بلریا گنج کے بانکے رام سے مدینہ منورہ کے پروفیسر ضیاء الرحمٰن اعظمی تک

نو مسلم اسکالر سے خصوصی گفتگو

اسلام کی صداقت جب افریقہ کے ایک کالے حبشی غلام بلال کے دل میں جاگزیں ہوجاتی ہے تو اسے عرب کے گوروں کا سیدنا بنا دیتی ہے، فارس کے آتش پرست سلمان پر جب مذہب اسلام کی خوبیاں عیاں ہوتی ہیں تو سلمان اہلِ بیتِ رسول کے خطاب سے سرفراز ہوتے ہیں، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ اگر ایک طرف پیغمر اسلام ﷺ نے اسلامی مساوات کا عملی نمونہ پیش کیا تو دوسری طرف حجۃ الوداع کے موقع پر ان زریں کلمات کے ذریعے ”کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت نہیں، اور نہ ہی کوئی عجمی کسی عربی سے افضل ہے، نہ گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے سوائے تقویٰ کے“ دنیائے انسانیت کو رنگ ونسل، ذات پات، بھید بھاؤ کے بتوں سے ہمیشہ کے لیے آزادی دلائی۔ ویسے تو آغوشِ اسلام میں پناہ لینے والے نومسلموں کے قصے بہت سننے میں آتے ہیں، اور ہر ایک جادئہ حق کی جانب ہدایت کی مختلف داستانیں بیان کرتا ہے، مگر چند نفوسِ قدسیہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے نہ صرف مذہب اسلام کو ذاتی طور پر اپنایا، اپنی زندگیوں میں نافذ کیا، بلکہ تاریخِ اسلام میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جس پر ہم پشتینی مسلمان سوائے رشک کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔ The Road to Makkah کے مصنف، بیسویں صدی میں اسلام کی بیش بہا خدمت کرنے والے یہودی النسل علامہ محمد اسد ہوں، یا یہودی گھرانے کی ہی امریکہ کی مریم جمیلہ جنہوں نے اسلامی تہذیب کی عظمت کو نوجوان نسلوں میں جاگزیں کرنے کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی اور “Western Civilization Condemns Itself”کا علمی تحفہ دے کر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے مستشرقین کو ہمیشہ کے لیے خود اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کردیا، اسی سلسلۃ الذہب کی ایک ایسی کڑی کے بارے میں آج ہم گفتگو کرنے جارہے ہیں جو بلریا گنج کے حکیم محمد ایوب ندویؒ کے حسنِ کردار سے متاثر ہوکر 16-17 سال کی عمر میں دولتِ اسلام سے سرفراز ہوتا ہے اور اس خطہ اعظم کی مردم خیزی جس نے شبلی و فراہی، محدث کبیر حبیب الرحمٰن اعظمی، صاحب الرحیق المختوم صفی الرحمٰن مبارکپوری جیسے عباقرئہ زماں پیدا کیے، پر مہر لگاتے ہوئے اور انہی انفاسِ قدسیہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلام کی تاریخ میں وہ زریں کارنامہ انجام دیتا ہے جسے دنیا ہمیشہ یاد کرے گی۔ میری مراد پروفیسر ضیاء الرحمٰن اعظمی صاحب سے ہے۔ گزشتہ دسمبر کے اواخر میں ناچیز کا مدینہ کا سفر ہوا، جب سے ”دراسات فی الیہودیۃ والمسیحیۃ وادیان الہند“ کا مطالعہ کیا اور اپنے ایم۔فل کے تھیسس میں خوب استفادہ کیا تب سے دل میں شدید خواہش تھی کہ کیوں ناں مصنفِ کتاب سے ملاقات کی جائے۔ برادرم عمار اجمل اصلاحی سے اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے ملاقات کا بندوبست کردیا، جس کے لیے ہم تہ دل سے اُن کے شکر گزار ہیں۔ آئیے ہم پروفیسر ضیاء الرحمٰن اعظمی کی قبولِ اسلام کی داستان خود اُن ہی کی زبانی سنتے ہیں:۔
