مثالی مسلمان مرد

کامیاب مثالی مرد کی دلکش تصویر کتاب و سنت کی روشنی میں

ڈاکٹر محمد علی الہاشمی نے یہ گراں قدر کتاب عربی میں لکھی جس کا ترجمہ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اردو دان عوام کی خدمت میں پیش کیا۔ جناب محمد طاہر نقاش تحریر فرماتے ہیں:۔
۔’’اس کائنات کی رنگ و بو میں زندگی گزارنے کا سلیقہ اگر کسی کو نہیں آتا تو وہ زندگی میں ہر موڑ پر ناکامیوں، نامرادیوں، مایوسیوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے۔ اسلام نے ایسے سنہری اصول اور قوانین و ضوابط فراہم کیے ہیں کہ جن کی روشنی میں اپنے آپ کو ڈھال کر انسان اپنی زندگی کو پُرسکون اور کامیاب بنا سکتا ہے۔ اس طرح وہ دنیا میں بھی قابلِ رشک اور کامیاب، باعزت اور پُروقار زندگی گزارتا ہے، اور آخرت میں کامیاب ہوکر جنتوں کا وارث بن جاتا ہے۔ زندگی کو جنتوں کے قابل بنانے والے ضابطے اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں بیان کردہ دلنشین اور قابلِ رشک تعلیمات نہ صرف معاشرے میں مفید انسان پیدا کرتی ہیں، بلکہ اسلام ایک مسلمان کو جس شکل میں دیکھنا چاہتا ہے وہ قابلِ نمونہ مسلمان بھی بناتی ہیں‘‘۔
جناب مبشر احمد ربانی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس کتاب میں قرآن و سنت کی نصوصِ جمیلہ اور دلائلِ قویہ کی روشنی میں ایک خالص مسلمان کی سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔ عقائدِ صحیحہ اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے اسلامی تہذیب و تمدن اور حسنِ معاشرت کے خدوخال نمایاں کیے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کا اپنے مالکِ حقیقی، والدین، اعزہ و اقربا، اولاد و احبا، ازواج و اصدقاء کے ساتھ جو صحیح تعلق ہونا چاہیے اسے نہایت عمدگی کے ساتھ ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اہلِ اسلام میں جو کمزور پہلو ہیں انہیں بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ افراط و تفریط، احکاماتِ شرعیہ میں تساہل و سستی اور بدعقیدگی و بدعملی پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اور جو مسلمان مغربی تہذیب کے رسیا اور دلدادہ ہوچکے ہیں انہیں اسلامی منہج پر قائم کرنے کے لیے مغرب کے نقائص و معائب اور کمزور پہلوئوں کو بھی مدنظر رکھا ہے اور ان کی خست و خرابی کا اسلامی تہذیب کے ساتھ موازنہ کرکے اسلام کی برتری ثابت کی ہے تاکہ یہ بات اظہر من الشمس ہوجائے کہ اسلام کے مقابلے کا کوئی دین و مذہب نہیں جس کے سائے تلے اس حیاتِ مستعار کے چند سانس لیے جاسکیں۔ کتاب کی زبان انتہائی سلیس و سادہ اور قاری کے ذہن میں اترنے والی ہے‘‘۔
ڈاکٹر محمد علی الہاشمی مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’جو شخص بھی کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے انسان کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے واقفیت حاصل کرے گا اسے یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوگی کہ ان میں انسان کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کے سلسلے میں بکثرت جامع نصوص موجود ہیں۔ اپنے رب سے تعلق استوار کرنے، اپنے نفس کے حقوق جاننے اور اپنے اردگرد کے لوگوں سے روابط رکھنے کے سلسلے میں واضح تعلیمات ہیں، جن کے ذریعے سے زندگی کے ہر میدان میں اور ہر پہلو سے مسلمان کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے، اور وہ ایک مثالی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا اہل ہوتا ہے۔
