عید قرباں
اللہ اللہ، دو مہینے دس دن کی مدت بھی کوئی مدت ہے، بات کہتے کٹ گئی۔ اور شوال کی پہلی کی یاد ابھی مٹنے نہ پائی تھی کہ ذوالحجہ کی دسویں آگئی۔ وہ مسلمانوں کی پہلی سالانہ عید تھی، یہ دوسری اور آخری۔ وہ عیدالفطر تھی یہ عیدِ قرباں یا عیدالاضحیٰ (غلط العوام میں عیدالضحٰے)۔ وہ عید میٹھی تھی، آج کی عید نمکین۔ اُس روز سوّیاں پکائی گئی تھیں، آج قربانیاں ہوں گی۔ وہ جشن تھا اس کا کہ اطاعت اور ضبطِ نفس کے پورے تیس دن ختم ہوئے اور نزولِ قرآن کی یادگار پورے مہینہ بھر سنائی جاتی رہی تھی۔ آج خوشی اس کی ہے کہ نصیبے والے عین مرکز ِ اسلام میں کعبۃ اللہ کے گرد چکر پر چکر کاٹ رہے ہیں۔ طواف و زیارت کی دولتوں سے مالامال ہورہے ہیں۔ پروانے شمع پر نثار ہورہے ہیں۔ مکہ کی گلیوں میں، مکانوں میں، دکانوں میں، مسجد حرم کے صحن میں، دالانوں میں حاجیوں کا، زائروں کا ہجوم… منیٰ کے میدانوں میں، خیموں میں، مکانوں میں قربانیوں کی دھوم… پورے عشرہ کا عشرہ چاند کی پہلی سے دسویں تک وقف خیر و برکت کے لیے، نزولِ رحمت کے لیے۔ جس نیکی کی بھی توفیق پا جایئے، ہمیشہ سے زیادہ، معمول سے بڑھ کر ثواب لایئے۔ خود حاجی ہونا الگ رہا، حاجیوں کی نقل تک باعثِ اجر۔ ان کی طرح بال بڑھایئے، ناخن نہ ترشوایئے، اس کا بھی اجر پایئے۔
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ۔ تاریخ کی زبان سے روایت یہ سننے میں آئی ہے کہ آج سے کچھ اوپر پانچ ہزار سال قبل کلدانیہ کے ملک میں بت پرستوں کی قوم میں، بت تراشوں کے گھرانے میں ایک مقبول اور بہت مقبول برگزیدہ اور نہایت برگزیدہ بندے ابراہیم نامی آباد تھے۔ یہ کلدانیہ وہی ہے جسے انگریزی میں کالڈیا کہتے ہیں یا آج کی جغرافیائی اصطلاح میں عراق۔ بندے کے طرح طرح کے امتحانات مالک کی طرف سے ہوئے اور ابراہیمؑ ہر آزمائش میں پورے اترے۔ آخر اللہ کے پیغمبر ہی تھے۔ کچھ روز بعد حکم ہجرت کا ملا۔ سرزمینِ شام پر پہنچے اور پھر مصر ہوتے ہوئے حجاز کی خشک اور پتھریلی وادی میں آئے۔ علاقہ ویران، پانی کا نام نہ نشان، سبزے کی جگہ ہر طرف ریگستان، نیچے تپتی ہوئی زمین، اوپر دہکتا ہوا آسمان۔ حکم ملا کہ یہیں ایک گھر بنائو اس مٹی اور پتھر کا، لیکن اپنے لیے نہیں، ہماری عبادت کے لیے، اور وہاں ذرا یہ کرنا کہ اسے منسوب ہماری جانب کردینا۔ ہم گھر اور در کی قید سے ماورا، مکان اور چھت کی نسبت سے بھی برتر و بالا، لیکن ذرا اسی کے ساتھ ہمارا نام ڈال تو دو اور ہماری ہی بسائی ہوئی دنیا کو آواز دے دو کہ اس گھر کی طرف آجایا کرو۔ واذن فی الناس بالحج۔ فرماں بردار بندے نے پکار کردی اور اُس وقت پکار کی جب نہ تار تھا نہ ٹیلی فون، نہ وائرلیس نہ لائوڈ اسپیکر، نہ لوگ نشریات (براڈ کاسٹنگ) کے قانون سے واقف تھے، نہ گھر گھر ریڈیو لگے ہوئے تھے۔ ابراہیم کی پکار خدا معلوم کس لاہوتی میٹر پر اور کس ملکوتی لہر (Wave Length) سے نشر ہوئی کہ آج تک اس کی تھرتھراہٹ فضائے کائنات میں آپ خود سن رہے ہیں۔ حج کی تاریخ میں ابھی ہفتوں کا نہیں مہینوں کا زمانہ باقی ہے کہ دربار کی حاضری کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور اپنے اپنے گھر سے چل کھڑے ہوئے، اپنے مالک و مولیٰ کے متوالے دنیا کے گوشے گوشے سے، روئے زمین کے چپے چپے سے… کوئی کابل سے، کوئی قندھار سے، کوئی مصر سے کوئی ایران سے، کوئی عراق سے، کوئی بخارا سے، کوئی سیلون سے، کوئی جاوا سے، کوئی افریقہ کے ویرانے سے، کوئی یورپ کے نشاط خانے سے… غرض خلقت ہے کہ ہر چہار طرف سے امنڈتی چلی آرہی ہے۔يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍۢ، کوئی ریل سے، کوئی جہاز سے، کوئی موٹر پر، کوئی لاری پر، کوئی پیدل، کوئی سواری پر، کوئی غریب اپنی کمر کو کسے ہوئے اور کوئی صاحب اونٹ کی پیٹھ پر جمے ہوئے۔
کعبہ اسلام کا جغرافیائی مرکز ہے، مرکز کا ربط محیط کے گوشے گوشے سے، دائرے کے نقطے نقطے سے دانا و بینا جوڑنے والے نے یوں جوڑا کہ ہر صاحبِ حیثیت پر عمر میں کم از کم ایک مرتبہ حج فرض کردیا۔ حج کا رکن اعظم ہے 9 ذوالحجہ کو میدانِ عرفان میں حاضری، سو وہ کل ہوگئی۔ اب آج کا دن اس سعادت کی خوشی منانے کا دن ہے۔ کلمہ گو جہاں کہیں بھی آباد ہیں آج جشن منائیں گے، لیکن اس مسرت کی غفلت میں دن چڑھے تک خراٹے لینے کے بجائے آج معمول سے پہلے اور سویرے اٹھیں گے، غسل کریں گے، اجلے کپڑوں کے ساتھ، بشاش چہروں کے ساتھ عیدگاہ روانہ ہوں گے اور واپس آئیں گے تو ان میں جو صاحبِ حیثیت ہیں وہ اچھے اور پاک، صحیح اور تندرست جانوروں کی قربانی کا تحفہ اپنے پروردگار کے حضور میں پیش کریں گے خود اپنی طرف سے، اپنے عزیزوں کی طرف سے، بزرگوں کی طرف سے… اور جب کھانے کا وقت آئے گا تو تنہا نہیں کھالیں گے بلکہ ایک تہائی مسکینوں، محتاجوں اور مفلسوں کی نذر کردیں گے، ایک تہائی دوست احباب کی خدمت میں پیش کریں گے۔ جب کہ ایک تہائی اپنے لیے رکھیں گے۔ عیدالفطر کے دن تاکید تھی کہ کوئی بدنصیب فاقے سے نہ رہ جائے۔ عیدِ قربان کے دن ترغیب ہے کہ غریب سے غریب بھائی کی زبان کو کھانے پینے کی لذتوں کا کچھ تو مزہ آجائے۔
عیدالفطر سال گرہ تھی نزولِ قرآن کی، عیدِ قرباں سال گرہ ہے بنیادِ کعبہ کی۔ ابراہیمؑ موحد تھے، موحدوں کے سردار۔ توحید ہی کے جرم میں آگ میں جھونکے گئے تھے، ملک سے نکالے گئے تھے۔ حق تھا کہ ان کی قائم کی ہوئی یادگار کے سلسلے میں توحید کا رنگ ہر رنگ پر غالب ہو اور سب سے نمایاں۔ آج آفتاب بلند ہوا کہ لگے لوگ عیدگاہ اور مسجدوں کی طرف چلنے… اور لگے ہر طرف سے رب کی بڑائی کے نعرے بلند ہونے۔ سینوں کے اندر توحید کے ولولے، زبانوں پر تکبیر کے زمزمے۔ کیا خوب ظاہر ہے اور کیا خوب باطن… اور کیا خوب قال اور کیا خوب حال۔ عیدالفطر کے دن یاد ہوگا کہ تکبیریں صرف نمازِ عید کے ساتھ، آمدورفت کے راستے میں… بقرعید کے موقع پر ایک نماز، ایک وقت، بلکہ ایک دن بھی اس جوش کے اظہار کے لیے کافی نہیں۔ اب کی تکبیر شروع ہوگی 9 تاریخ کی فجر ہی سے، اور جاری رہے گی ہر نماز کے ساتھ، ابھی تین دن اور یعنی 13 کی عصر تک۔ مرکز میں آج مسلمان اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے پکارے گا لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ”حاضر ہے اے مالک و مولیٰ یہ غلام حاضر ہے، شہادت دیتا ہوا حاضر ہے‘‘۔ یہ آداب حاضری دینے والوں کے ہوئے۔ مرکز سے دور باہر والے 9سے 13 کی سہ پہر تک ساڑھے چار دن ہر نماز کے بعد پکاریں گے: اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلَہَ اِلَّاللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْد ”بڑائی تو آپ میں ہے صرف آپ میں ہے۔ صرف آپ میں ہے۔ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بڑائی آپ میں ہے صرف آپ میں ہے، ہمارے شکر کی مخاطب آپ ہی کی ذات ہے۔ ہماری مدح و ثنا کے سزاوار آپ ہی کے کمالات۔“
