خطے کی سیاست میں بڑی پیش رفت
پاکستان اور بنگلہ دیش کے سفارتی تعلقات کی راکھ میں اچانک چنگاری بھڑک اٹھی ہے، ایک طویل عرصے کے بعد دونوں ملکوں کے مابین ایک اعلیٰ سطحی رابطہ ہوا جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے ٹیلی فونک گفتگو کی اور برادرانہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے کورونا وائرس کی وبا اور بنگلہ دیش میں سیلابوں سے ہونے والے نقصانات پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکربھی کیا اور شیخ حسینہ واجد کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات گزشتہ ڈیڑھ سال سے سردمہری کے صحرا میں کہیں بھٹک رہے تھے، متعدد بار ایسا معلوم ہوا کہ شاید دونوں ملک کبھی بھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکیں گے، لیکن سفارتی زبان کی اپنی ہی تاثیر ہوتی ہے، یہ پتھر پر قطرہ بن کر ٹپکتی رہتی ہے اور ایک روز پتھر ٹوٹ جاتاہے۔
اسلام آباد اور ڈھاکا کے مابین حالیہ رابطے ایک مکمل موضوع ہے، اسے جنوبی ایشیا میں بدلتی ہوئی سفارتی دنیا اور آباد ہوتے ہوئے نئے جہان کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ تین چار سال قبل بھارت اس خطے میں پنجے گاڑے ہوئے تھا، کابل میں اسے پذیرائی تھی، ایران میں اسے اہمیت مل رہی تھی، امریکہ کی جیب کی گھڑی بنا ہوا تھا۔ لیکن اس وقت بھارت کابل اور تہران سے بے دخل ہوچکا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کی ان تھک محنت، خاموش سفارت کاری اور ہدف پر نشانہ لگانے کی پختہ مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں یک جان دو قالب بن کر سامنے آئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف فورم پر اٹھائے جانے والے ہر سوال کا پاکستان نے بروقت اور مؤثر جواب دے کر اپنا مقدمہ تقریباً جیت لیا ہے۔ یہ مقدمہ بھارت نے ہی امریکی غلاف میں بند کرکے ہمارے گلے میں ڈالا تھا، مگر اب حالات بدل رہے ہیں، بھارت اس وقت خطے میں تنہا ہوچکا ہے۔ اسے نیپال جیسے چھوٹے ملک سے بھی مزاحمت مل رہی ہے۔ سری لنکا، بھوٹان، بنگلہ دیش اور مالدیپ میں بھی اب تبدیلی آچکی ہے اور یہاں بھارت کی سفارت کاری کا سورج غروب ہونے جارہا ہے۔ دفتر خارجہ میں اس پیش رفت پر بہت مسرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ فرائیڈے اسپیشل کے استفسار پر دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بتایا:
’’ہم ایک نئی دنیا آباد کرنے جارہے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے روابط کا خواہاں رہا ہے اور برادرانہ اور مضبوط تعلقات کی یہ خواہش اب بھی موجود ہے۔‘‘
دفتر خارجہ میں پائی جانے والی سوچ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کی تجدید کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران عالمی رہنمائوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ایک طویل عرصے کے بعد ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر کی تعیناتی پاکستان کی جانب سے بہتر تعلقات کی طرف مؤثر کوشش سمجھی جارہی ہے، ڈھاکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی رواں سال فروری میں اپنے فرائض سنبھال چکے ہیں اور پانچ ماہ کے وقفے کے بعد انہیں بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن سے ملاقات کا وقت ملا۔ اس ملاقات میں ہی دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ٹیلی فونک گفتگو کا فیصلہ ہوا۔ بنگلہ دیش میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر عمران صدیقی کی پہلی اسائنمنٹ یہی ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے مابین عوام کی سطح پر رابطے بحال کریں جس میں تجارت، کاروبار، تعلیم، ثقافت اور کھیل کے شعبوں میں دو طرفہ تعلقات شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتے جب ڈھاکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر کی بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ سے ملاقات ہوئی تھی تو اسے اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں ایک انوکھے واقعے کے طور پر دیکھا گیا تھا، تاہم دونوں وزرائے اعظم کی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد پارلیمانی حلقوں میں اسے ایک بڑی پیش رفت خیال کیا گیا ہے۔ اسلام آباد اور ڈھاکا کے سفارتی تعلقات کے احیا اور تجدید کو بہتر حکمت عملی اور وقت کی ضرورت قرار دیا جارہا ہے۔ ڈھاکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر کی بنگلہ دیشی وزیر خارجہ سے ملاقات اور اس کے نتیجے میں دونوں وزرائے اعظم کی ٹیلی فونک گفتگو اگرچہ ایک اہم پیش رفت ہے، مگر ابھی تک ایک بات واضح نہیں ہوسکی کہ ڈھاکا اسلام آباد کی جنوبی ایشیا میں امن کی کوششوں اور مقبوضہ کشمیر کے حالیہ اسٹیٹس پر پاکستان کے مؤقف کی کس حد تک حمایت کرے گا۔ وزارتِ خارجہ میں عمر کھپانے والے سابق سیکرٹریز کی رائے ہے کہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اب گیند وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے کورٹ میں ہے، وہ اسلام آبادکے ان اقدامات کا کیا اور کس طرح جواب دیتی ہیں اس بارے میں ابھی تک کچھ واضح نہیں ہے۔ تاہم سی پیک کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید بہت پُرامید ہیں، انہوں نے تو گزشتہ ماہ انتقال کرنے والے بنگالی پائلٹ سیف الاعظم کا ذکر کیا، جنہوں نے پاکستان ائرفورس میں فلائٹ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے 1965ء کی پاکستان بھارت جنگ میں بھارتی، اور عرب اسرائیل جنگ (1967ء) میں اسرائیل کے طیارے مار گرائے تھے۔ وہ سیف الاعظم کو پاکستان اور بنگلہ دیش کا مشترکہ ورثہ سمجھتے ہیں۔ بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب سے کسی مثبت جواب کی توقع نہیں۔ اُن کی رائے ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ پاکستان سے ایک طرح کی دشمنی رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اسلام آباد 1971ء کے واقعات کی معافی مانگے۔ جہاں تک جنوبی ایشیا کی سیاست کا تعلق ہے، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس خطے کے ممالک پر بہت کام کیا ہے، بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کی وجہ بھی بھارت ہے، اور مودی نے تو اس کا باقاعدہ اعتراف بھی کیا تھا، لیکن حال ہی میں بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ لایا گیا، بنگلہ دیش بھی اس سے متاثر ہوا جس کے بعد نئی دہلی اور ڈھاکا میں دوریاں پیدا ہوئیں، گزشتہ سال اکتوبر میں بنگلہ دیش میں تین لاکھ افراد نے کشمیری مسلمانوں کے حق میں مظاہرہ کیا تھا، بنگلہ دیش یہ سمجھتا ہے کہ یہ کوشش بھارت کے تسلط کے لیے ہے تاکہ ہندو توا کا نظریہ مسلط کیا جائے۔ نیپال، بھوٹان اور سری لنکا جیسے ملکوں میں بھی یہ احساس موجود ہے کہ ہندوتوا سے ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اور یہی خطرہ بنگلہ دیش نے بھی محسوس کیا ہے۔ بھارت سے دوری کی وجہ سے ڈھاکا میں چین کے اثر رسوخ میں اضافہ ہوا ہے، اب تو نیپال جیسا چھوٹا ملک بھی بھارت کو آنکھیں دکھا رہا ہے، اسی لیے پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ چین خطے کے تمام ممالک سے بہتر تعلقات رکھنا چاہتا ہے اور بھارت اس وقت ایک حصار میں جکڑا ہوا ہے، اسی لیے بھارت اور بنگلہ دیش کے سفارتی تعلقات ایک سال سے تناؤ کا شکار ہیں، شیخ حسینہ واجد شاید اسی لیے پاکستان کی طرف دیکھنے کی متمنی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا جدا ہونا اور بنگلہ دیش کا معرضِ وجود میں آنا پُرامن اور دوستانہ ماحول میں وقوع پذیر نہیں ہوئے، بلکہ ان واقعات سے کئی تلخ یادیں وابستہ ہیں جس کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان شروع سے ہی بہتر تعلقات استوار نہیں ہو پائے تھے، مختلف ادوار میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنی جماعت عوامی لیگ کے دوسرے دور حکومت (2009ء)کے دوران 1971ء میں ہونے والے جنگی جرائم کے مقدمات شروع کیے اور کئی سیاسی رہنمائوں اور غیر سیاسی شخصیات کو سزائیں دی گئیں جس کے خلاف پاکستان میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ سفارتی ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے برف کا پگھلنا وقت کی ضرورت ہے۔ سفارتی ماہرین اس پیش رفت پر بہت اطمینان ظاہر کررہے ہیں۔ اس وقت بھارت کے لیے ڈھاکا میں کوئی ہمدردی نہیں ہے، بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے بھارتی ہائی کمشنر کی متعدد درخواستوں کے باوجود گزشتہ 4 ماہ سے اُن سے ملاقات نہیں کی جو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے کا اشارہ ہے۔ 2019ء میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد تمام بھارتی منصوبے سست روی کا شکار ہیں، جبکہ چینی انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کو ڈھاکا کی جانب سے زیادہ حمایت مل رہی ہے۔ بھارت کی تشویش کے باوجود بنگلہ دیش نے سلہٹ میں ائرپورٹ ٹرمینل بنانے کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دیا ہے۔ بنگلہ دیش نے کورونا وائرس کے لیے بھارتی امداد کے جواب میں بھارت کو سراہا بھی نہیں۔ بیجنگ اربن تعمیراتی گروپ کو سلہٹ کے ایم اے جی عثمانیہ ائرپورٹ میں ایک نئے ٹرمینل کی تعمیر کا ٹھیکہ ملا ہے جو بھارت کے شمال مشرقی خطے سے ملتا ہے، اور اسی وجہ سے اسے نئی دہلی کے لیے حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں چند ہفتے قبل بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ اے کے عبدالمومن اور ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی کے درمیان ہونے والی ملاقات کا مقصد اُس وقت سمجھ میں آیا جب بدھ کی دوپہر پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کے دفتر نے ٹویٹ کرکے یہ اعلان کیا کہ انھوں نے بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے طویل گفتگو کی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ روابط میں مضبوطی لانے کے لیے پاکستان یہ بھی کہہ رہا ہے کہ دونوں ممالک کا مذہب اور ثقافت ایک ہے۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ’’ہم اپنے برادر ملک بنگلہ دیش کے ساتھ تمام شعبوں میں ایک مضبوط رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
عملی اور جنگی میدان میں کیا ہورہا ہے وہ سب کچھ خلیج بنگال، چاٹگام، صدر کھاٹ ڈھاکا اور کاکسس بازار میں کھلے عام دیکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت خلیج بنگال کا منظر یہ ہے کہ چین کا ’’شیان زیرو ون‘‘ چاٹگام اور کاکسس بازار کے ساحلی علاقوں میں چین کا ریسرچ جہاز نظر آرہا ہے۔ میانمر میں تباہ وبرباد ہونے والے مسلمانوں کے لیے بنگلہ دیش کے ذریعے چین نے ہزاروں ٹن گندم ان کی مدد کے لیے بھیجی ہے، اور چین بنگلہ دیش اور میانمر کے درمیان جاری کشیدگی کو بھی ختم کرانے کے لیے سرگرم ہوگیا ہے۔ یہ ساری صورتِ حال بھارت کو پسند نہیں ہے، جب کہ بھارت بنگلہ دیش سے لداخ، دولت پور اور نیپال جیسی ایک موٹر وے میانمر، بنگلہ دیش سے چین کی سرحد تک بنانا چاہتا ہے، مگر بھارت کی تمام تر کوشش کے باوجود بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد چین دشمن موٹر وے بنانے کے لیے تیار نہیں ہوسکیں اور انہوں نے بھارت کو صاف انکار کردیا ہے۔ اس خطے میں یہ پیش رفت ایک انقلاب اور تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔
عالمی عدالت آرڈیننس اور کلبھوشن یادیو
طویل مشاورت اور عالمی قوانین پر عبور رکھنے والے وکلا سے باہمی مشورے کے بعد حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کا آرڈیننس قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔ مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے کلبھوشن یادیو سے متعلق بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ بل کے ذریعے کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کی ایوان سے منظوری لی جائے گی۔ مزید برآں قومی اسمبلی میں کمپنیز ترمیمی آرڈیننس 2020ء بھی پیش کردیا گیا۔ وفاقی حکومت نے 20 مئی کو ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت کلبھوشن یادیو کو 60 روز میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ اپیل دائر کرنے کے آرڈیننس کی ڈیڈلائن 19جولائی کو ختم ہوگئی ہے۔ خیال رہے کہ 8 جولائی کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے بتایا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے پاکستان میں گرفتار اور سزا یافتہ ایجنٹ کلبھوشن یادیو نے اپنی سزا کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے انہوں نے اپنی زیرالتوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے اہم اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئی سی جے فیصلے کے فوراً بعد کلبھوشن یادیو کو ویانا کنونشن کی دفعہ 36 کے تحت قونصلر رسائی کے ان کے حق کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق پاکستان کا قانون نظرِ ثانی کا حق فراہم کرتا ہے لیکن عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈیننس 2020 نافذ کیا،اس آرڈیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظر ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کلبھوشن یادیو بذاتِ خود قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرثانی کی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 17 جون 2020ء کو کلبھوشن یادیو کو ان کی سزا پر نظرثانی اور دوبار غور کی اپیل دائر کرنے کی پیش کش کی گئی اور پاکستان نے را ایجنٹ کے لیے قانونی نمائندگی کا انتظام کرنے کی بھی پیش کش کی۔ انہوں نے بتایا کہ کلبھوشن یادیو نے اپنے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے سزا پر نظر ثانی اور دوبارہ غور کے لیے اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا اور اس کے بجائے زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا انتخاب کیا۔ پاکستان بارہا بھارتی ہائی کمیشن کو کلبھوشن یادیو کی سزا پر نظرثانی کا عمل شروع کرنے کی دعوت دے چکا ہے۔