اس طرح ایک مسلمان قرآن و سنت کے حسبِ منشا، ایک معاشرت پسند، ترقی یافتہ اور نابغۂ روزگار انسان کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے، جس کی بے مثل اور بہترین تربیت مکارم اخلاق کے اس مجموعہ سے ہوتی ہے جو قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ سے بنتا ہے، اور جن سے زندگی کو آراستہ کرنا ’’دین‘‘ قرار دیا گیا ہے کہ اس پر انسان عمل پیرا ہو اور ان سے اللہ کی بارگاہ میں اجرو ثواب کی امید رکھے۔
میں ان تمام نصوص کو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمع کرتا رہا اور ان کو ابواب اور موضوعات کے مطابق ترتیب دیتا رہا۔ یہاں تک کہ جب یہ ترتیب مکمل ہوگئی تو اس کے نقوش واضح ہوگئے اور ایک مسلمان کے تعلقات کی مندرجہ ذیل اقسام بن گئیں:
٭مسلمان کا تعلق اپنے رب سے۔
٭مسلمان کا تعلق اپنے نفس سے۔
٭مسلمان کا تعلق اپنے والدین سے۔
٭ مسلمان کا تعلق اپنی بیوی سے۔
٭مسلمان کا تعلق اپنی اولاد سے۔
٭اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے تعلق۔
٭مسلمان کا تعلق اپنے پڑوسیوں سے۔
٭ مسلمان کا تعلق اپنے بھائیوں اور دوستوں سے۔
٭مسلمان کا تعلق اپنے معاشرے سے۔
ان نصوص کو جمع کرتے ہوئے اور ان میں پائی جانے والی بلند اور معتدل تعلیمات پر غور کرتے ہوئے مجھ پر واضح ہوا کہ اللہ کی اپنے بندوں پر یہ بہت بڑی رحمت ہے کہ اس نے انہیں گمراہی کی پستیوں سے نجات دینے اور ہدایت کی بلندیوں تک پہنچانے کی دعوت دی۔ اس نے ان کی طرف اپنے رسول بھیجے اور اپنے پیغامات اور شریعتیں نازل کیں، تاکہ انسان ہمیشہ روشن راستے پر چلتے رہیں، تاریکیوں میں نہ بھٹکیں اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں نہ ماریں، اور سیدھے راستے کے نقوش ان سے مخفی نہ رہیں۔
اس لیے اربابِ فکر اور اصحابِ علم کا فریضہ ہے کہ دین کی بلند قدروں کو نمایاں کرنے اور انہیں لوگوں کے لیے سہل، آسان اور قابلِ قبول بناکر پیش کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوں، اور ان کے سامنے اس روشن اور تابناک صورت کی وضاحت کریں جس سے اس زندگی میں متصف اور آراستہ ہونے کا اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے، تاکہ اس سے زندگی میں حسن و جمال پیدا ہو اور وہ لذت و آسودگی اور چین و سکون سے گزرے۔
اللہ نے اس دین کو سات آسمانوں کے اوپر سے اس لیے نہیں نازل فرمایا ہے کہ وہ محض نظریات کی حیثیت سے باقی رہے اور اس پر بحث و مباحثہ کے ذریعے عقول متمتع اور لطف اندوز ہوں، نہ ہی اس کے نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض مقدس کلام کی ہو جس کی تلاوت سے لوگ برکت حاصل کریں لیکن نہ اس کی تعلیمات کو سمجھیں اور نہ اس کے معانی کا ادراک کریں۔ بلکہ دراصل اللہ نے اس دین کو اس لیے نازل فرمایا ہے تاکہ وہ فرد کی زندگی پر حکومت کرنے اور خاندان کی زندگی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی زندگی کی بھی قیادت کرے، اور وہ دنیا میں ’’نور‘‘ ہو جو انسان کے سامنے راستے روشن کرے اور ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائے۔
’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے، اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اِذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے‘‘۔ (المائدۃ:16,15/5)۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔ رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔ 700روپے قیمت میں اس کو مفت سمجھنا چاہیے۔ مضامین عالی ہیں، ان کو مدنظر رکھ کر اپنی زندگی کو تبدیل کیا جائے تو اِس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فوزو فلاح کے حق دار ہوں گے۔ ترجمہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کے نام کے بجائے غلطی سے جناب غطریف شہباز ندوی نام چھپ گیا ہے، اس کی تصحیح ہونی چاہیے۔ یہ کتاب تعلقاتِ انسانی سے متعلق قرآن و سنت کی تعلیمات کا خزانہ ہے۔

