دہلی فسادات پر بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا جائزہ
عظیم فلسفی اور ماہرِ سیاسیات روسو نے کہا تھا:’’طاقت خود ایک دلیل بن جاتی ہے‘‘۔
ایکٹ ون۔ سین ون
2002ء کے گجرات فسادات میں دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ ہیومن رائٹ واچ کی رپورٹ کے مطابق 250 سے زیادہ عورتوں اور لڑکیوں کا ریپ کیا گیا اور بچوں کو زبردستی پیٹرول پلا کر ان کو آگ لگائی گئی۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر 60 سے زیادہ تحقیقاتی کمیشن اور ٹریبونل بنائے گئے۔ ہزاروں شہادتیں ریکارڈ اور ثبوت اکٹھے کیے گئے مگر ایک شخص کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ 2002ء گجرات فسادات کے وقت نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔
سین ٹو
اگست 2013ء سے ستمبر 2013ء تک اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں فسادات ہوئے۔ 60سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ فسادات کا آغاز ایک مسلمان عورت کو سڑک پر تنگ کرنے سے ہوا۔ یہ فسادات اتر پردیش کی تاریخ کے بدترین فسادات قرار دیے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر سماج وادی پارٹی اور بی جے پی کو مظفر نگر فسادات کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ دس ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار کیے گئے، لیکن اس بار بھی ایک شخص کو بھی سزا نہیں ملی۔ مظفر نگر فسادات کے وقت اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بی جے پی کی مشترکہ حکومت تھی۔
سین تھری
دہلی ( پرانا نام دِلّی) جو معلوم تاریخ میںکئی بار اجڑی اور پھر بسی۔ اردو کے تمام ہی شاعروں اور ادیبوں نے دِلّی کے اجڑنے کا ذکر بہت کرب ناک انداز میں کیا ہے، مگر اِس بار جب دہلی کو اجاڑا جارہا تھا تو فرق صرف اتنا تھا کہ اِس دفعہ پوری دنیا اپنے ٹی وی اور موبائل اسکرینوں پر دہلی کو اجڑتا دیکھ رہی تھی۔ دہلی جو تہذیب و تمدن کا مرکز سمجھا جاتا تھا، وہاں سفاکی اور ظلم کی انتہا کی گئی۔ تعلیمی اداروں میں گھس کر طلبہ پر تشدد کیا گیا، عورتوںکو سڑک پر برہنہ کیا گیا، اور جدید دنیا اور اس کے مہذب باسی یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ بتا رہی ہے جو 134 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات کی طرف بعد میں آتے ہیں، پہلے گجرات کا ذکر ہوجائے، کیونکہ اکھنڈ بھارت کا خواب تو وی ڈی ساورکر نے بہت پہلے دیکھا لیکن اس کی تعبیر کا آغاز نریندر مودی کے گجرات سے ہوا۔
گجرات فسادات کے پس منظر میں بنائی گئی بھارتی فلم ’’فراق‘‘ میں دکھایا گیا کہ کس طرح باقاعدہ منصوبے کے تحت مسلمانوں کی نسل کُشی کی گئی اور ساتھ ہی ان کے کاروبار اور املاک کو اس طرح نقصان پہنچایا گیا کہ آئندہ مسلمان گجرات کے کاروباری معاشرے میں اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکے۔ لیکن راقم یہاں پر ’’فراق‘‘ فلم کے ایک منظر کا ذکر کرنا چاہتا ہے جس میں دکھایا گیا کہ ایک بوڑھا مسلمان موسیقار شاہی باغ روڈ، احمد آباد سے گزر رہا ہوتا ہے جہاں صوفی بزرگ اور شاعر ولی دکنی (گجراتی) کا مزار کئی صدیوں سے موجود تھا، لیکن اس دن وہ مزار نظر نہ آنے پر وہ بوڑھا موسیقار اپنے نوکر سے سوال کرتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ گجرات فسادات میں بلوائیوں نے ولی دکنی کے مزار کو بھی نہیں بخشا۔ ٹائمز آف انڈیا (اشاعت 6 مئی 2006ء) کی رپورٹ کے مطابق گجرات فسادات کے دوران صرف 6 دن کے اندر 270 سے زائد مزارات کو گجرات میں صفحۂ ہستی سے ایسے مٹا دیا گیا جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں، جس میں ولی دکنی گجراتی کا مزار بھی تھا جس کو یکم مارچ 2002ء کو وشواہندو پریشد کے کارسیوکوں نے جلا دیا تھا۔ بھارتی اسکالر اور بیس سے زائد کتابوں کی مصنفہ وندنا شیوا ایک جگہ لکھتی ہیں:
