مسئلہ قادیانی اور مولانا مودودیؒ کو سزائے موت

۔11مئی 1953ء کو دیوانی گھر وارڈ کے لان میں ہم مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے۔ مولانا مودودی صاحبؒ حسب معمول امامت فرما رہے تھے اور باقی ہم پانچوں مقتدی تھے کہ نماز کے دوران ہی وارڈ کا بیرونی دروازہ کھلا اور چودہ پندرہ حضرات ہمارے قریب آکر کھڑے ہوگئے۔ ہم سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر کھڑے ہوگئے تو یہ حضرات جو مارشل لا کورٹ کے تینوں جج، سپرنٹنڈنٹ جیل اور ان کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور کچھ وارڈن تھے، انہوں نے فرمایا کہ آپ نماز مکمل کرلیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اور مارشل لا کورٹ کے چیئرمین نے پوچھا کہ ابوالاعلیٰ مودودؒی کون ہے؟ حالانکہ وہ مولانا کو خوب پہچانتا تھا کہ وہ ان کی عدالت میں کئی روز مقدمے کی سماعت کے سلسلے میں حاضر ہوتے رہے تھے۔ بہرحال مولانا نے فرمایا: میں ہوں ابوالاعلیٰ مودودی! فوجی افسر نے فرمایا: آپ کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ تصنیف کرنے کی وجہ سے موت کی سزا دی جاتی ہے، جس کے خلاف آپ کو اپیل کا کوئی حق نہیں۔ آپ صرف رحم کی درخواست سات روز کے اندر کرسکتے ہیں، اور مارشل لا کے دوران آپ نے پریس میں جو بیان دیا تھا اس جرم میں آپ کو سات سال قیدِ بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ مولانا مودودی صاحبؒ نے موت کی سزا کا حکم سنتے ہی فرمایا کہ ’’موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر آسمان پر میری موت کا فیصلہ ہوگیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی، اور اگر آسمان پر میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو آپ لوگ الٹے بھی لٹک جائیں تو میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ مجھے کسی سے کوئی درخواست وغیرہ نہیں کرنا ہے۔ آپ لوگ اپنا کام کریں‘‘۔ اس کے بعد اس فوجی افسر نے پوچھا: نقی علی کون ہیں؟ سید نقی علی صاحب کو بھی یہ افسر خوب جانتا تھا کہ وہ بھی اس کے روبرو مارشل لا کورٹ میں پیش ہوتے رہے تھے۔ سید نقی علی صاحب نے جواب دیا کہ میں ہوں نقی علی۔ فوجی افسر نے فرمایا کہ آپ کو مولانا مودودی کا تصنیف کردہ ’’ قادیانی مسئلہ‘‘ شائع کرنے کے جرم میں نو سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس فوجی افسر نے پوچھا کہ نصراللہ خاں عزیز کون ہے؟ حالانکہ ان کو بھی وہ جانتا تھا کہ وہ بھی اس کی مارشل لا کورٹ میں پیش ہوتے رہے تھے۔ خیر ملک صاحب نے جواب دیا کہ میں ہوں نصراللہ خاں عزیز۔ فوجی افسر نے فرمایا کہ آپ کو مولانا مودودیؒ کا مارشل لا کے دوران بیان اپنے اخبار روزنامہ ”تسنیم“ میں شائع کرنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ اور اس کے بعد یہ سب حضرات واپس چلے گئے۔ حقیقت میں ہم پر یہ احکام سنتے وقت اور انہیں سننے کے بعد بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تیز دھار بلیڈ سے ہاتھ کٹ جائے تو فوراً کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ درد بعد میں ہوتا ہے۔ ایسا ہی اس وقت ہوا۔
اس واقعے کے کوئی ایک گھنٹے بعد ہیڈ وارڈن کچھ اور وارڈنوں کے ساتھ آگیا اور کہا کہ مودودی صاحب تیار ہوجائیں، آپ یہاں سے پھانسی گھر جائیں گے۔ اُس وقت بھی ہمیں کچھ محسوس نہیں ہوا۔ مولانا مودودی صاحبؒ نے کپڑے تبدیل کیے، یعنی کھلے پاجامہ کی جگہ تنگ پاجامہ پہنا جو وہ باہر پہنتے تھے۔ قمیص بدلی، کپڑے کی ٹوپی کے بجائے اپنی قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی کے بجائے گرگابی پہنی اور وارڈن سے پوچھا کہ قرآن مجید ساتھ لے لوں؟ تو اس نے کہا کہ قرآن مجید لے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ مولانا نے ہم سب سے معانقہ کیا اور رخصت ہوگئے۔ اُس وقت تک بھی ہمیں صورتِ حال کا کچھ زیادہ احساس نہیں ہوا۔ تھوڑی دیر بعد ایک وارڈن آیا اور اس نے مولانا صاحبؒ کی قراقلی ٹوپی، قمیص، پاجامہ اور گرگابی ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہاکہ انہیں پھانسی گھر کا لباس کھدر کا کرتا اور بے آزار بند کا پاجامہ دے دیا گیا ہے۔ یہ چیزیں وہاں نہیں رکھی جاسکتیں، ان کو آپ لوگ سنبھال لیں۔ اب یہ سب ہوجانے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ کیا ہوگیا ہے۔ اب تو واقعہ یہ ہے کہ ہم تینوں مولانا امین احسن اصلاحی، چودھری محمد اکبر اور میری گھگھی بندھ گئی۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحبؒ مولانا مودودیؒ کی پھانسی گھر سے آئی ہوئی قمیص، پاجامہ اور ٹوپی کو کبھی سینے سے لگائیں، کبھی آنکھوں سے اور کبھی سر پر رکھیں، اور رونے کے ساتھ فرماتے جائیں: میں مودودی صاحبؒ کو بڑا آدمی ضرور سمجھتا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کا اللہ کے ہاں اتنا بڑا مرتبہ ہے۔ میں اور چودھری محمد اکبر صاحب تو ساری رات کمرے سے باہر لان کے مختلف کونوں میں روتے اور آنسو بہاتے رہے۔ میرے دل میں کبھی تو یہ خیال آتا کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو ہرگز مولانا مودودی صاحبؒ کو موت کے گھاٹ اتارنے کا موقع نہیں دے گا، لیکن اگلے ہی لمحے خیال آتا کہ جب اللہ کے سامنے اس کی زمین پر حضرت مسیحؑ کو سولی پر لٹکا دیا گیا، نواسۂ رسولؐ کو تپتی ریت پر لٹاکر اس کے سامنے ذبح کردیا گیا، اس کے نیک بندوں کو آگ میں جلادیا گیا، اس کے نزدیک مودودیؒ کی کیا حیثیت ہے؟ اس کی زمین پر تو ہزاروں نہیں لاکھوں کروڑوں حسین و جمیل پھول جنگلوں اور پہاڑوں پر کھلتے اور سوکھ جاتے ہیں جن کو کوئی آنکھ دیکھتی بھی نہیں، اسے مودودیؒ کی کیا پروا ہے! اسی ادھیڑبن میں ساری رات گزر گئی۔ صبح نمودار ہوئی تو ایک وارڈن آیا اور اس نے حیرت زدہ ہوکر کہا کہ یہ مولانا مودودی صاحبؒ تو عجیب آدمی ہیں۔ وہاں پھانسی گھر میں پھانسی پانے والے مجرم تو دن رات روتے دھوتے، چیختے چلاّتے اور اللہ سے دعائیں کرتے رہتے ہیں، لیکن یہ شخص اطمینان سے اپنے سیل (کوٹھڑی) میں گیا، پھانسی گھر کا کرتا پاجامہ پہنا، جنگلے کے باہر رکھے پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور لیٹنے کے لیے جو تھڑی دی گئی تھی اسے قبلہ رخ کرکے عشا کی نماز پڑھی اور سر کے نیچے اپنی کہنی کا سرہانہ بناکر دس منٹ بعد خراٹے مارنے لگا اور صبح بس نماز کے لیے اٹھا۔
اگلے روز 12مئی کو مولانا کا بڑا بیٹا عمر فاروق اور قائم مقام امیر جماعت اسلامی شیخ سلطان احمد صاحب جیل میں مولانا مودودی صاحبؒ سے ملاقات کے لیے آئے تو ان کو سختی سے تاکید کی کہ میرے بارے میں ہرگز کسی سے کوئی درخواست اور اپیل وغیرہ نہیں کرنی ہے، اور دوسرے ہمدردوں کو بھی تاکید کردیں کہ میرے بارے میں ہرگز ہرگز رعایت کی کوئی کوشش نہ کی جائے، یہ لوگ میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہیں ان کو کرنے دیں۔
لیکن ریڈیو پاکستان سے مولانا مودودی صاحبؒ کی سزائے موت کا اعلان ہوا ہی تھا کہ سارے پاکستان ہی میں نہیں سارے عالم اسلام میں کہرام مچ گیا۔ عوام ہی کی طرف سے نہیں، غیر ملکی حکومتوں کی طرف سے بھی گورنر جنرل کے نام تاروں اور قراردادوں کی بارش شروع ہوگئی کہ مولانا مودودیؒ کو رہا کیا جائے۔ سعودی عرب کے شاہ سعود اور انڈونیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر محمد ناصر نے پُرزور انداز میں تار بھیجے کہ اس حرکت سے باز رہیں، اگر آپ لوگوں کو مولانا مودودیؒ کی ضرورت نہیں ہے تو مسلم دنیا کو ان کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر محمد ناصر نے اپنے پیغام میں کہا کہ آپ مولانا مودودی صاحبؒ کو انڈونیشیا بھیج دیں ہمیں ان کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ تیسرے روز ہی 13مئی 1953ء کو مولانا کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔
(اہلِ پاکستان کے لیے راہِ نجات۔ مرتب و ترتیب: پروفیسر سُمیّہ طفیل)

علامہ اقبالؒ کی شاعری اور ختم ِ نبوت

پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسولِ ما رسالت ختم کرد

( خدا نے ہم پر شریعت کو اور ہمارے رسولؐپر رسالت کو ختم فرمادیا)

رونق از ما محفل ایامِ را او رسل را ختم و ما اقوام را

(ہمارے رسول ؐپر سلسلہ انبیاء اور ہم پر سلسلہ اقوام ختم ہوچکا،بزمِ جہاں کی رونق ہم سے ہے)

لا بنی بعدی ز احسانِ خدا است پردۂ ناموس دین مصطفےٰ است

(رسولِ خدا کا فرمان لانبی بعدی اللہ کے احسانات میں ایک احسان ہے،دین مصطفےٰ کی عزت کا محافظ بھی یہی ہے)

قوم را سرمایۂ قوت ازو حفظ سرِّ وحدت ملت ازو

ایک جگہ علامہ ؒنے قادیانیت پر زبر دست تنقید کرتے ہوئے فرمایا:۔

پنجاب کے اربابِ نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر

( کلیات اقبال:540،محمد صادق حسین قاسمی)