’گشت‘ مذکر یا مونث؟۔

۔27 جولائی کے ایک اخبار کے اداریے میں ”معمول کی گشت“ پڑھا۔ یعنی اداریہ نویس کے خیال میں ’گشت‘ مونث ہے۔ ہم تو اسے مذکر ہی کہتے اور لکھتے رہے ہیں۔ مونث تو گشتی ہوتی ہے جو اچھی نہیں سمجھی جاتی، اور پنجاب میں بطور گالی استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف ’گشتی مراسلہ‘ اور ’گشتی سفیر‘ بھی عام ہے۔ اداریہ نویس نے ’گشت‘ کو مونث لکھا ہے تو خیال آیا کہ شاید یہی صحیح ہو، چنانچہ لغات سے رجوع کیا۔ یہ فارسی کا لفظ ہے اور ’فیروزاللغات‘ نے اسے مطلق مونث لکھا ہے۔ تاہم ’نوراللغات‘ نے وضاحت سے کام لیا ہے اور مونث، مذکر دونوں کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس لغت کے مطابق ’گشت‘ بول چال میں تذکیر کے ساتھ ہے، لیکن جلال اور جلیل مانکپوری نے مونث لکھا ہے۔ بطور مذکر شوق قدوائی کا شعر ہے:۔

دیا ہے گشت اس نے دھوم سے میرے جنازے کو
غرض یہ ہے سارے شہر میں تشہیر ہوجائے

تشہیر رسوائی کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ اس کا مادہ ’شہر‘ ہے اور مطلب ہے کسی کی رسوائی کو شہرت دینا۔ پہلے دستور تھا کہ جس مجرم کی تشہیر کرنا ہوتی اُس کا منہ کالا کرتے اور گدھے پر الٹا بٹھا کر شہر میں پھراتے۔ داغ کا شعر ہے:۔

مر بھی جاؤں تو نہ ہو ان کو مرا مردہ عزیز
بلکہ میری لاش کی تشہیر الٹی ہو تو ہو

اب کسی کی تشہیر کے لیے مذکورہ لوازمات کی ضرورت نہیں۔ یہ کام ٹی وی چینلز خود کردیتے ہیں۔ ٹی وی چینل پر یاد آیا کہ دو، ایک چینلوں پر کسی پروگرام کے اختتام پر کہا جاتا ہے ”فی الوقت کے لیے اتنا ہی“۔ جملے میں کوئی خرابی تو نہیں لیکن اس میں ”کے لیے“ غیر ضروری ہے۔ ”فی الوقت اتنا ہی“ کہہ دینے سے بات واضح ہوجاتی ہے۔ یا پھر ”فی“ نکال کر ”اس وقت کے لیے اتنا ہی“ کہہ دیا کریں۔ ’فی‘ عربی کا حرف جار ہے۔ مطلب ہے بیچ میں، ہر ایک کے لیے، ہر آدمی اور ہر چیز کے لیے، جیسے فی کس، فی من۔ علاوہ ازیں نقص، کمی، غلطی، عیب، کھوٹ (رہ جانا)، نکالنا، نکلنا، ہونا کے ساتھ۔ داغ کا مصرع ہے ”کچھ نہ کچھ تری باتوں میں فی نکلتی ہے“۔ عربی میں یہ ’فی‘ بطور سابقہ کئی الفاظ میں استعمال ہوتی ہے، مثلاً فی الاصل، فی البدیہ (بعض لوگ اسے ”فی البدیہہ“ لکھ دیتے ہیں جیسے ’تہ‘ کو ”تہہ“)۔ متقدمین ’فی الجملہ‘ کو حاصلِ کلام کی جگہ استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب ’کسی قدر‘ کے معنیٰ میں مستعمل ہے جیسے ”اب مرض میں فی الجملہ تخفیف ہے“۔ فی الحال، فی الحقیقت، فی الفور کا اردو میں عام استعمال ہے، لیکن اب ان الفاظ کا عجیب املا دیکھنے اور پڑھنے میں آرہا ہے یعنی فلحال، فلفور، وغیرہ۔ اور یہ املا عام آدمی نہیں بلکہ ادیب اور قلمکار کہلانے والے استعمال کررہے ہیں۔ ’بالکل‘ بھی ”بلکل“ ہوگیا ہے۔ کیا کسی منصوبے کے تحت املا بگاڑا جارہا ہے؟ ان میں زیادہ تر الفاظ عربی کے ہیں۔ رشید حسن خان مرحوم نے شعوری کوشش کی ہے کہ اردو میں شامل عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔ مثلاً وہ ’اعلیٰ‘ کو ”اعلا“ لکھتے تھے اور یہ روش عام ہونے لگی ہے۔ ہم نے شاید پہلے بھی لکھا ہے کہ اس طرح تو موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی ”موسا اور عیسا“ لکھا جائے۔
گزشتہ کسی کالم میں ممبئی کے ایک قاری جناب معاذ کا خط شائع کیا تھا جن کو بی بی سی اردو سے شکوہ تھا کہ املا بگاڑا جارہا ہے، مثلاً ’گھمایا‘ کو ”گھومایا“ لکھا گیا۔ ہمیں حال ہی میں ایک خاتون کالم نگار کی ضخیم کتاب ملی ہے جس کے تعارف میں ایک محترم پروفیسر نے لکھا ہے ”سیکھنے، سیکھانے کا معاملہ….“ ہم گمان کرتے ہیں کہ یہ کمپوزنگ کا سہو ہوگا، لیکن یہ حرکت اور مقامات پر بھی نظر سے گزری ہے۔ مذکورہ کتاب کے انتساب میں بے چارے حسین ابن منصور کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی ہے۔ ان کو ”منصور بن حلاج“ لکھا گیا ہے۔ حسین ابن منصور کو عام طور پر صرف ’منصور‘ لکھا جاتا ہے حالانکہ یہ ان کے والد کا نام تھا، لیکن محترمہ کالم نگار نے تو ان کی ولدیت ہی تبدیل کردی اور انہیں منصور بن حلاج یعنی حلاج کا بیٹا لکھ مارا۔ محترمہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حسین ابن منصور پیشے کے لحاظ سے حلاج تھے، یہ کسی کا نام نہیں۔ حلاج روئی دھننے والے کو کہتے ہیں جسے دُھنیا بھی کہا جاتا ہے۔ امیر خسرو کا ایک مصرع ہے ”دُھنیے رے دُھنیے اپنی دھن“۔ اب تو روئی دھننے کا رواج ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ دھنیے نظر ہی نہیں آتے جو کبھی روئی دھننے کا سامان لے کر گھروں میں آتے تھے اور سردیوں کی آمد سے پہلے خواتین لحاف، گدوں کی روئی دھنکوا کر بھرواتی تھیں اور پھر ان میں ڈورے پڑتے تھے۔ اب تو مخمور آنکھوں میں ڈورے نظر آجاتے ہیں یا پھر ڈورے ڈالنے کا محاورہ رہ گیا۔ بھارت کی ایک شاعرہ کا مصرع ہے ”ڈال نہ مجھ پہ ڈورے ڈال“۔یا پھر کسی کو بری طرح مارنے کے معنوں میں آتا ہے ”دُھنک کر رکھ دیا“۔ یعنی جس طرح روئی کو دُھنا جاتا ہے اس طرح مارا۔ دھُنّا (دھن نا) ہندی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے روئی صاف کرنا۔ اور دھنکنا کا مطلب ہے مارنا، پیٹنا۔ علاوہ ازیں اس کا مطلب دے مارنا بھی ہے جیسے سر دُھنّا۔ بُرا بھلا کہہ کر ذلیل کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے جیسے انجم نام کی ایک شاعرہ کا شعر ہے:۔