’’نوجوان لڑکوں کو سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ ’’ہندوتوا‘‘ کے نام پر اور اس مقصد کی خاطر وہ جلائو گھیرائو، ریپ اور لوگوں کو قتل کرسکتے ہیں‘‘۔
2019ء سے دہلی میں فسادات کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب سی اے اے اور این آر سی کے قانون کے خلاف پرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لیے پولیس اور غنڈوں سے مدد لی گئی۔ سی اے اے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ پورے بھارت میں چلتا رہا لیکن صورتِ حال قابو سے باہر 23 فروری 2020ء کو ہوئی جب بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے اپنی تقریروں اور بیانات میں پُرامن مظاہرین کو دھمکیاں دینا شروع کیں، جس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد دہلی فسادات میں اپنی جانوں سے گئے۔ ان فسادات میں مسلمانوںکے گھروں اور دکانوں کو لوٹا گیا اور آگ لگائی گئی۔ دہلی اسمبلی کے انتخابات 8 فروری 2020ء کو ہوئے، اس دوران شاہین باغ پر خواتین کا دھرنا بھی جاری تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہونے کے باوجود عام آدمی پارٹی نے انتخابات میں بی جے پی کو واضح شکست دی جس کا غصہ بی جے پی کے رہنمائوں نے شاہین باغ کے پُرامن مظاہرین پر ہی نکالنا تھا۔ بی جے پی کے رہنمائوں نے ان مظاہرین کو غدار کہا، اور بات یہیں تک نہیں رکی، ان انتہا پسند رہنمائوں نے لوگوں کو اکسایا کہ شاہین باغ کے مظاہرین کو گولی مار دینی چاہیے۔ دہلی فسادات کی تحقیقات کے لیے دہلی اقلیتی کمیشن (جو کہ حکومت کا آئینی ادارہ ہے) نے ایک ’’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘‘ بنائی، جس کی صدارت ایم آر شمشاد سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف انڈیا کررہے تھے۔ اس کے علاوہ اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے 9 ارکان تھے جنہوں نے یہ انتہائی جامع رپورٹ مرتب کی۔
اگلی سطور میں راقم جو کچھ بھی لکھے گا وہ اس رپورٹ سے اخذ کی گئی معلومات ہوں گی، اس لیے اگر کسی قاری کو خدشہ ہو کہ راقم نے رپورٹ میں دی گئی معلومات میں کوئی اضافہ یا کمی کی ہے تو وہ اس مضمون کے آخر میں دیئے گئے لنک پر جاکر مضمون میں پیش کیے گئے اعدادوشمار اور حقائق کی تصدیق کرسکتا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کا آغاز دو اشعار سے ہوتا ہے جو خاصے معنی خیز ہیں:۔
اس کا شہر، وہ مدعی، وہی منصف
ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا
(امیر قزلباش)
شہر طلب کرے اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو
(پیرزادہ قاسم)
رپورٹ کے ابتدائیہ میں تحریر کیا گیا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کا۔ اس کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتی۔ مجرموں کے خلاف کارروائی یا تو کی نہیں جاتی، یا اس میں تاخیر کی جاتی ہے۔ بعض کیسز میں تو لوٹ مار، ریپ اور زندہ جلا دینے جیسے بھیانک جرائم پر تحقیقات ہی نہیں کی جاتی۔ دہلی فسادات کے تناظر میں دیکھا جائے تو کپل مشرا کے تشدد بھڑکانے اور جلتی پر تیل جیسے بیانات مسلسل دینے اور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔ دہلی فسادات کی حد تک تو پولیس اور حکومت کی مکمل ناکامی نظر آتی ہے، بلکہ دہلی پولیس نے جانب داری دکھاتے ہوئے ہر قسم کی قانونی کاروائی سے دانستہ گریز کیا۔ دہلی فسادات کا مرکز شمال مشرقی دہلی کے علاقے رہے، اس کی جغرافیائی حیثیت اور آبادی کے تناسب کا جائزہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ شمال مشرقی دہلی دارالحکومت دہلی کے گیارہ اضلاع میں سے ایک ضلع ہے جس کی آبادی بائیس لاکھ اکتالیس ہزار ہے۔ مذہب کی بنیاد پرآبادی کا تناسب درج ذیل ہے:۔