مسلمان قربانی کے لیے تیاری دنوں، ہفتوں، مہینوں پیشتر سے کرے گا۔ پاک صاف جانور، اچھا تندرست بے عیب دیکھ کر خریدے گا، کھلائے گا، پلائے گا، اپنے سے خوب ہلائے گا، اور جب اس سے تعلق انس و محبت کا، رحمت و شفقت کا قائم ہوجائے گا تو اپنے اور اس کے یعنی دونوں کے مالک کے حکم سے اس تعلق پر اپنے ہاتھ سے چھری چلاوے گا۔ پالے ہوئے جانور کو پیار کی نظروں سے دیکھے گا۔ آخر وقت تک کھلائے پلائے جائے گا لیکن جب حکم کی تعمیل میں زمین پر لٹائے گا تو قبلہ رخ منہ کرکے جدھر وہ خود دن رات میں خدا معلوم کتنی بار جھکتا ہے اور گرتا ہے، اور زبان سے کہتا جائے گا ’’اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ یہ کسی دیوی دیوتا کی بھینٹ نہیں چڑھا رہا ہوں، میرا رشتہ تو صرف اسی سے جڑا ہوا ہے، میں تو پجاری صرف اس کا ہوں جس نے پیدا کررکھا ہے، آسمان و زمین کو۔ میرا دستورِ زندگی تو تمام تر اس کے قانون کی پیروی ہے۔’’ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ“۔میری دعائیں اور میری عبادتیں، میری زندگی اور میری موت نہ اپنے نفس کے لیے ہے اور نہ قوم اور اس ملک کے چھوٹے موٹے دیوی دیوتا کے لیے ہے، اسی کے حکم اور قانون کے تابع ہے جو پروردگار ہے ہر ملک کا، ہر قوم کا، ساری مخلوقات کا، جمیع موجودات کا، کل کائنات کا۔
ڈاکٹر جب مریض کو آپریشن کی میز پر لٹاتا ہے تو پہلے آپریشن والے عضو کو دوا لگا کر سُن کردیتا ہے یا مریض کو کلوروفارم سنگھا کر بے ہوش۔ مسلمان بھی جب جانور کو ذبح کرنے کے لیے قبلہ رخ لٹاکر گلے پر چھری چلاتا ہے تو روح کو ایک مختصر دو لفظی نغمہ سنا کر مست و مدہوش کردیتا ہے، بسم اللہ اللہ اکبر، اے خاک کی مورت میں تجھے مُردہ اپنی طرف سے نہیں کررہا ہوں، میں تو خود تیری ہی طرح مخلوق، تیری ہی طرح بے بس، تیری ہی طرح خاکی، تیری ہی طرح فانی ہوں۔ میں چھری چلا رہا ہوں اپنے اور تیرے پیدا کرنے والے کا نام لے کر، اپنے اور تیرے مالک کے قانون کے ماتحت۔ زندگی کا عطیہ بخشنے والا بھی وہی، اسے واپس لینے والا بھی وہی، جان ایک روز ڈالی بھی اسی نے اور آج نکالی بھی اسی نے۔ بڑائی کا حق دار حکم چلانے والا صرف وہی۔ سنتے ہیں کہ فوج کے سپاہی جنگ کے میدان میں فوجی بینڈ اور وطنی ترانے کی آواز سن کر ایسے مست ہوجاتے ہیں کہ جان کی پروا نہیں رہ جاتی، اور بندوق کی گولیوں، توپ کے گولوں، سنگینوں کے وار کے لیے بے تکلف اپنی سر و سینہ کو پیش کردیتے ہیں۔ اللہ کے نام کی کشش کیا روح کے لیے اتنی بھی نہیں! جاننے والے تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ روح اس اسم پاک سے ایسی مست و بے خود ہوجاتی ہے کہ خود حالتِ طرب میں ہنسی خوشی باہر آجاتی ہے، گو جسم دیکھنے والوں کی نظر میں تڑپتا لوٹتا رہے۔ آخر کلوروفارم کا کام آپریشن میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ رگوں پر رگیں جسم کی کٹتی رہیں، خون بہتا رہے لیکن مریض کا احساسِ اذیت و کرب مُردہ ہوجاتا ہے۔ اللہ ٹھنڈی رکھے حضرت اکبر کی تربت کو، کیا خوب فرما گئے ہیں:۔