ملا صدرا کی اسفار اربعہ

مولانا مودودیؒ کے اردو ترجمے کی اشاعت

رضی الاسلام ندوی
”ملا صدرالدین شیرازی (م1050/ھ1640ء)کی تصنیف الحکمة المتعالیة في الاسفار العقلیة، جو ”اسفار اربعہ“ کے نام سے مشہور ہے، عربی زبان میں فلسفہ کی ایک ادق، وقیع اور بلند پایہ کتاب ہے۔ مولانا مودودی کو ترجمہ نگاری میں بھی مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے انگریزی اور عربی دونوں زبانوں سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ جن کتابوں کا انھوں نے عربی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا ان میں مصری دانش ور قاسم امین کی ”المراۃ الجدیدة“، مصطفیٰ کامل مصری کی ”المسالة المشرقية“، ابن خلکان کی تاریخ سے مصر کے فاطمی خلفاء سے متعلق حصہ اور شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کی ”حجۃ اللہ البالغة“ کے منتخب حصوں کا ترجمہ (جو ان کے مجموعہ مضامین ”تفہیمات“ جلد چہارم میں شامل ہے) قابل ذکر ہے۔ مولانا مودودی کے بڑے بھائی جناب ابوالخیر مودودی دارالترجمہ سے وابستہ ہوکر تاریخِ اسلام کی کتابوں کا ترجمہ کررہے تھے۔ ان کی ترجمہ کردہ کتابوں میں ”تاریخ کامل ابن اثیر“، ”تاریخ یعقوبی“، ”تحفۃ الامراء فی تاریخ الوزراء“ اور ”کتاب الخراج“ قابل ذکر ہیں۔ مولانا مودودی کے ترجمے پر مولانا گیلانی نے نظرثانی کی تھی۔ یہ ترجمہ مولانا مودودی نے 1932ء میں کیا تھا۔ اُس وقت ان کی عمر 28، 29 برس ہوگی۔ اسفار اربعہ کے حصہ دوم کا ترجمہ کرنے کا ذکر مولانا نے اپنی ایک خودنوشت میں کیا ہے، جو انہوں نے 1932ء میں قلم بند کی تھی۔ دوسروں کے استفسار پر مولانا نے اپنے مکتوبات میں بھی اس کی توثیق کی ہے۔ تلنگانہ آرکائیو کے ریکارڈ میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔
مولانا مودودی کے اس ترجمے سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:۔
(1) اس سے مولانا کی عربی دانی کا ثبوت ملتا ہے اُس وقت مولانا کی عمر 29 برس تھی۔ اس عمر میں انہوں نے فلسفہ کی ایک ادق اور معیاری کتاب کا عربی سے اردو میں ایسا رواں ترجمہ کیا ہے کہ اس میں ترجمہ پن بالکل دکھائی نہیں دیتا۔
(2) اس کتاب میں مولانا کے جو حواشی ہیں وہ علوم عقلیہ میں ان کی گہرائی، وسعت اور مہارت کا پتا دیتے ہیں۔
(3) اس سے مولانا کے اندازِ ترجمہ کا بھی پتا چلتا ہے۔ وہ لفظی ترجمہ کے بجائے بامحاورہ آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، جس میں مفہوم و مدّعا کی ادائیگی مقصد اور روح کے ساتھ ہوتی ہے، نیز انشاء اور ادب کے قواعد کا پورا لحاظ ہوتا ہے۔
اس کتاب کی اشاعت پر میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور جناب احمد ابوسعید صاحب کو بھی، جنہوں نے اس کتاب کو اپنے اشاعتی ادارے شان پبلی کیشنز حیدرآباد(انڈیا) سے شائع کیا۔“
(بہ شکریہ سجاد نگارظہیر)