بھارت کے زیر تسلط کشمیر کی جنت نظیر وادی کو جہنم زار میں تبدیل ہوئے ایک برس بیت گیا ہے، نریندر مودی کی فاشسٹ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کے آئینی ترامیم کے اقدام سے قبل مقبوضہ کشمیر میں جو سخت لاک ڈائون اور کرفیو مسلط کیا تھا اس کی ناقابلِ برداشت پابندیاں ابھی تک جاری ہیں۔ حریت قیادت جیلوں میں بند ہے مگر بھارتی فوج نے پوری وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کررکھا ہے، شہریوں کے تمام بنیادی انسانی حقوق غصب کیے جا چکے ہیں۔ مختلف عالمی ادارے، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھارتی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں اور نہتے کشمیری شہریوں پر بھارتی مسلح افواج کے مظالم کی مسلسل مذمت تو کررہے ہیں مگر بھارت کے خلاف کوئی مؤثر عملی اقدام کرنے اور اُس کے خلاف کسی قسم کی پابندیاں عائد کرنے پر ان بین الاقوامی اداروں میں سے کوئی بھی تیار نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ خالی زبانی بیان بازی کو ظالم بھارتی حکمران خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔ باقی دنیا اور عالمی ادارے تو ایک طرف، خود پاکستانی حکومت کا طرزِعمل اس حوالے سے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ میں اپنی تقریر ہی کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں، بلکہ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد پاکستانی حکومت نے اس کے خلاف جن نیم دلانہ اقدامات کا اعلان کیا تھا گزشتہ ایک برس کے دوران وہ بھی آہستہ آہستہ غیر مؤثر ہوچکے ہیں، اور بھارتی حکومت پر پانچ اگست کے جارحانہ اقدام کے خلاف اگر کسی قسم کا معمولی دبائو پیدا بھی ہوا تھا تو وہ بھی اب تقریباً ختم ہوچکا ہے جس سے شہ پاکر بھارت مقبوضہ کشمیر میں اور خود بھارت کے اندر مسلمانوں کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو عملی شکل دینے میں تیزی سے پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے۔
آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے بین الاقوامی تنظیم ’جسٹس فار پیس‘ کے زیراہتمام اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، دنیا اسے دل کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرے، کیونکہ وہاں رونما ہونے والے واقعات دل خراش ہی نہیں، پوری انسانیت کی تذلیل بھی ہیں۔ مقبوضہ ریاست میں بھارت کے اقدامات انسانی اقدار، تہذیب، بین الاقوامی انسانی قوانین اور ورلڈ آرڈر کو پائوں تلے روندنے کے مترادف ہیں جنہیں اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری خاموشی سے دیکھ رہی ہے، اور اس کی یہ خاموشی بھارت کو انسانیت کے خلاف مزید جرائم کے ارتکاب کا حوصلہ دے رہی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے بجا طور پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد انسانیت، انسانی وقار اور آفاقی انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد ہے، کشمیری عوام کو اگر اس جدوجہد میں خدانخواستہ ناکامی ہوئی تو یہ پوری انسانیت کی ناکامی ہوگی۔
پانچ اگست کو مقبوضہ وادی میں تازہ بھارتی جارحیت کا ایک سال مکمل ہورہا ہے مگر حکومت یا بڑی کہلانے والی ملک کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس موقع پر کسی احتجاجی پروگرام کا اعلان تادم تحریر سامنے نہیں آیا، صرف جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے 4 اگست کو اسلام آباد میں ’’قومی کشمیر کانفرنس‘‘ کے انعقاد اور 5 اگست کو ملک بھر میں ’یوم سیاہ‘ اور ’یوم احتجاج‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے کشمیر کو جماعت اسلامی کا مسئلہ سمجھ کر اس سے لاتعلقی کا رویہ اپنا لیا ہے۔ دوسری جانب سینیٹ میں بھی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور دوسرے رکن سینیٹ مشتاق احمد خان ہی کی پیش کردہ ایک مشترکہ قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور کی گئی ہے۔ جہاں ایک جانب اس قرارداد کی اتفاقِ رائے سے منظوری باعثِ اطمینان ہے وہیں یہ سوال پھر سر اٹھاتا ہے کہ کیا کشمیر اور وہاں کی جرأت مند و بے باک حریت قیادت صرف اور صرف جماعت اسلامی ہی کا دردِ سر ہے؟ ملک کی دیگر چھوٹی بڑی درجنوں سیاسی جماعتیں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ میں پاکستان کی ’شہ رگ‘ کے معاملات سے مجرمانہ لاتعلقی کا مظاہرہ کیوں کررہی ہیں؟ انہیں اپنے وطن کی شہ رگ کی حفاظت آخر کیوں عزیز نہیں ہے؟
سینیٹ میں منظور کی گئی سینیٹر سراج الحق اور سینیٹر مشتاق احمد خان کی پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کو آزادیِ کشمیر کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ’’نشان پاکستان‘‘ دیا جائے، اور وزیراعظم ہائوس میں قائم کی جانے والی ’یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی‘ کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ حکومت پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی طرف سے اتفاقِ رائے سے منظور کی جانے والی اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے میں سردمہری کا مظاہرہ نہیں کرے گی، اور نہ اسے ایوان کی بہت سی دیگر قراردادوں کی طرح نظرانداز کرنے کی پالیسی اپنائے گی، بلکہ فوری طور پر ایسے اقدامات اور اعلانات حکومت کی طرف سے سامنے آئیں گے جن سے حکومت کے قرارداد پر عمل درآمد کرنے کے پختہ عزم کا اظہار ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ضعیف العمری میں جوانوں جیسے عزم و حوصلے کے ساتھ جدوجہد کرنے والے عظیم حریت پسند قائد سید علی گیلانی کی بے مثال جدوجہد اور قربانیوں کے مقابلے میں قرارداد میں تجویز کیے گئے اقدامات نہایت معمولی اہمیت رکھتے ہیں، تاہم قرارداد کا یہ پہلو اطمینان بخش ہے کہ یہ قرارداد ایک جانب اگر پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی عکاسی اور ترجمانی کرتی ہے تو دوسری جانب یہ مقبوضہ کشمیر کے نہایت جرأت و استقامت سے بھارتی فوج کے مظالم کا مقابلہ کرتے کشمیر کے بلند حوصلہ مظلوم و محکوم مسلمان عوام سے پانچ اگست کے موقع پر یکجہتی کے اظہار کا ایک باوقار انداز بھی ہے۔