احساس ہی ایذا کا نہ ہوا میں فریاد و فغاں کیا کرتا
آنکھ اپنی لڑی تھی قاتل سے جس وقت تہہ خنجر تھا گلا
کہتے ہیں کہ ایک بار انہی کعبہ کی تعمیر کرنے والے ابراہیمؑ نے بھی قربانی پیش کی تھی۔ یہ قربانی بکرے کی نہ تھی، مینڈھے کی نہ تھی، اونٹ کی بھی نہ تھی، چہیتے اور لاڈلے نور نظر اسماعیلؑ کی تھی۔ خواب میں حکم محبوب ترین ہستی کی قربانی کا ملا۔ پیغمبر کے خواب بھی الہامی ہوتے ہیں۔ صبح اٹھ مشورہ اسماعیلؑ سے کیا۔ اس سے کیا جو آنکھوں کا تارا، بڑھاپے کا سہارا تھا۔ مشورہ خود اسی کے ذبح کے باب میں اسی سے کیا۔ دنیا کی تاریخ میں کب کسی عزیز نے عزیز سے اس کے قتل و ذبح کے باب میں مشورہ کیا ہے؟ کب کسی شفیق اور عاشق زار باپ نے اپنے لخت ِ جگر کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے؟ ہر صاحبِ اولاد ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے۔ بیٹا بھی کس باپ کا تھا۔ فوراً آمادہ ہوگیا اور عرض کیا:’’ابا جان، آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے گا، ایسا نہ ہو کہ عین وقت پر میرا چہرہ دیکھ کر آپ کی ہمت جواب دے جائے‘‘۔ باپ نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر خدا معلوم دل پر کون سے پتھر کی سل رکھ کر حلق پر چھری چلائی، معاً قدرتِ حق سے نورِ نظر کی جگہ جنت کے ایک مینڈھے نے لے لی، اور چھری گو پھیرنے والے نے پھیری اسماعیلؑ کے گلے پر، لیکن چلی وہ اس غیبی مینڈھے کے حلق پر، اور اسماعیلؑ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيم کا پروانہ بشارت پاکر زندئہ جاوید ہوگئے۔
آج کی قربانیاں یادگار ہیں اسی ’’ذبح عظیم‘‘ کی۔ زمانہ قبل اسلام کو چھوڑیئے، خود ادھر ساڑھے تیرہ سو برس (اب ساڑھے چودہ سو) کے اندر جتنی قربانیاں ہندوستان اور افغانستان، ترکی و ایران، مصر و عرب اور ساری دنیائے اسلام کے اندر ہوچکی ہیں ان کا حساب و شمار ہے کسی حساب لگانے والے اور شمار کرنے والے کے بس کی بات؟ اللہ خود جسے بڑی قربانی کہہ کر پکارے کون اس کی بڑائی کی اتھاہ پاسکے؟ کون اس کی وسعت و عظمت کی پیمائش کرپائے؟
آج کہنے کو عید نہیں بقرعید ہے لیکن سماں بڑی حد تک اسی عید کا قائم ہے، وہی گھروں میں دھوم دھام، وہی عیدگاہ میں ازدحام، عید سے بڑھ کر دعوتوں کے چرچے، عید سے کہیں بڑھ کر چٹ پٹے گرما گرم کبابوں کے مزے۔ ادھر ران بھن رہی ہے، ادھر کلیجی تلی جارہی ہے۔ کہیں کہیں سرخ پھندے سیخ پر لگ رہے ہیں، کہیں قورمہ اور قلیہ کے دیگچے اتر رہے ہیں۔ کھانوں کی وہ خوشبو کہ بے بھوک کے بھوک لگ آئے۔ کھانے والوں کی یہ آرزو کہ کوئی مفلس سا مفلس بھی دروازے پر آکر محروم واپس نہ جائے۔ گانا بجانا شریعت کے قانون میں ماورا، لیکن عید بقرعید کے موقع پر مناسب حدود کے اندر اس کلیہ میں استثنیٰ۔ گھر گھر آج پیش ہورہی ہیں، عیدیاں اور مبارکبادیں اور فضا میں گونج رہی ہیں اللہ اکبر کی صدائیں۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ جولائی 2020ء)