مذہب
آبادی
فیصد
ہندو
1529,337
68.22%
مسلمان
657,585
29.34%
عیسائی
9,123
0.41%
سکھ
17,424
0.78%
بدھ مت
2,388
0.11%
شمال مشرقی دہلی کی قانون ساز اسمبلی میں 8 نشستیں ہیں۔ مسلمان اکثریتی علاقوں کی پانچ نشستیں بنتی ہیں جو ان علاقوں پر مشتمل ہیں:
سلام پور، مصطفیٰ آباد، بابر پور اور غونڈہ
(1)سٹیزن شپ ایمنڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے)
12 دسمبر 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں سی اے اے کا بل پاس ہوا جس میں وہ افراد جو ہندو، سکھ، بدھ مت، جین مت، پارسی اور عیسائی اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ 31 دسمبر 2014ء تک یا اس سے پہلے بھارت میں مہاجر یا پناہ گزین کے طور پر داخل ہوئے ان کو ’’غیر قانونی پناہ گزین‘‘ تصور نہیں کیا جائے گا، اور سی اے اے کے قانون کے تحت بھارت سرکار ان کو بھارتی شہری بننے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کرنے میں ان کی مدد کرے گی تاکہ اقلیتی برادری کے ان افراد کو بھارتی شہری بنایا جائے۔ بھارتی آئینی ماہرین نے سی اے اے کے قانون کو ’’امتیازی سلوک‘‘ کا قانون قرار دیا جو صرف مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے محروم کرنے کے لیے خصوصی طور پر بنایا گیا ہے۔ مشہور ماہر قانون اور آئین ڈاکٹر راجیودھوان کا اس رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے، جو کہتے ہیں:۔
’’سی اے اے کا قانون جدید دنیا کا پناہ گزینوں کا پہلا قانون ہے جو کہ نفرت اور امتیازی سلوک میں لتھڑا ہوا ہے‘‘۔
(2)جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی سے احتجاج کا آغاز
سی اے اے کا قانون اسمبلی سے منظور ہوتے ہی پورے بھارت میں پُرامن احتجاج کا آغاز ہوا۔ پُرامن مظاہروں کے اعلان کے پیچھے کوئی سیاسی پارٹی یا قیادت نہیں تھی، بلکہ یہ احتجاج عام شہریوں خاص طور پر عورتوں اور طلبہ نے اپنے طور پر شروع کیا، اور یہی دو طبقے ان مظاہروں میں آغاز سے ہراول دستہ بنے رہے۔ بجائے اس کے کہ ریاستی حکومت طلبہ اور مظاہرین کی بات سنتی، اس نے اپنے ہی دارالحکومت دہلی کو مقبوضہ کشمیر بنادیا۔ دسمبر کے ہی مہینے میں پولیس زبردستی جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زبردستی داخل ہوئی۔ تعلیمی اداروں کے تقدس کا تو کیا ہی خیال کیا جاتا، معصوم طلبہ پر شدید تشدد کیا گیا (دونوں جامعات میں تشدد کی ویڈیو اب بھی یوٹیوب پر موجود ہے)۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ پر مہلک ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا۔
(3)شاہین باغ۔ بھارت کا تحریر اسکوائر
13 دسمبر 2019ء کو شاہین باغ میں خواتین کی قیادت میں طلبہ سے اظہار یکجہتی اور سی اے اے کے قانون کے خلاف دھرنا اور احتجاج کا آغاز ہوا۔ شاہین باغ سے شروع ہونے والا خواتین کا پُرامن احتجاج پورے بھارت کے لیے زلزلے کا مرکز ثابت ہوا جس نے بھارت کے سیکولر وجود کی چولیں ہلا ڈالیں۔ یہ احتجاج وقت گزرنے کے ساتھ صرف ایک احتجاج نہیں رہا، بلکہ بعد میں ایک ’’سماجی تحریک‘‘ میں تبدیل ہوگیا جس کی قیادت عام عورتیں کررہی تھیں، اور اب یہ خواتین صرف سی اے اے کی مخالفت میں ہی سرگرم نہیں رہی تھیں بلکہ غربت، بے روزگاری، صنفی امتیاز جیسے مسائل پر بھی ایک توانا آواز بن کر ابھر چکی تھیں۔
(4)شاہین باغ اور دوسرے مظاہروں پر تشدد
