل میں بھی آگہی مہم چلائی، ہم پالیسی سازوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آج ملک میں 22 ملین لوگ سگریٹ پیتے ہیں اور ایک سروے کے مطابق روزانہ 1200 سے زائد نئے نوجوان تمباکو نوشی شروع کرتے ہیں جس کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تمباکو نوشی کی وجہ سے سالانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں جو نہایت تشویش ناک امر ہے۔ اس ضمن میں کئی قوانین بھی بنے مگر عمل درآمد نہ ہونے سے غیر مؤثر ہوگئے۔ اب ہمیں سنجیدگی اور تیزی سے اس کے تدارک کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ کے معاونِ خصوصی برائے انسانی حقوق ویرجی کوہلی نے کہاکہ آج ہمارے سماج میں شدت پسندی بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے معمولی معمولی باتوں پر تصادم شروع ہوجاتا ہے، ہمیں اس کو روکنا ہوگا۔ لوگ وقتی مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے بھی تمباکو نوشی اور منشیات کی طرف راغب ہوتے ہیں، ہمیں اس نفسیاتی پہلو کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ ملک کی 73 سالہ تاریخ ہمارے سامنے ہے، جب آئین معطل ہوتا ہے تو تمام حقوق بھی معطل ہوجاتے ہیں۔ اب ہمیں لوگوں کو مایوسی سے نکالنا ہوگا۔ سندھ حکومت اس سلسلے میں بھرپور پالیسی تشکیل دے رہی ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے گٹکا، مین پوری، ماوا کھانے پر پابندی کی وجہ سے بہت فرق پڑا ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری لا ڈپارٹمنٹ میڈم طاہرہ پیچوہو نے کہا کہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ کام ہوا ہے، ہم نے شیشہ نوشی پر پابندی لگائی تو ہم سے کہا گیا کہ شیشہ میں فلیور پینے پر پابندی نہ لگائی جائے، مگر ہم نے کہاکہ ہم شیشہ نوشی کو کسی بھی شکل میں بحال نہیں کریں گے۔ سماج کے موجودہ حالات اور رویوں کے پس منظر میں ہم پالیسی بنا رہے ہیں جو جلد قانون کی شکل میں عوام کے سامنے ہوگی۔
پاکستان فٹ بال ٹیم کے کپتان صدام حسین نے کہاکہ ہماری سوسائٹی اس لعنت سے بہت متاثر ہورہی ہے، ہمیں اپنے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف لانا ہوگا، خاص کر کھیلوں کی سرگرمیاں بڑھانا ہوں گی۔ ہمیں سمر کیمپ لگانے ہوں گے، اسکولوں، کالجوں میں تمباکو نوشی کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی مہم چلانا ہوگی۔ صحافی منیر عقیل انصاری نے بھی اسکولوں، کالجوں میں آگہی مہم چلانے کی تائید کی۔ راقم الحروف (عبدالصمد تاجی) نے کہاکہ آج تمباکو نوشی کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے معاشرے میں رائج ہماری تہذیب و ثقافت، ہماری خاندانی روایات اور ہمارے بزرگوں کی عدم دلچسپی سے پیدا ہونے والی صورت حال کے سبب ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لڑکا باپ اور گھر والوں کے سامنے ہی نہیں بلکہ محلے کے بزرگوں کے احترام میں بھی اُن کے سامنے سگریٹ نوشی نہیں کرتا تھا۔ قانون نہ ہونے کے باوجود سگریٹ فروش کسی بچے یا اسکول یونیفارم میں کسی بھی لڑکے کو سگریٹ نہیں دیتے تھے۔ آج ہمارے اساتذہ شاگردوں سے نہ صرف سگریٹ منگواتے ہیں بلکہ ان کو بھی اپنے ساتھ سگریٹ نوشی کی اجازت دیتے ہیں، ہمیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ سماجی کارکن کرن زبیر نے کہاکہ ہمیں اس ضمن میں قوانین کو سخت سے سخت کرنا ہوگا اور کھلے سگریٹ بیچنے پر پابندی لگانا ہوگی۔ سحر حسن نے کہاکہ اگر ہم نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو مستقبل میں اس کا تدارک ناممکن ہوجائے گا۔
سیشن میں صحافی ضیا قریشی، وحید سموں، کاشف بجیر، حارث جدون و دیگر نے بھی خیالات کا اظہار کیا۔ شرکا کی جانب سے ڈپٹی کمشنر سائوتھ کا شکریہ ادا کیا گیا کہ انہوں نے خصوصی SOP کے تحت سیشن کے انعقاد کی اجازت دی۔
دریں اثنا کراچی پریس کلب میں بریفنگ دیتے ہوئے کاشف مرزا، سرویج عباسی ایڈووکیٹ، شمائلہ مزمل اور حارث جدون نے کہاکہ کراچی میں تمباکو نوشی کے خلاف اتحاد بنایا جائے گا۔ انہوں نے سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ اس مہم میں ہمارا بھرپور ساتھ دیں، کیونکہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اس لعنت سے بچانا ہے۔ گلوبل یوتھ سروے کے مطابق 13.3 فیصد لڑکے اور 6.6 فیصد لڑکیاں جن کی عمریں 13سے 15 سال ہیں، تمباکو استعمال کرتے ہیں۔ سگریٹ میں 40 ہزار کیمیکل ہوتے ہیں۔ 50 کے متعلق پتا چلا ہے کہ وہ انتہائی مضر ہیں، ان میں ایک کاربن مونو آکسائیڈ ہے جو کار سے خارج ہونے والے دھویں میں ہوتا ہے۔
مقررین نے حکومت سے کہاکہ وہ تمباکو مصنوعات پر ٹیکس بڑھا کر اس کی حوصلہ شکنی کرے۔ ایک سوال کے جواب میں میڈیا منیجر کاشف مرزا نے کہاکہ انسدادِ تمباکو نوشی مہم سے اسکولوں، کالجوں میں صحت کے خطرات کم ہوں گے۔