قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺکے سامنے دو آدمیوں میں سخت باتیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک صاحب کو اتنا غصہ آیا کہ چہرہ لال ہوگیا اور رگیں پھول گئیں۔ نبیﷺ نے انہیں آنکھ اٹھاکر دیکھا، فرمایا: ”مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اس کو کہہ لے تو یہ غصہ جاتا رہے اور وہ یہ ہے: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔“ (بخاری)۔
کسی بھی زبان اور لہجے کی خوب صورتی اس کے حسنِ ادائیگی سے ہوتی ہے۔ ہر زبان کا ایک الگ انداز ہوتا ہے اور اگر وہ زبان اس لہجے اور انداز میں نہ بولی جائے تو اس زبان کی لذت کو محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ بعض اوقات تو انداز و لہجے کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں۔ یہی، بلکہ اس سے بھی زیادہ عجیب صورت حال عربی زبان کی ہے، اور خاص طور پر قرآن کا معاملہ تو بالکل مختلف ہے۔ عربی زبان کی ادائیگی میں زبر، زیر، پیش کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے، اور اسی طرح حروف کی صحیح ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ رسول اللہؐ کا طریقہ تھا کہ جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپؐ نازل شدہ آیات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یاد کرا دیتے تھے۔
روایات میں آیا ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن مجید پڑھ کر سناتے تھے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے حضرت ابی بن کعبؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن مجید پڑھ کر سنائوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر فرمایا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا نام لے کر مجھے فرمایا ہے۔ راوی نے کہا کہ حضرت ابیؓ یہ سن کر (مارے خوشی کے) رونے لگے۔ (متفق علیہ)
حضرت ابی بن کعبؓ کے بارے میں حضورؐ نے فرمایا: صحابہؓ میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعبؓ ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضورؐ صحابہؓ کو نصیحت فرماتے تھے کہ، جو شخص چاہتا ہے کہ قرآن اس طرح پڑھے کہ جس طرح نازل ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ابنِ امّ عبد، (عبداللہ بن مسعودؓ) کی طرح پڑھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قرآن چار شخصیتوں سے سیکھو: (1) عبداللہ بن مسعودؓ، (2) سالمؓ (مولیٰ ابوحذیفہؓ)، (3) ابی بن کعبؓ، (4) معاذ بن جبلؓ (متفق علیہ)۔
چند مثالوں کے ذریعے ہم یہ بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر حروف مخارج سے ادا نہ ہوں تو کس قسم کی شدید غلطیاں ہم سے سرزد ہوسکتی ہیں۔(معاذ اللہ من ذٰلک)
٭سورۂ اخلاص میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ، ’’کہو وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ اب اگر یہاں ’’ق‘‘ کی جگہ ’’ک‘‘ پڑھیں تو جملہ ہوگا کُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌاور معنی ہوگا ’’کھائو وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ کیونکہ ’’قُلْ‘‘ کا مطلب ہے، کہو اور ’’کُلْ‘‘ کا مطلب ہے ’’کھائو‘‘۔ دونوں ہی امر کے صیغے ہیں لیکن ایک حرف کی تبدیلی سے پورا مطلب تبدیل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی جو مراد ہے وہ نہیں رہی۔