جنوری اور فروری کے دوران مسلسل ہندو انتہا پسند لیڈروں کے بیانات اس طرف اشارہ کررہے تھے کہ شاہین باغ اور دوسرے پُرامن مظاہروں کے شرکاء کو ڈرایا دھمکایا جائے اور انتہا پسندوں کو اکسایا جائے کہ وہ ان مظاہرین پر حملہ کردیں، اور پھر ایسے ہی ہوا۔ 30 جنوری 2020ء کو ایک شخص رام بخت گوپال نے اپنی بندوق سے پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں جامعہ ملیہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بندوق سے سیدھا نشانہ مظاہرین کا لیا، جس کے نتیجے میں ایک طالب علم کو گولی لگی۔
یکم فروری 2020ء کو کپل نام کا شخص شاہین باغ میں داخل ہوا اور اس نے بلاتامل فائرنگ کردی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان واقعات کے تسلسل میں ایک ہندو انتہا پسند گروہ ’’ہندو سینا‘‘ نے 2 فروری 2020ء کو اپنے کارکنوں کو جمع کرکے کہا کہ تمام مظاہرین کو جو شاہین باغ میں موجود ہیں، طاقت کے زور پر وہاں سے ہٹانا ہے۔ لیکن بعد میں پولیس کی مداخلت سے ہندوسینا کو شاہین باغ جانے سے روکا گیا۔
(5)عینی شاہدین کے کمیٹی کے سامنے بیانات
رپورٹ کے اس حصے میں اُن افراد کی شہادتیں درج کی گئی ہیں جو یا تو خود ان فسادات کے وقت موقع پر موجود تھے، یا وہ ان دنگوں اور فسادات کا براہِ راست نشانہ بنے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 53 افراد ان فسادات میں زندگی سے گئے، اور 250 سے زیادہ شدید زخمی ہوئے، اور بے شمار لوگ غائب ہیں جن کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ راقم اس رپورٹ میں شامل تمام شہادتیں وقت اور طوالت کے باعث اس مضمون میں شامل نہیں کرسکے گا، لیکن دو عینی شاہدین اور دو صحافیوں کی شہادتیں یہاں پیش کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ قارئین کو اندازہ ہوپائے کہ بھارت ہندو قوم پرستی اور مسلمانوں سے نفرت میں انسانیت اور رواداری کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
(6)بگیراتی وہاڑ کی مسلمان عورت کا بیان، جس کا بھائی فسادات میں قتل ہوا
اس عورت کا خاندان بلڈنگ کی چوتھی منزل پر کرائے پر رہتا ہے۔ مسلمان عورت کے بیان کے مطابق پورے علاقے میں 23 فروری 2020ء سے نعرے لگائے جارہے تھے۔ بے قابو مجمع چلاّ چلاّ کہ کہتا ’’جے شری رام‘‘۔ عورت نے بتایا کہ اس کی عمارت بہت بڑی ہے اور اس میں بہت سے خاندان برسوں سے آباد ہیں۔ اس میں صرف چار یا پانچ مسلمان خاندان بھی رہتے ہیں جو پہلے ہی بلڈنگ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ 25 فروری 2020ء کی رات کو بلوائی عمارت میں پچھلے دروازے سے داخل ہوئے اور بجلی منقطع کردی، اور سیدھے چوتھی منزل پر اس مسلمان عورت کے کمرے میں گھس گئے اور گھر کے مردوں کے بارے میں پوچھا، جس پر عورت نے بتایا کہ اس وقت گھر میں کوئی مرد نہیں ہے، جب کہ دو مرد مسہری کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔ جب بلوائیوں کو کوئی مرد مارنے کے لیے نہیں ملا تو انہوں نے غصے میں گھر کی چیزوں کو ڈنڈوں سے توڑنا شروع کیا۔ اس دوران حملہ آوروں نے مسہری پر بھی ڈنڈے برسانے شروع کیے تو خوف سے ان نوجوانوں کی چیخ نکل گئی۔ حملہ آوروں نے ان دونوں کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور بے دردی سے مارنا شروع کیا، اور پھر ان میں سے ایک مرد کو وہ اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اغوا ہونے والے مرد کا نام مشرف تھا جو اس عورت کا بھائی تھا اور اس کی عمر 32 سال تھی۔ گھر والوں نے مدد کے لیے شور مچایا لیکن کوئی مدد کرنے نہیں آیا۔ اس مسلمان عورت نے کمیٹی کوبتایا کہ ہم نے 100 سے زیادہ دفعہ پولیس کو کال کی مگر کوئی پوچھنے نہیں آیا۔ تین دن بعد 28 فروری 2020ء کو مشرف کی لاش پاس کے ایک گندے نالے سے ملی۔
