قربانی کی پہلی عید

آج سے ہزارہا سال پیشتر ریگستانِ عرب کے بادیہ نشین نے عالم رویا میں دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے لختِ جگر کے گلے پر چھری پھیر رہا ہے۔ وہ خدا کا ایک مقبول و برگزیدہ بندہ تھا۔ اس نے خیال کیا کہ میرا پروردگار اپنے بندے سے کسی قربانی کا طلب گار ہے، چنانچہ اس نے صبح اٹھ کر اونٹوں کا ایک گلہ ذبح کیا اور گوشت مسکینوں میں تقسیم کردیا۔
دوسری رات پھر اُس نے عالمِ خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے مالکِ حقیقی کی قربان گاہ پر اپنے اکلوتے دلبند کو لیے کھڑا ہے۔ اس کے خواب ہمیشہ سچے ہوا کرتے تھے، اس نے خیال کیا کہ میرا مولا مجھ سے مزید قربانیوں کا طالب ہے۔ اس لیے اٹھ کر اس نے اونٹوں کا ایک اور گلہ ذبح کر ڈالا اور گوشت بھوکے مسکینوں میں تقسیم کردیا۔
تیسری شب پھر اس نے عالمِ رویا میں یہی ماجرا دیکھا اور اپنے پروردگار کی آواز سنی کہ ہم تیرے بیٹے اسماعیلؑ کی قربانی چاہتے ہیں۔ خدا کا یہ برگزیدہ بندہ اس آواز کو سنتے ہی بستر سے اٹھ بیٹھا اور سب سے پہلے اس نے اپنے مولا کی بارگاہ میں سجدئۂ شکر ادا کیا اور گزشتہ دو دن کی اجتہادی لغزش پر معافی مانگی۔
صبح ہوئی تو اس نے اونٹوں، بھیڑوں اور بکریوں کے گلوں سے منہ موڑ لیا اور اپنے دلبند سے مخاطب ہوکر کہا کہ: ’’میرے مولا نے تمہیں اپنے پاس بلایا ہے اور میں تمہیں اللہ کی راہ میں قربان کرنے والا ہوں‘‘۔
ننھے بچے کو اپنے پروردگار اور اپنے باپ کی دوستی کا علم تھا، وہ اس بلاوے پر بہت خوش ہوا۔ اس کے رخسار خدا کی راہ میں قربان ہونے کی خوشی سے تمتما اٹھے۔
خدا کے اس برگزیدہ بندے کی سعادت مند بیوی کو بھی اپنے شوہر اور اپنے خدا کے دوستانہ رشتے کا علم تھا، جب اُس نے باپ اور بیٹے کی اس خوشی کا ماجرا سنا تو وہ بھی قربانی کی یہ نئی عید منانے میں اُن کے ساتھ شریک ہوگئی۔
صحرا نشینوں کے گھر عید منائی جانے لگی اور شوہر، بیوی اور ان کا اکلوتا بیٹا تینوں اس نرالی قربانی کے لیے اپنی اپنی جگہ پر تیاری کرنے لگے۔
ماں نے اپنے لخت ِ جگر کو نہلایا۔ اسے نئے کپڑے پہنائے۔ آنکھوں میں کاجل لگایا اور رومال پر خوشبو چھڑک دی، کیونکہ وہ اپنے اور باپ کے دوست کے ہاں مہمان جارہا تھا۔
باپ نے چھری ہاتھ میں لی اور ایک سیاہ پتھر پر گھسنے لگا تاکہ اس کی دھار زیادہ تیز ہوجائے اور بیٹے کی قربانی کا کام آسانی سے اختتام کو پہنچے۔
ماں نے اپنے لخت ِ جگر کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ باپ اور بیٹا قربان گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ بیٹے کو اپنے باپ کی نسبت اس عید کی زیادہ خوشی تھی اور اس کے پُرشوق قدم بڑی تیزی سے قربان گاہ کی طرف اٹھ رہے تھے۔
راستے میں ان باپ بیٹے کو شیطان ملا، جس نے انہیں ورغلانے کی کوشش کی، دونوں نے اس پر پتھر اور کنکر پھینکے اور وہ خوار ہوکر بھاگ گیا۔
شیطان نے اسماعیلؑ کی ماں کو بھی بہکانے کی کوشش کی اور اس سے کہا: تمہارا شوہر دیوانہ ہوگیا ہے جو محض ایک خواب کی بنا پر بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنے والا ہے۔ اسماعیلؑ کی ماں نے بھی بہکانے والے شیطان پر پتھر پھینکے اور وہ خوار ہوکر بھاگ گیا۔
قربان گاہ میں پہنچ کر بیٹے نے رَب جَلُ و عَلٰی کی بارگاہ میں گردنِ تسلیم خم کردی۔ باپ نے چھری گلے پر رکھ دی۔ شفقت ِ پدری نے آنکھوں پر پٹی باندھی۔ زبان پر تکبیر جاری ہوگئی۔ دل خدا کی تقدیر و تمجید کرنے لگا اور ابراہیمؑ کی روح پکار اٹھی: ’’میری نماز، میرا طریق، میری موت اور حیات اللہ کی راہ میں قربان ہوں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں اس حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے والوں میں سب سے پیش ہوں‘‘۔
ابراہیم ؑ کے ہاتھ کو جنبش ہوئی اور ملائے اعلیٰ پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے والے فرشتوں کی زبان سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّاللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدکی تسبیح جاری ہوگئی جس نے فضائے آسمانی میں ایک لامتناہی گونج پیدا کردی۔
ابراہیمؑ نے اپنے دلبند کی خون آلود نعش کا نظارہ کرنے کے لیے آنکھیں کھولیں تو نقشہ بدلا ہوا تھا۔ چھری ایک دنبے کی گردن پر چل چکی تھی اور اسماعیلؑ وحی آسمانی کی انگلی تھامے مسکرا رہے تھے۔ ان کا چہرہ نورِ نبوت سے روشن تھا۔
آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بچے کے خون، گوشت اور پوست کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تم سے تقویٰ کا طلب گار تھا اور تم تقویٰ کے اس امتحان میں پورے اترے۔ تمہارے پروردگار نے قربانی کے لیے یہ دنبہ بھیجا ہے اور میں تمہیں، تمہاری بیوی اور تمہارے ہونہار بچے کو اللہ کی رضا کا پیغام دینے کے لیے آیا ہوں۔
باپ اور بیٹے نے مالک کی رضا کا مژدہ سن کر سرِ نیاز جھکا دیا اور زمین و آسمان کی کُل کائنات نے تکبیر و تہلیل کا ایک غلغلہ بلند کیا۔
سطح ارضی پر یہ پہلی عیدِ قربان تھی جو خلیل اللہ کے گھر میں منائی گئی، اور اب اولادِ خلیلؑ کے گھروں میں ہر سال منائی جاتی ہے۔
( چشم بیدار، جولائی 2020ء)