میں بھی اک اک کو پُن کے رکھ دوں گی
ہنسنے والوں کو دُھن کے رکھ دوں گی

پُن کے رکھ دینا ایک الگ محاورہ ہے۔ پھر کبھی سہی۔ دُھنا (بغیر تشدید کے) بروزن گُنا، مذکر اور حلاج کے معنوں میں آتا ہے یعنی ندّاف، روئی دھنکنے والا۔ دھنے، جلاہے نیچ لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا حالانکہ اسلام میں ایسی کوئی تفریق نہیں، ہر پیشہ معزز ہے، خاص طور پر ہاتھ سے کام کرنے والا تو حبیب اللہ ہے۔
برعظیم میں ’دھرنا‘ کا لفظ بڑا مقبول ہے۔ بات بات پر دھرنا دینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے تو اس میں بھی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ لفظ بھی ہندی کی دَین ہے اور اس کی اصل دَھنّا ہے جو دھن سے بنایا ہے۔ دَھنا دینا کا مطلب ہے کسی کے دروازے پر کسی چیز کے تقاضے کے واسطے کسی کا بیٹھنا، موجود رہنا۔ ایک شعر ہے:۔

ارمان میرے دل سے نکلتے مُحال تھا
دھنّا دیے ہوئے تیرے تیر نگاہ تھے

دھنا چونکہ دَھن سے بنا ہے اس لیے کسی دولت مند کو دھنّا سیٹھ کہتے ہیں۔ کنایتہً سرکش، منہ زور کو بھی کہتے ہیں، مثلاً یہ شعر:۔

اٹھائے ترے در سے ہمیں غیر
بڑا آیا ہے دھنا سیٹھ بن کر

اور اب جناب غازی علم الدین کے حوالے:۔
ابھی بھی
”یہ کام ابھی بھی نامکمل ہے“۔ اس جملے میں ”بھی“ زائد ہے کیوں کہ ”ابھی“ میں ”بھی“ کا معنیٰ پہلے سے موجود ہے۔ یہ جملہ یوں ہونا چاہیے ”یہ کام ابھی نامکمل ہے“۔
اٹھاؤ ہاتھ کہ دستِ دُعا بلند کریں
اختر الایمان کی ایک مشہور نظم کا پہلا مصرع ہے:۔

اُٹھاؤ ہاتھ کہ دستِ دعا بلند کریں

عجیب بات ہے کہ جب ہاتھ اٹھالیے گئے تو پھر ”دستِ دعا“ بلند کرنا چہ معنیٰ؟ عجب حشو ہے۔ شاعر جو بات کہنا چاہتا ہے بڑی آسانی سے یوں کہہ سکتا تھا:۔

”اٹھاؤ ہاتھ کہ حرفِ دعا بلند کریں“

اخباری اشتہار
پولیس نے کسی اخبار میں ایک اشتہار دیا جس کا عنوان تھا ”اخباری اشتہار“۔ گویا صرف اشتہار لکھنا کافی نہیں سمجھا گیا۔
ارباب ہائے اقتدار
ایک روزنامے کی سرخی ہے: ”ہمارے ارباب ہائے اقتدار ہوش کے ناخن لیں“۔ ”ارباب“ رب کی جمع ہے، لہٰذا اس کے ساتھ فارسی علامتِ جمع ”ہائے“ کا استعمال غلط ہے۔
ازبریاد ہونا
”مجھے یہ کہانی ازبر یاد ہوگئی“۔ ”ازبرہونا“ کا معنیٰ ہی ”زبانی یاد ہونا“ ہے۔ جملے میں ازبر کے بعد ”یاد“ اضافی ہے۔