-7مصطفی آباد کے رہائشی مسلمان لڑکے کا بیان
25 فروری 2020ء کو شام ساڑھے چھے بجے کے آس پاس برج پوری کے رہائشی راہول ورما اور ارون بسویاچاولہ نے پولیس کے ساتھ احتجاج کرنے والی عورتوں پر حملہ کیا۔ انہوں نے لاٹھیوں سے عورتوں کو پیٹا اور پھر احتجاج کے مقام پر پیٹرول بم پھینکے جس کے نتیجے میںتمبومیں آگ لگ گئی جس کے اندر سینکڑوں مظاہرین بیٹھے تھے۔ جس وقت یہ واقعہ ہوا مسلمان لڑکا فاروقیہ مسجد، برج پوری کے دروازے کے نزدیک تھا۔ وہ وہاں نماز پڑھنے کے لیے گیا تھا۔ مسجد میں صرف سات نمازی تھے، لڑکے نے کمیٹی کو بتایا کہ اسکول کی چھت سے غنڈے مسجد کے اندر داخل ہوئے۔
لڑکے نے کمیٹی کو بتایا کہ نیلے کپڑوں میں ملبوس پولیس (ریپڈ ایکشن فورس) مسجد کے اندر داخل ہوئی اور لوگوں کو مارنا شروع کیا جو نماز پڑھ رہے تھے۔ لوگ نیت توڑ کر مسجد سے باہر بھاگے تو گیٹ سے باہر پہلے سے موجود پولیس نے بھی نمازیوں پر تشدد کیا۔ لڑکے نے بتایا کہ وہ کچھ مقامی لوگوں کو پہچان گیا تھا جیسے راہول ورما اور ارون بسویا۔ راہول ورما نے فائر کرکے کئی نمازیوں کو مار ڈالا اور ارون بسویا مسجد کے اندر مستقل پیٹرول بم پھینکتا رہا۔ انہوں نے قرآن کو (نعوذ باللہ) جلایا اور ساتھ کہتے جاتے:’’اگر تم (مسلمان) اس کو عظیم اور مقدس کتاب کہتے ہو تو دیکھو ہم اس کو کیسے جلاتے ہیں‘‘۔ لڑکے نے اپنی جمع کرائی گئی شکایت میں لکھا کہ ارون بسویا لوگوں کو اشتعال دلا رہا تھا کہ امام مسجد اور مؤذن کو قتل کردو، اور اس کے بعد مشتعل ہجوم نے لوہے کی راڈوں سے امام اور مؤذن کو مارنا شروع کردیا۔ جب ایک شخص نے امام کو بچانے کی کوشش کی تو راہول ورما نے اس پر ڈنڈوں سے حملہ کیا جس سے اس کی بائیں آنکھ زخمی ہوئی جو بعد میں مکمل طور پر ضائع ہوگئی، اور وہ اپنی بائیں آنکھ سے اب دیکھ نہیں سکتا۔ اس لڑکے نے اپنے بیان میں چائولہ جنرل اسٹور کے مالک، راہول ورما اور ارون بسویا کو نامزد کیا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو مسجد کے مؤذن کا ایک ویڈیو پیغام بھی موصول ہوا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ پولیس نے ان کو برج پوری مسجد کے اندر مارا جب وہ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے، اور پھر بعد میں ان کے گھر پر بھی حملہ کیا جو مسجد کے ساتھ ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے ان کو بے دردی سے پیٹا تھا۔
-8عبادت گاہوں، مزارات اور قبرستان پر حملے
حقائق کی تلاش میں کمیٹی کو یہ بھی پتا چلا کہ بہت سی مساجد کو پُرتشدد کارروائیوں میں نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کمیٹی نے بہت سی مساجد کا خود بھی دورہ کیا۔ اس مضمون میں ان سترہ مساجد کی تفصیل دینا تو ممکن نہیں جن کو جلایا گیا، یا شدید نقصان پہنچایا گیا، لیکن ایک واقعے کا ذکر ضروری ہے جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ نفرت انسان کو اندھا کردیتی ہے، اور نفرت کی آگ اُس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہوتی جب تک نفرت کرنے والا خود اس میں جل کر ختم نہ ہوجائے۔
کمیٹی کے سامنے بتایا گیا جس کا بعد میں کمیٹی نے خود جائزہ بھی لیا کہ بلوائیوں نے قبرستان کو بھی نہیں بخشا۔ مسلمانوں سے اس قدر نفرت کہ ان کے مُردوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ جیوتی کالونی کے قبرستان کی چار دیواری گرادی گئی، دروازے اکھاڑ دیے گئے اور فسادی ان کو بھی ساتھ لے گئے، حتیٰ کہ قبروں کو آگ لگادی گئی۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ یہ قبرستان 1983ء سے قائم تھا، حتیٰ کہ 1984ء کے فسادات میں بھی کسی نے قبرستان کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ یہ پہلی دفعہ ہے جب اس علاقے نے اتنی تباہی اور بربادی دیکھی۔ اس علاقے میں ہندو اور مسلمان دونوں رہتے ہیں لیکن ہندوئوں کی اکثریت ہے۔