٭ ’’قلب‘‘ کا مطلب ہے ’’دل‘‘۔ اگر ’’قلب‘‘ کی ادائیگی میں ’’ق‘‘ کی جگہ ’’ک‘‘ ادا کردیا جائے تو لفظ ’’کلب‘‘ ہوجائے گا اور ’’کلب‘‘ کا مطلب ہے ’’کتا‘‘۔ یہاں پربھی صرف ایک حرف کی تبدیلی سے پورا معنی بدل گیا۔
٭ص کی جگہ س پڑھنا بھی شدید قسم کی غلطی ہے مثلاً:إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُمیں نصر کا مطلب ہے ’’مدد‘‘ اور اگر نصر کی ادائیگی میں ’’ص‘‘ کی جگہ ’’س‘‘ پڑھ دیا تو نسر ہوگیا جس کا مطلب ہے ’’گدھ‘‘ (پرندہ)۔ یہاں ایک حرف کی تبدیلی سے پورا مطلب ہی تبدیل ہوجائے گا۔
٭خَلَقَ کا مطلب ہے ’’پیدا‘‘ کیا۔ اگر ’’خ‘‘ کی جگہ ’’ح‘‘ پڑھ دیا یعنی ’’حلق‘‘، تو معنی ہوں گے ’’سرمونڈھنا‘‘۔ اب یہاں غور کریں کہ ایک حرف کی تبدیلی سے کتنی بڑی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔
٭زبر کی جگہ زیر پڑھنے سے بھی معنی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اَلْعٰلَمِیْنَ کا مطلب ہے، سارے جہاں۔ اگر اَلْعٰلَمِیْنَ کی جگہ اَلْعٰلِمِیْنَ یعنی لام پر زبر کی جگہ زیر پڑھ دیا تو معنی ہوگا، ’’علم والے‘‘۔ سورۂ فاتحہ میں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کی تلاوت میں اَلْعٰلَمِیْنَ کے لام کے نیچے زیر پڑھ دیا تو معنی ہوں گے ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب ہے علم والوں کا‘‘(معاذ اللہ)
٭زیر کی جگہ زبر لگادیں، اس سے بھی معنی بدل جاتے ہیں، مثلاً دِیْن کا مطلب ہے ’’نظام زندگی‘‘۔ اگر یہاں ’’دال‘‘ پر زبر لگادیں تو وہ دَیْن ہوجائے گا اور مطلب ہوگا ’’قرض‘‘۔ اصل مدعا، مطلب اور مراد وہ نہیں ہوں گے جو کہنے والا بیان کرنا چاہتا ہے۔
٭عین کی جگہ ہمزہ یا ہمزہ کی جگہ عین پڑھنے سے بھی معنی بدل جاتے ہیں، مثلاً عَلِیْم (علم والا)۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسما میں سے ہے۔ اگر یہاں ’’عین‘‘ کی جگہ ’’ہمزہ‘‘ لگادیا تو یہ لفظ عَلِیْمکی جگہ اَلِیْم ہوجائے گا اور معنی ہوگا (دردناک)۔ اسی مثال کو برعکس بھی کرسکتے ہیں کہ عَذَاب اَلِیْم (درد ناک عذاب) لکھا ہوا ہے اور وہاں پڑھ دیا عَذَاب عَلِیْم، تو معنی ہوگا ’’علم والا عذاب‘‘۔
٭حروف متشابہات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ بہت سے حروف ایسے ہیں کہ جن کی آوازوں میں خاصی مشابہت ہے۔ مثال کے طور پر ’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ کی آواز میں خاصی مشابہت ہے۔ اسی طرح ’’ذ‘‘ اور ’’ز‘‘ میں بھی خاصی مشابہت ہے۔ اگر ان چاروں حروف کی ادائیگی میں احتیاط نہ کی جائے تو معنی کس حد تک بدل جائے گا اس کا اندازہ ان مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے: ذَلَّ (وہ ذلیل ہوا)، زَلَّ (وہ پھسلا)، ظَلَّ (وہ گیا)، ضَلَّ (وہ گمراہ ہوا)۔ ان مثالوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر حروف متشابہات کی ادائیگی میں احتیاط نہ کی جائے تو معنی بدل جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپؐ خوش الحانی کو بہت پسند فرماتے تھے اور خوش الحان قاریوں کی تلاوت فرمائش کرکے سنتے تھے۔ حضورؐ کو خوش الحانی کتنی پسند تھی، اس کا اندازہ ان احادیث سے لگایا جاسکتاہے۔
حضر ت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے ان سے فرمایا: ’’تجھے اٰل دائود کے لحن سے خوش الحانی کا ایک حصہ عطا ہوا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’اگر تم مجھے گزشتہ رات دیکھتے جب میں تمہارا قرآن سن رہا تھا (توبہت خوش ہوتے)‘‘۔ (مسلم)۔
(ماہنامہ ترجمان القرآن، ستمبر2007ء)