۔”1955ء میں میری عمر کوئی پندرہ سولہ سال رہی ہوگی، ایک عزیز دوست ماسٹر جنید صاحب نے کہا کہ تم اس وقت گرمی کی چھٹیوں میں بلریا گنج آئے ہوئے ہو (اُس وقت میں شبلی کالج اعظم گڑھ میں زیر تعلیم تھا)، چلو حکیم ایوب صاحب سے ملاقات کراتے ہیں۔ یہ سوچ کر ہمت نہیں ہوئی کہ حکیم صاحب مریضوں میں مشغول ہوں گے، ہم کیوں ان کو تکلیف دیں، اور وہ ہمیں کیوں ملاقات کا وقت دیں گے! لیکن جنید صاحب کے اصرار نے ہمیں مطب تک پہنچا دیا۔ یوں تو انہیں پہلے بھی دیکھا تھا لیکن آج دیکھنے میں کچھ اور ہی لگ رہا تھا۔ صورت و سیرت دونوں میں یکتائے روزگار، چہرے پر نورانی بارش اور دل میں شفقت وکرم کا جوش، نظر پڑتے ہی ساری گھبراہٹ دور ہوگئی۔ جنید صاحب نے میرا تعارف کرایا اور عرض کیا کہ ان کو ہندی میں اسلام سے متعلق کوئی کتاب پڑھنے کے لیے دے دیں، یہ گرمی کی تعطیل میں کچھ دنوں بلریا گنج میں رہیں گے۔ انسان کے شب وروز گزرتے رہتے ہیں لیکن اس کو کیا معلوم رحمتِ الٰہی کا دروازہ کب کھلے گا؟ اس پہلی ملاقات کا اثر آج بھی دل پر تازہ ہے جس کو امانت سمجھ کر اس کی حفاظت کررہا ہوں۔ بقول شاعر: ۔

پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی
ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے

گفتگو کی حلاوت اور لہجے کی لطافت آج تک دل میں رچی بسی ہے۔ أتاني هواها قبل أن أعرف الهوىفصادف قلباً خالياً فتمكنا(محبت اس وقت آئی جب میں اسے جانتا بھی نہ تھا، دیکھا کہ دل بالکل خالی ہے، بس دل میں بس گئی)۔ محترم حکیم صاحب نے ایک چھوٹی سی کتاب ”ستیہ دھرم“ کیا دی کہ آسمان وزمین کے خزانے بھی ہیچ لگنے لگے۔ کتابوں کے مطالعے سے مجھے فطری رغبت تھی، چنانچہ بڑے شوق سے کتاب پڑھی اور اس مطالعے نے میرے دل کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ یوں محسوس ہوا کہ میں اب تک مہیب تاریکیوں میں کھویا ہوا تھا، وہ تہ در تہ تاریکیاں چھٹ رہی ہیں اور پہلی بار روشنی کی کرنیں دکھائی دے رہی ہیں۔ اس احساس نے میرے دل میں اس روشنی سے ہم کنار ہونے کی تڑپ پیدا کردی۔ میں نے اس کتاب کو کئی بار پڑھا اور ہر بار گرمیِ شوق دوآتشہ ہوتی گئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس مصنف کی ہندی میں ترجمہ شدہ تمام کتابیں حاصل کرکے پڑھوں گا۔ میں نے ہندو مذہب کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، البتہ ایک ہندو گھرانے میں پیدائش اور اپنے گرد و پیش کے شدید مذہبی ماحول کی وجہ سے میں ہندو مذہب کے عقائد اور رسوم سے اچھی طرح متعارف بھی تھا اور بے حد متاثر بھی، بلکہ میرے دل میں ہندو مذہب کے لیے شدید عصبیت تھی۔ میں ہندو مذہب کے سوا کسی دوسرے مذہب کو برسرِحق نہیں سمجھتا تھا، لیکن اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور میرے سامنے اسلام کا یہ دعویٰ آیا کہ ”ان الدین عنداللّٰہ الاسلام“ یعنی صرف اسلام ہی دینِ حق ہے، تو میں نے ایک بار پھر ہندو مذہب کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے اپنے کالج کے سنسکرت کے لیکچرار کی طرف رجوع کیا۔ وہ گیتا اور ویدوں کے بہت بڑے عالم تھے، لیکن مجھے مطمئن نہ کرسکے۔ امر واقع تو یہ ہے کہ ہندو مذہب کے دیو مالائی نظامِ عقائد اور ناقابلِ فہم رسوم میں اطمینانِ قلب کے لیے سرے سے کوئی سامان ہی موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے نوجوان طبقے میں اپنے مذہب کے دیومالائی تصورات اور عجیب و غریب رسوم کے متعلق سخت بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ اگر ان لوگوں سے رابطہ قائم کیا جائے اور ان کی ذہنی سطح اور مخصوص پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے لٹریچر تیار کرکے ان میں پھیلایا جائے تو ان میں دعوتِ اسلامی کے پھیلنے کے بڑے مواقع ہیں۔ اس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہے۔ اسی دوران مجھے خواجہ حسن نظامی کا ہندی ترجمہ قرآن پڑھنے کا موقع ملا۔ اللہ نے مزید مہربانی یہ کی کہ شبلی کالج ہی کے ایک استاد نے جو سید مودودیؒ کی فکر سے گہرے متاثر تھے اور جنھوں نے ایک ہفتہ وار حلقہ درسِ قرآن بھی قائم کر رکھا تھا، اسلام کے لیے میرا ذوق و شوق دیکھ کر مجھے اپنے حلقہ درس میں شامل ہونے کی خصوصی اجازت دے دی۔ سید مودودیؒ کی کتابوں کے مسلسل مطالعے اور حلقہ درس قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے میرے قبولِ اسلام کے جذبے کو دو آتشہ کردیا، مگر بعض خدشات دل و دماغ میں ابھر ابھر کر میرے اس روحانی سفر کی راہ میں حائل ہوجاتے اور میں ٹھٹھک کر رہ جاتا۔ سب سے زیادہ پریشانی یہ تھی کہ میں دوسرے اہلِ خاندان کے ساتھ کس طرح نباہ کرسکوں گا، خصوصاً چھوٹی بہنوں کے مستقبل کے متعلق بہت پریشان تھا، مگر اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے نتائج کی پروا کیے بغیر فوراً اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ ایک دن ان ہی استاد صاحب نے جن کے حلقہ درس میں مَیں بلا ناغہ شامل ہوتا تھا، سورئہ عنکبوت کا درس دیا۔ پہلے انھوں نے یہ آیت پڑھی: مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللهِ أَوْلِيَاء كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ. (العنکبوت 29: 41) ”جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کار ساز بنا رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے، جو گھر بناتی ہے اور سب سے بودا گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش لوگ (اس حقیقت سے ) باخبر ہوتے“۔ پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے تمام سہارے مکڑی کے جالے کی طرح کمزور اور بے بنیاد ہیں۔ ان کی اس تشریح اور دل میں کھب جانے والے اندازِ بیان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے بغیر کسی تاخیر کے اسلام قبول کرنے اور تمام سہاروں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا سہارا پکڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اسی مجلس میں میَں نے اپنے استاد سے کہا کہ میں فوری طور پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی ان سے نماز سے متعلق کوئی مناسب کتاب بھی مانگی۔ انھوں نے مجھے ادارہ ”الحسنات“ رام پور (یوپی) کی آسان ہندی زبان میں شائع کردہ کتاب ”نماز کیسے پڑھیں؟“ دی، جس سے میں نے چند گھنٹوں کے اندر اندر نماز سیکھ لی۔ مغرب کے قریب دوبارہ استاد کے پاس پہنچا۔ اُن کے ہاتھ پر باقاعدہ اسلام قبول کرلیا اور ان ہی کی اقتدا میں نمازِ مغرب ادا کی۔ یہ میری سب سے پہلی نماز تھی اور اس کی کیفیت میں کبھی بھول نہ سکوں گا۔ قبولِ اسلام، انکشاف اور اعلان کے درمیان کئی ماہ کا وقفہ رہا۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کے فوراً بعد مجھے ایک زبردست ذہنی کشمکش سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ دراصل اس عملی کشمکش کا نقطہ آغاز تھا جو چند ماہ بعد میرے قبولِ اسلام کے انکشاف اور اعلان کے بعد شروع ہونے والی تھی۔ اس ذہنی کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا سلسلہ تعلیم منقطع ہوکر رہ گیا۔ میرا سارا وقت یا تو سید مودودیؒ کی کتابوں کے مطالعے میں گزرتا، یا ان کتابوں کے منتخب حصے اپنے ساتھی طلبہ کو سنانے میں۔ نماز کے وقت میں چپ چاپ گھر سے نکل جاتا اور کسی الگ تھلگ جگہ جا کر نماز ادا کرتا۔ یہ سلسلہ کوئی چار ماہ تک جاری رہا، لیکن میری یہ سرگرمیاں زیادہ مدت تک پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ میں اعظم گڑھ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں رہتا تھا۔ اس کا لڑکا میرا دوست اور ہم راز تھا۔ اس نے جو مجھ میں یہ تبدیلیاں دیکھیں تو پہلے خود مجھے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ اس طرح اسلام قبول کرنے کے بعد میں اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے کٹ جاؤں گا، لیکن جب اس نے ”ناقابلِ اصلاح“ پایا تو والد صاحب کو کولکتہ خط لکھ دیا کہ فوراً اعظم گڑھ پہنچیں، ورنہ لڑکا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ والد صاحب خط ملتے ہی پہنچ گئے اور پھر مجھے بتدریج ان حالات سے دوچار ہونا پڑا، جن کی توقع تھی اور جن کے لیے میں اپنے آپ کو ذہنی طور پر پہلے سے تیار کرچکا تھا۔ والد صاحب کولکتہ سے اعظم گڑھ پہنچے تو انھوں نے ابتدا میں براہِ راست مجھے کچھ کہنے کے بجائے میرے حالات کا جائزہ لیا، پھر یہ سمجھتے ہوئے کہ میں شاید کسی جن یا بھوت سے متاثر ہوگیا ہوں، مختلف پنڈتوں اور پروہتوں سے میرا علاج کرانے لگے، لیکن کوئی جن یا بھوت ہوتا تو شاید جھاڑ پھونک سے چلا جاتا۔ یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا، چنانچہ جو چیز بھی پنڈتوں اور پروہتوں سے لا کر دیتے، میں بسم اللہ پڑھ کر کھا لیتا۔ بہرحال جب وہاں میرا علاج نہ ہوسکا تو والد صاحب نے مجھے اپنے ساتھ کولکتہ لے جانے کا فیصلہ کیا، تاکہ تحریکِ اسلامی کے افراد سے جو اُن کے نزدیک اس ”بیماری“ کی اصل جڑ تھے، رابطہ برقرار نہ رہ سکے۔ لیکن بھلا یہ رابطہ کہاں اس طرح کے حیلوں بہانوں سے ٹوٹ سکتا تھا؟ چنانچہ کولکتہ پہنچتے ہی میں نے وہاں کے تحریکی رفقا سے رابطہ قائم کیا اور اس طرح میرا سب سے بڑا یعنی نماز پڑھنے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ والد صاحب کو علم ہوا تو وہ بھونچکے رہ گئے۔ انھوں نے فوراً مجھے الٰہ آباد میں مقیم اپنے ایک عزیز کے ہاں بھیج دیا۔ یہاں اب جھاڑ پھونک کے ساتھ ساتھ مختلف پنڈتوں اور پروہتوں نے مجھے سمجھانا، بجھانا شروع کیا۔ کہنے لگے: ہندو مذہب اسلام کے مقابلے میں زیادہ مکمل مذہب ہے۔ لیکن جب میں نے ہندو مذہب کے بارے میں سوالات کیے تو وہ جواب نہ دے سکے۔ زچ ہوکر بولے: اچھا، اگر ہندو مذہب چھوڑنا ہی ہے تو پھر مسلمان بننے کے بجائے عیسائی بن جاؤ، کیونکہ مسلمانوں کی زبوں حالی اور اس کے مقابلے میں عیسائیوں کی فارغ البالی سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عیسائیت اسلام کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر مذہب ہے۔ میں نے جواب میں کہا: دراصل میں مسلمانوں سے نہیں، بلکہ اسلام سے متاثر ہوکر مسلمان ہوا ہوں۔ آخر کچھ عرصے کی جھاڑ پھونک اور بحث مباحثے کے بعد مجھے ناقابلِ علاج قرار دے دیا گیا اور والد صاحب دوبارہ گھر لے آئے۔ گھر والوں کا پہلے ہی رو رو کر برا حال ہوچکا تھا۔ مجھے مکان کے ایک کمرے میں رکھا گیا اور تحریکی رفقا سے رابطہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ساتھ ہی والدہ صاحبہ، بہنوں اور دوسری رشتے دار خواتین نے مجھے اسلام سے باز رکھنے کے لیے اپنے طور پر رونے دھونے اور منت سماجت کا سلسلہ شروع کردیا۔ ادھر جھاڑ پھونک بھی جاری رہی۔ لیکن یہاں ہر چیز بے اثر ثابت ہورہی تھی۔ تنگ آکر گھر والوں نے سخت قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان سب نے بھوک ہڑتال کردی۔ میرے لیے یہ بڑا ہی سخت اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ والدین اور بھائی بہن کوئی بھی کھانے کی کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگاتے۔ وہ میری نظروں کے سامنے بھوک سے نڈھال پڑے سسکتے رہتے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے استقامت بخشی اور اسلام سے باز رکھنے کا یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا۔ دینِ حق سے مجھے برگشتہ کرنے کے جب سارے حربے ناکام ثابت ہوئے تو تشدد کے وہ راستے اپنائے گئے جن سے صدرِ اسلام کے عظیم سپوتوں بلال و سمیہ و عمار کو گزرنا پڑا، مگر اسلام کا جادو تھا کہ سر چڑھ کر بولتا تھا اور اترنے کا نام نہیں لیتا تھا، جب ساری کوششیں ناکام ہوگئیں اور کوئی بھی تدبیر کامیاب نہ ہوپائی تو بفضل رب والدین کے رویّے میں بھی خاصی تبدیلی آگئی، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر انھیں مجھ جیسے حالات سے دوچار ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو بعید نہ تھا کہ معمولی توجہ سے وہ بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہوجاتے۔ تحریک کے ذمہ داروں نے میری تعلیم کا بندوبست دارالسلام عمر آباد میں کرایا۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میں نے مزید تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا، جو بآسانی مل گیا۔ چار سال کے بعد وہاں سے فارغ التحصیل ہوا تو جامعۃ الملک عبدالعزیز، مکہ مکرمہ میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ ایم اے میں میرا تحقیقی مقالہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کی نوعیت اور حیثیت سے متعلق تھا، اور اس کا عنوان تھا ”ابوہریرۃ فی ضوء مرویاتہ وفی جمال شواہدہ وانفرادہ“۔ یہ امتحان بھی امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ سے منسلک ہوگیا۔ رابطہ میں رہتے ہوئے بھی میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ جامعہ ازہر قاہرہ (مصر) سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ میں نے اپنے تھیسس (Thesis) میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے عدالتی پہلو پر تحقیق کی ہے اور اس کا عنوان ہے: ”اقضیۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم“۔ یہ دونوں تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں (مصنف کی اجازت سے ناچیز اِن شاء اللہ موخر الذکر کتاب کا انگریزی میں ترجمہ جلد مکمل کرے گا)۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں بھیانک اندھیروں سے نکل کر روشنی میں اور اتھاہ گہرائیوں سے اٹھ کر بلندیوں میں پہنچ گیا ہوں۔ مجھے اپنے مقصدِ زندگی کا پہلی بار صحیح شعور حاصل ہوا۔ میں نے یہ بات بھی بڑی شدت سے محسوس کی کہ اسلام اور موجودہ مسلمان معاشرے میں بہت بڑا فرق ہے اور غالباً یہی بات غیر مسلموں کے قبولِ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یوں تو اسلامی نظامِ حیات کے ہر پہلو کی کیفیت ”کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست“ کی سی ہے، لیکن پھر بھی میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اسلام کے رشتہ اخوت و مؤاسات نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ آج اس گئے گزرے دور میں بھی اسلام کے ان تابناک اصولوں کی برکت سے مسلمان معاشرے میں انما المومنون اخوۃ (الحجرات 49: 10) کا جذبہ جاری و ساری ہے، اسی طرح آج بھی مسلمان معاشرے میں معاشرتی مساوات کی جو روح کارفرما ہے، اس کی نظیر کسی اور معاشرے میں نہیں ملتی۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم (الحجرات 49: 13) کے جس ارشادِ ربانی نے دورِ رسالت مآب میں عربی نخوت کے بت کو پاش پاش کردیا تھا اور بلال حبشی اور سلمان فارسی کو ابوبکر صدیق اور عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کا ہم پلہ بنا دیا تھا، اس کے اثرات اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمان معاشرے پر بڑے صاف اور واضح دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک اسلامی میں مجھے سب سے زیادہ تحریک کے داعی سید مودودیؒ کے ذاتی کردار نے متاثر کیا۔ راہِ حق میں عزیمت و استقامت کی جو نظیر سید مودودیؒ نے قائم کی، اس کی مثال ماضیِ قریب میں بمشکل ہی ملے گی۔ محض دعویٰ کرنا اور بات ہے، لیکن پھانسی کی سزا ملنے پر بھی پائے استقامت میں لغزش نہ آنے دینا اور باطل کے ساتھ سمجھوتے کی پیشکش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دینا کوئی معمولی بات نہیں۔“
کسے پتا تھا کہ بلریا گنج کی تنگ گلیوں میں رہنے والا بانکے رام ایک دن عالم اسلام کی مایہ ناز دانش گاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا نہ صرف استاذ بلکہ اس کے تحقیقی ڈپارٹمنٹ کا سربراہ ہوکر ریٹائر ہوگا، اور اس سے بڑی باشندگانِ اعظم گڑھ کی نیک نامی اور کیا ہوگی کہ اسی مٹی کے ایک لعل کے لیے مسجد نبوی میں درسِ حدیث کی خاص مسند سجائی جاتی ہے۔ اب تک اردو، ہندی، عربی میں اعظمی صاحب کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ”گنگا سے زمزم تک“ اردو زبان میں ہے جو ان کے دائرئہ اسلام میں داخل ہونے کی داستان ہے۔ ہندی زبان میں اسلام کے بنیادی عقائد اور اسلامی نظام حیات کے مختلف پہلوؤں کو ایک دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی صورت میں خالص علمی انداز میں پیش کیا ہے۔ ”ہندو مت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت کا تقابلی مطالعہ“ جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہے۔ موصوف کی تالیف کردہ مختلف کتابیں سعودی عرب کی جامعات کے اعلیٰ درجوں کے کورس کا حصہ ہیں جس میں سرفہرست ”دراسات فی الیہودیہ والمسیحیہ وادیان الہند“ قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ”الجامع الکامل“ کی متعدد جلدوں میں کتبِ احادیث میں منتشر احادیث ِ صحیحہ کو یکجا کرکے وہ تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے جس کا اعتراف دو تین صدیوں بعد علمی حلقوں کو ہوگا۔ ”المنة الكبرى“ و ”المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي“ و ”تحفۃ المتقین“ پروفیسر اعظمی کی ٍوہ گرانقدر علمی تصنیفات ہیں جن کا ایک زمانہ شرمندئہ احسان رہے گا۔