-9 مسلم اکثریتی علاقوں میں مندروں کی صورت حال
کمیٹی نے بہت سے مندروں کا بھی دورہ کیا جو مسلم اکثریتی علاقوں میں ہیں، اور کوشش کی کہ پنڈتوں اور پجاریوں سے بات کی جاسکے۔ بہت زیادہ مندر ان علاقوں میں نہیں تھے لیکن یہ بات کمیٹی کو واضح طور پر بتائی گئی کہ ایک بھی مندر کو مسلمانوں نے معمولی نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ رہائشیوں نے بتایا کہ مسلم آبادی نے فسادات کے دنوں میں مندروں کا سخت پہرہ دیا تاکہ کوئی شرپسند ان کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ کمیٹی نے مسلم اکثریتی علاقوں میں سات مندروں کا دورہ کیا۔
-10 صحافیوں کی شہادتیں
نومی برٹن، دی وائر 24 اور 25 فروری 2020ء
24 فروری 2020ء کو ہماری ٹیم شام 6 بجے جعفرآباد پہنچی۔ سی اے اے کے مخالف مظاہرین جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے قریب جمع تھے اور دہلی پولیس نے تمام راستے بند کیے ہوئے تھے۔ جب ہم پیدل آگے کی طرف جانے لگے تو کردم پوری کے پاس سنا کہ مظاہرین پر پیٹرول بم پھینکے گئے ہیں، جب تک ہماری ٹیم کردم پوری تک پہنچی وہاں ایک آدمی کے مرنے کی خبر تھی۔ وہیں پر ایک عورت نے ہمیں بتایا کہ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس فائر کررہی تھی۔ جب ہماری ٹیم واپس جارہی تھی تب بھی ہم نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے لیس لڑکوں کے سینکڑوں جتھوں کو مختلف سڑکوں پر آزادانہ گھومتے دیکھا۔
ہم 25 فروری2020ء کو سیدھے آشوک نگر کی طرف گئے کیونکہ ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ کچھ لوگ ایک مسجد میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس مسجد پر بلوائیوں نے حملہ کردیا ہے۔ جب تک ہم وہاں پہنچے مسجد کو آگ لگادی گئی تھی۔ جس وقت آگ لگائی گئی ہماری ٹیم وہاں نہیں تھی لیکن ہم نے وہاں دیکھا کہ ’’ہنومان کے جھنڈے‘‘ مسجدوں کے میناروں پر لہرا دیے گئے تھے۔ ہم بہت کوشش کے بعد مسجد کے سامنے ایک گھر کی چھت پر گئے اور وہاں سے ویڈیو بنائی۔ دوپہر کے وقت ہم جی ٹی بی اسپتال کی طرف گئے، راستے میں کردم پوری پر رکے جہاں ہم نے ایک چودہ سال کے لڑکے کو سڑک پر گرا ہوا دیکھا جس کو گولی لگی ہوئی تھی۔ جی ٹی بی اسپتال میں مَیں نے ایک آدمی سے بات کی جس کے سر اور ہاتھوں پر شدید چوٹیں تھیں۔ اُس نے بتایا کہ وہ پھل اور سبزیاں لینے گھر سے نکلا تو بلوائیوں نے اسے پکڑ کر اس کا نام پوچھا جو اس نے غلط بتایا، پھر ہجوم نے اس سے کہاکہ ’’ہنومان چالیسہ‘‘ سنائو، جب وہ آدمی نہیں سنا سکا تو اس پر شدید تشدد کیا گیا۔
-11 پُرتشدد کارروائیوں میں عورتیں اور بچے نشانے پر
ایک عورت نے کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ بھارتی فلم ’’غدر‘‘ میں دکھائے گئے مناظر کے انداز میں ہجوم نے اس پر حملہ کیا۔ اس نے بتایا کہ فسادی ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے اور وہ مسلسل ’’جے شری رام‘‘ اور ’’مسلوں کو مارو‘‘ کے نعرے لگاتے جارہے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے ’’غدر‘‘ فلم میں دکھایا گیا ہے (اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی معاشرے پر فلموں کے کس قدر گہرے اثرات ہیں)۔ عورت نے مزید بتایا کہ فسادی عورتوں کو دیکھ کر چیختے کہ ’’بہت سی سکینائیں آج پکڑی جائیں گی‘‘۔ عورتوں نے بتایا کہ فسادیوں نے ان کو مسلسل غلیظ گالیاں دیں۔