بیاذ مجلس اقبال

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حُر کے لیے جہاں میں فراغ

ضربِ کلیم کی ایک غزل کا یہ شعر اپنے اندر بہت بڑا سبق اور مکمل فلسفہ رکھتا ہے۔ علامہ نے آزاد اور غلام انسان کی زندگی کا ایک خاص پہلو اس شعر میں بیان کیا ہے کہ وقت بہت قیمتی چیز ہے مگر صرف آزاد انسان کے لیے۔ وہ اس لیے کہ کوئی نہ کوئی بڑا مقصد اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کا لائحہ عمل اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی ایک امانت ہے۔ اس کا ایک ایک لحظہ قیمتی ہے۔ اور اسی مناسبت سے مصروفِ عمل رہنا ہی انسان کو زیب دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک غلام کی زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ انسانیت کے شعور سے ہی بے خبر ہوتا ہے، اور اُس کے پاس اپنے آقا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چوائس ہی نہیں ہوتی۔ نہ تو اس کے پاس اپنا کوئی منصوبہ کار ہوتا ہے اور نہ اس کے کوئی تقاضے۔ وقت ہی تو زندگی ہے، اور وقت کے ضیاع کا تصور ایک آزاد اور خودمختار انسان ہی کے پاس ہوتا ہے۔