امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بالغ اور نوجوان افراد کے مقابلے میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ناک میں ناول کورونا وائرس کا جینیاتی مواد 10 سے 100 گنا تک زیادہ ہوسکتا ہے، یعنی ان کی وجہ سے کورونا وائرس پھیلنے کا امکان کہیں زیادہ ہے۔ شکاگو کے لوری چلڈرنز ہسپتال اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی فینبرگ اسکول آف میڈیسن کی اس مشترکہ تحقیق کی تفصیلات ’’جاما پیڈیاٹرکس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔ اس تحقیق میں کورونا وائرس کے 145 مریضوں کی ناک میں موجود مواد کا تجزیہ کیا گیا جن میں 18 سے 65 سال کے نوجوان اور بالغ افراد کے علاوہ پانچ سال سے کم عمر کے 46، جبکہ پانچ سے 17 سال کے 51 بچے شامل تھے۔ ناک میں موجود مواد کے یہ نمونے 23 مارچ سے 27 اپریل کے دوران جمع کیے گئے، جبکہ ان تمام افراد میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ مکمل ہوا تھا۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ناک میں ناول کورونا وائرس کے جینیاتی مواد کے اتنی زیادہ مقدار میں موجود ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے ماہرین نے ٹرمپ انتظامیہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ امریکہ میں اسکول اور ڈے کیئر سینٹرز کھولنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور اضافی حفاظتی تدابیر پر بھی غور کرے۔ واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں کیے گئے ایسے ہی ایک حالیہ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ 10 سے 19 سال کے بچے، بڑوں کی طرح گھروں میں کورونا وائرس پھیلا سکتے ہیں۔ البتہ اس تحقیق میں 9 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں سے متعلق ایسا کوئی خدشہ ظاہر نہیں کیا گیا۔
ذیابیطس کے قریب بھی دارچینی مفید
ذیابیطس کو قابو میں رکھنے کے لیے جادوئی مسالے ’دارچینی‘ کی افادیت ثابت شدہ ہے۔ اب نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ ذیابیطس کی سرحد یعنی پری ڈائبیٹیز کیفیت کا شکار ہیں اگر آج ہی وہ دارچینی کا استعمال بڑھادیں تو بڑی حد تک اس مرض سے خود کو دور رکھ سکتے ہیں۔ جدید طب بھی یہ اعتراف کرچکی ہے کہ دارچینی کا سفوف معمولی مقدار میں استعمال کرنے سے بھی خون میں شکر کی مقدار کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اب ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ ذیابیطس کے قریب ہیں تب بھی دارچینی کا استعمال اس مرض کو آپ سے دور کرسکتا ہے۔ یہ بالکل نیا مطالعہ جرنل آف اینڈوکرائن سوسائٹی کے جرنل میں شائع ہوا ہے۔ ماہرین کھانے پر دارچینی چھڑکنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دارچینی کا قہوہ بھی اس ضمن میں بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
موبائل فون، سفید ایل ای ڈی بلب اور ٹیبلیٹس سے خارج ہونے والی نیلی روشنی کینسر کا سبب
رات کو بہت زیادہ موبائل فون کی روشنی کی زد میں رہنا آنتوں کے کینسر کا خطرہ 60 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔ یہ بات اسپین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مصنوعی روشنی یا جسے رات میں خارج ہونے والی نیلی روشنی بھی کہا جاتا ہے، دیگر طبی مسائل جیسے نیند متاثر ہونے اور موٹاپے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ طبی ماہرین اس سے قبل موبائل ڈیوائسز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی کا تعلق بریسٹ اور مثانے کے کینسر سے بھی جوڑ چکے ہیں۔ مگر اب محققین کا کہنا ہے کہ اس عادت کے نتیجے میں آنتوں کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ تحقیق کو دیکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کہ مصنوعی روشنی کی زد میں رہنے اور آنتوں کے کینسر کے درمیان تعلق کا تجزیہ کیا جائے، جو کہ دنیا بھر میں پھیپھڑوں اور بریسٹ کینسر کے بعد سرطان کی تیسری سب سے عام قسم ہے۔
تحقیق کے دوران بارسلونا اور میڈرڈ سے تعلق رکھنے والے 2 ہزار کے قریب افراد کو ایک سروے میں شامل کیا گیا۔ ان میں سے 650 سے زائد میں آنتوں کے کینسر کو دریافت کیا گیا۔ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی تصاویر کو استعمال کرکے محققین اسپین کے ان دونوں شہروں میں رات کے وقت نیلی روشنی کی سطح کا تعین کرنے کے قابل ہوگئے۔ محققین نے بتایا کہ ان دونوں شہروں کے اُن علاقوں کے رہائشیوٖں میں آنتوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ دریافت ہوا جہاں نیلی روشنی کی سطح زیادہ تھی۔ اس تحقیق میں نائٹ شفٹ میں کام کرنے والے افراد کو شامل نہیں کیا گیا تھا، اور محققین کا کہنا تھا کہ نیلی روشنی موبائل فون اسکرینز، سفید ایل ای ڈی بلب اور ٹیبلیٹس سے خارج ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ روشنی بہت زیادہ توانائی خارج کرتی ہے اور طویل وقت تک اس کی زد میں رہنے سے انسانی جسم میں میلاٹونین کی سطح دبنے لگتی ہے۔ میلاٹونین متعدد اہم افعال اور دن رات کے چکر کو ریگولیٹ کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، یہ ایک طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہے اور ورم کُش افعال میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ رات کے وقت اس روشنی کی زد میں رہنے سے میلاٹونین کی مقدار اور بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے، جس کا انحصار روشنی کی شدت اور ویو لینتھ پر ہوتا ہے۔ اس سے قبل اسپین کے اسی طبی ادارے نے 2018ء میں ایک تحقیق میں بتایا تھا کہ نیلی روشنی اور بریسٹ اور مثانے کے کینسر کے درمیان تعلق موجود ہے۔ اس نئی تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل Epidemiology میں شائع ہوئے۔