-12 نفسیاتی صدمہ
ایک متاثرہ عورت نے کمیٹی کو بتایا کہ جب فسادیوں کا ہجوم آیا تو وہ اپنے بچوں کو لے کر بھاگی اور اس دوران اس کے بچے مستقل روتے رہے۔ عورت نے بیان کیا کہ اس دوران وہ ایک کرب ناک صدمے میں رہی اور کئی دن تک وہ اور اس کے بچے بس روتے رہتے تھے۔ اس واقعے نے عورت کو اس بری طرح نفسیاتی صدمے سے دوچار کردیا کہ وہ اپنے بچوں کو مستقل تالے میں بند رکھتی، حتیٰ کہ ضروری چیزوں کے لیے بھی باہر نہیں جانے دیتی۔
کمیٹی کو بہت سارے واقعات چھپنے، رونے اور خوف زدہ ہونے کے بتائے گئے۔ ان میں سے ایک واقعہ یہ ہوا کہ 25 فروری 2020ء کو ایک مسلمان عورت اور اس کے بچے اپنی جان بچانے کے لیے پڑوسی کی چھت پر بھاگے جوکہ چوتھی منزل پر تھی۔ اس نے بتایا کہ چھت پر پہلے سے سو سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ سب مسلسل پانچ گھنٹوں تک روتے رہے اور اپنے گھروں کو بلوائیوں کے ہاتھوں جلتا دیکھتے رہے، اس کے سوا وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔
ایک عورت نے جس کا تعلق بگراتی وپاڑ سے تھا، اپنے بیان میں کہاکہ بلوائیوں نے اس پر حملہ کیا اور پھر وہ واپس چلے گئے، لیکن اس پر اس قدر خوف طاری ہوا کہ ان کے جانے کے بعد اس نے گھر کی ساری لائٹیں بند کردیں کہ اگر وہ بلوائی واپس آئیں تو ان کو لگے جیسے گھر میں کوئی نہیں۔ وہ اور اس کے بچے گھنٹوں بھوکے پیاسے اور خوف میں بیٹھے رہے، پھر کئی گھنٹوں بعد جب اس عورت کو اطمینان ہوا تو اس نے روشنی کے لیے دروازے کھولے، اس پر باہر موجود فسادیوں نے اس کے گھر کی کھڑکیاں بجانی شروع کردی۔ اس واقعے نے عورت کو بے عزتی اور بے بسی کا احساس دلایا اور وہ بے حد درد، خوف اور کرب میں رہی۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ اب بھی صدمے کی کیفیت میں ہے، اور یہ کہ ظاہری زخم تو ٹھیک ہوچکے لیکن اس کے بچوں کے ذہنوں پر خوف کی جو نفسیاتی کاری ضرب پڑی وہ شاید تادیر رہے۔
-13 معاشرتی تحفظ
کم از کم 3 دن کے تشدد اور فسادات کے دوران اور اس کے بعد بھی بہت سی عورتیں اور بچے بے گھر ہوچکے تھے، اور وہ خواتین جن کو کل تک کسی غیر نے بے پردہ نہیں دیکھا تھا ان کو مجبوراً ریلیف کیمپوں میں رہنا پڑا۔ جن عورتوں کے شوہر فسادات میں مارے گئے تھے ان کی آمدنی اچانک بند ہوچکی تھی۔ بہت سی عورتوں کے گھر لوٹے گئے اور پھر ان گھروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ انہوں نے اپنے سارے زیور، نقدی اور قیمتی اشیا کو اپنی آنکھوں سے جلتے دیکھا۔ ان عورتوں سے تحفظ کا احساس چھین لیا گیا تھا۔ ایک عورت نے اپنے تحریری بیان میں لکھا کہ میں نے 10لاکھ روپے چھے سال میں اپنی بیٹی کی شادی کے لیے جمع کیے تھے، وہ گھر کے ساتھ ہی جل چکے تھے۔
-14 پولیس کا جانب دارانہ کردار
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے رپورٹ میں پولیس کے کردار کا بہت تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور متعدد واقعات کی نشاندہی کی ہے جن میں پولیس کا کردار مکمل جانب دارانہ رہا، اور بعض واقعات میں پولیس نے خود لوگوں کو تشدد پر اکسایا اور تشدد کیا بھی۔ پولیس کا فسادات کے دوران جو جانب دارانہ رویہ رہا اس کی مختصر سی تفصیل درج ذیل ہے:
ایک حاملہ عورت کو پولیس نے چاند باغ میں تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے اس کے سر میں 35 ٹانکے لگائے گئے۔ 24فروری 2020ء کی رات کو پولیس نے مظاہرین پر دھاوا بول دیا اور چاند باغ میں موجود مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جو کہ وہاں پُرامن مظاہرے کے لیے موجود تھے۔ جو عورتیں مظاہرے کے مقام پر موجود تھیں انہوں نے مردوں کی حفاظت کے لیے ہاتھوں کی زنجیر بنائی تاکہ جو مرد وہاں موجود تھے وہ محفوظ رہ سکیں۔ اس حاملہ عورت نے کمیٹی کو بتایا کہ پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کرنا شروع کیے اور ایک شیل اس کے پیروں کے پاس آکر گرا۔ اتنے میں بلوائی ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور پاس کھڑی ایک بوڑھی عورت پر تشدد کیا۔ وہاں پر پہلے سے موجود پولیس بجائے اس کے کہ بلوائیوں کو مارتی یا پیچھے دھکیلتی، اُس نے بھی عورتوں پر ہی تشدد شروع کردیا۔ اس حاملہ عورت نے مزید یہ بھی بتایا کہ پھر فوجی وردی میں ملبوس لوگ بھی عورتوں کو مار رہے تھے۔ بعد میں وہ حاملہ عورت زخمی حالت میں گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی اور ایمبولینس کو بلایا تو پولیس نے ایمبولینس کو اس کے گھر جانے سے روک دیا۔ وہ کسی طرح اسپتال پہنچی، ڈاکٹروں نے اس کے سر پر 35 ٹانکے لگائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے کانوں میں یہ نعرہ مستقل گونج رہا ہے جو کہ بلوائی اس پر تشدد کرتے وقت لگا رہے تھے:
’’ہندوستان ہمارا ہے، ایک مسلمان بھی نہیں رہے گا یہاں‘‘۔
-15 ایس ایچ او دیال پور کو شکایتی خط
24 فروری 2020ء کو دیال پور کے ایس ایچ او کو ایک درخواست جمع کرائی گئی جس میں شکایت کنندہ نے کہا کہ اس کو پتا چلا کہ شری جگدیشں پردھان کے حامیوں نے ٹائر مارکیٹ پر واقع مسجد کو جلادیا ہے۔ اس کے بعد وہ خوف میں چاند باغ پر واقع اپنے بھائی کے گھر گیا۔ 25فروری 2020ء کو عورتوں نے دوبارہ سے چاند باغ پر جمع ہوکر مظاہرے شروع کردیے تھے۔ دوپہر ایک بجے کے قریب موہن نرسنگ ہوم کے مالک اور پھر دوسرے لوگوں نے نرسنگ ہوم کی چھت پر سے مظاہرین پر فائرنگ کی اور پتھرائو کیا۔ اس موقع پر موجود ایس ایچ او دیال پور نے پُرامن مظاہرین کو جن میں زیادہ تر عورتیں تھیں، گندی گالیاں بکیں اور دھکے دیے۔ شکایت کنندہ نے اپنی درخواست میں مزید لکھا کہ جگدیش پردھان اور موہن سنگھ نے پولیس کے ساتھ مل کر لوگوں پر حملے کیے اور بہت سے لوگ قتل کردیے۔ اس نے مزید لکھا کہ فاروقیہ مسجد پر حملہ جو ایک دن پہلے ہوا تھا، وہ بھی ایس ایچ او دیال پور کی سربراہی میں ان ہی لوگوں نے کیا تھا۔ اس نے لکھا کہ پولیس اپنے ساتھ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی لے گئی تھی اور ایس ایچ او دیال پور نے وہاں کے مکینوں سے کہاکہ بہتر ہے کہ تم لوگ علاقہ چھوڑ دو ورنہ تم سب کو قتل کردیا جائے گا۔ اس نے بتایا کہ درخواست عیدگاہ پولیس اسٹیشن میں جمع کرادی گئی تھی اور دہلی پولیس کمشنرکو بھی بھیج دی تھی لیکن تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی۔
-16کمیٹی کی سفارشات
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے دہلی اقلیتی کمیشن اور دہلی حکومت کو مندرجہ ذیل سفارشات دیں تاکہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوسکیں، اور ریاست کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آئندہ کے لیے مربوط لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔
(i) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایف آئی آر فوراً درج کی جائیں۔
(ii) تمام متاثرین کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں۔
(iii) عینی شاہدین اور متاثرین کی جان کی حفاظت کا انتظام کیا جائے۔
(iv)متاثرین کے مالی نقصانات کا اندازہ لگاکر فوری ازالہ کیا جائے۔
(v) دہلی اقلیتی کمیشن کو ایف آئی آر کے اندراج کے لیے فوری ایکشن لینا چاہیے۔
……٭٭٭……
نوٹ: درج ذیل لنک پر دہلی اقلیتی کمیشن رپورٹ دیکھی جاسکتی ہے۔
https://archive.org/details/DMC-delhi-riots-factfinding-2020