آزادکشمیر اور گلگت کے اسٹیٹس کی تبدیلی ؟۔

اسلام آباد اور مظفرآباد کے تعلقات میں”دراڑ“

کچھ عرصہ قبل میڈیا میں اچانک یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ حکومتِ پاکستان نے آزادکشمیر حکومت کو عبوری آئین ایکٹ 74 میں 14ویں ترمیم کا ایک مسودہ منظور ی کے لیے بھیجا ہے۔ خبر تو آئی مگر اس مسودے کے وجود اور اس کے اصل مندرجات کی تصدیق یا تردید کسی جانب سے نہیں ہوئی۔ عین اس دوران وزیراعظم راجا فاروق حیدر خان نے اشاروں کنایوں سے کام لیتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ سے جو کام لینا چاہتے ہیں، ہرگز نہیں کروں گا۔ اس سے پہلے انہوں نے یہ کہہ کر ایک نئی بحث چھیڑ دی تھی کہ مجھے کہا جارہا ہے کہ میں آزادکشمیر کا آخری وزیراعظم ہوں۔
اس وقت اسلام آباد اور مظفرآباد کے درمیان آئینی ترمیم کا سوال اہم نہیں، بلکہ معاملہ اختیار کا ہے۔ 13ویں ترمیم سے آزادکشمیر حکومت کو جو اختیار حاصل ہوا، اور کشمیر کونسل کی سپرگورنمنٹ یا دوسرے لفظوں میں سپر نیچرل گورنمنٹ کا جس طرح خاتمہ ہوا، آزادکشمیر حکومت اس پیش قدمی کو دوبارہ پس قدمی میں بدلنے پر تیار نہیں۔ جو اختیار حکومت کو حاصل ہوگیا اب حکومت اس میں شراکت یا اس عمل کو ریورس گیئر لگانے پر راضی نہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومتِ آزادکشمیر اور کابینہ مزید مشاور ت پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ اس پر تیار ہیں، اور یہ مشاورت آزادکشمیر کو پانچ اگست کے یک طرفہ بھارتی فیصلے کے بعد آزادکشمیر کو مزید بااختیار بنانے پر ممکن ہے۔ اسلام آباد اور مظفرآباد کی حکومتیں مشاورت کا عمل جاری رکھیں تو شاید یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوسکتا ہے۔ 13ویں ترمیم سے مظفرآباد اور اسلام آباد کے تعلقات میں کیا دراڑ آئی ہے؟ تعلقات کی گاڑی کی راہ میں کون سے اسپیڈ بریکر لگ گئے ہیں؟ اسلام آباد کو اس پر کھل کر اپنا مؤقف بیان کرنا چاہیے۔ محض ایک مسودہ کوہالہ سے اِس جانب لڑھکا اور سرکا دینا اور پھر ردعمل کی لہروں کو گننا مسئلے کو حل کرنے کا بہتر انداز نہیں۔ 13ویں ترمیم کی محرک پیپلز پارٹی کو یہ قلق ہے کہ 13ویں ترمیم کے جس مسودے کو منظور کیا گیا یہ وہ متفقہ مسودہ نہیں تھا جس میں ان کی عرق ریزی اور مشاورت شامل تھی۔ اس ماحول میں اصل سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟
پانچ اگست اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات نے حالات کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل کر آگے نکل گیا اور ہم اس کی پیچھے رہ جانے والی دھول کو ناپ تول رہے ہیں۔ قیام پاکستان اور اس کے بعد کے واقعات جب رونما ہورہے تھے تو اُس وقت عالمی منظر پر مغرب کا غلبہ اور بالادستی تھی۔ صنعتی انقلاب نے مغرب کی اصطلاحات کو دلنشین بناکر پیش کیا تھا۔ ایک طرف ہیروشیما اور ناگاساکی کی دوزخ سے دھواں اُٹھ رہا تھا، دوسری طرف جن ہاتھوں نے یہ قیامت برپا کی تھی اُن کی زبانوں سے انسانی حقوق، شہری آزادیوں، مساواتِ انسانیت اور احترامِ آدمیت کی باتیں سنائی دے رہی تھیں اور کانوں کو بھلی معلوم ہورہی تھیں۔ آزادکشمیر حکومت کا موجودہ ڈھانچہ انہی اصطلاحات اور ان کے پیچھے زندہ ضمیری کو جھنجھوڑنے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا۔ وقت گزرتا گیا تو پتا چلا کہ جس مغربی ضمیر کو جھنجھوڑنے، متاثر کرنے کے لیے ہم سو جتن کررہے ہیں وہ فلسطین سے سربرینیکا تک، اور مشرق وسطیٰ سے کشمیر تک کبھی کا مرا پڑا ہے، بلکہ اب تو یہ ایک تعفن زدہ لاش سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ اس عالمی نظام میں انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور مساواتِ انسانی کے نعرے ایسے کاغذی مجسمے تھے جو زمانے کی ہوا کے ہلکے تھپیڑوں کے ساتھ ہی کٹی پتنگ بن کر رہ گئے۔ پانچ اگست نے تلخ زمینی حقائق کو کچھ اور عیاں کردیا ہے۔ ہم جس مغربی دنیا کو اپنا قصۂ درد سنانے چلے تھے اُسے تجارت اور سرمائے سے غرض تھی، یا پھرہماری مذہبی شناخت ہمارا ڈی میرٹ بن گئی تھی۔ اِس دنیا اور اِس عالمی ضمیر کے پاس سننے کے لیے وقت نہیں۔ سنتے ہیں تو سن کر اُڑا دیتے ہیں۔ اس لیے آخری ہچکیاں لیتے ہوئے مغرب زدہ عالمی نظام سے مزید توقع خود فریبی ہے۔اس فریب سے نکلنے میں ہی ہمار ابھلا ہے۔
بھارت اس وقت کشمیر میں وہی کھیل کھیلنے میں مصروف ہے جو برسوں پہلے اسرائیل فلسطین میں کامیابی سے کھیل کر فتح کی ٹرافی بھی اپنے نام کر چکا ہے۔بھارت کشمیر میں اسرائیل کے نقشِ قدم پر ہی نہیں چل رہا بلکہ اسرائیل کے ماہرین اور مشیر کشمیر ہڑپ کرنے میں اُس کی قدم قدم پر راہنمائی کے لیے سری نگر اور لداخ میں موجود ہیں۔
پانچ اگست نے مسئلہ کشمیر کی حرکیات کو بدل دیا ہے۔ خطرات اور چیلنجز کے انداز کو بدل دیا ہے۔ یہ 72 سالہ تاریخ کا سب سے اہم موڑ ہے جہاں ’’نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری‘‘ کا محاورہ عملی شکل اختیار کررہا ہے۔ مسلمان اکثریت رہے گی نہ کشمیر کا تنازع باقی رہے گا۔ عملی طور پر تحریکِ آزادی مسلمان اکثریتی آبادی کا مسئلہ بن کر رہ گئی، اور اس دردِ سر کا حل اپنے طور پر بھارت نے پانچ اگست کو ڈھونڈ لیا ہے۔ ایسے میں آزاد کشمیر اور گلگت کا اسٹیٹس بدلنے کی باتیں مخمصے کو بڑھا رہی ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہورہا، ماضی میں شملہ معاہدے کے غیر تحریری حصے کے طور پر حکومتِ پاکستان آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی کوشش کرچکی ہے۔ اس کے بعد بھی یہ کوششیں کسی نہ کسی انداز سے جاری رہی ہیں۔ پانچ اگست نے حالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ 72برس میں آزادکشمیر میں کشمیریت کا ایک مشترکہ احساس پیدا ہوکر جوان ہوچکا ہے۔ آزاد کشمیر ماضی کی ریاست جموں وکشمیرکے علاقوں وادی کشمیر، جموں اور پونچھ کے کٹے پھٹے اور مضافاتی علاقوں پر مشتمل تھا۔ اس علاقے کی الگ شناخت، الگ پرچم، الگ ترانہ اور صدر اور وزیراعظم جیسے عہدوں نے آزاد کشمیر کو پاکستان میں ذہنی طور پر ضم نہیں ہونے دیا۔ یہاں کے لوگ خود کو پورے کشمیر کا نمائندہ اور اس کی آزادی کا ضامن سمجھ کر اپنی الگ شناخت کو گہرا کرنے کے قائل ہوئے۔ آج بھی یہ حقیقت ہے کہ لوگ اکثر ’’آزاد کشمیر کا علاقہ‘‘ اور ’’پاکستان کا علاقہ‘‘ کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، کیونکہ دونوں کے صدور اور وزرائے اعظم الگ ہیں۔ یہ سوچ پاکستان نے خود زندہ رکھی تھی اس امید پر کہ ایک دن دنیا کے دل کشمیریوں کی کہانی کشمیریوں کی زبانی سن کر موم ہوجائیں گے، مگر بھارت نے پانچ اگست برپا کرکے یہ موہوم امید ختم کردی ہے۔ مسئلے کی حرکیات کی تبدیلی کی اس بدلی ہوئی حقیقت کے ساتھ ساتھ کسی علاقے کی شناخت، تنوع اور اختیار بھی ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا ڈائون پلے دانش مندانہ اپروچ نہیں۔ وقت کا دھارا اسلام آباد اور مظفرآباد دونوں کے لیے بدل گیا ہے، اچھا ہے کہ دونوں اعلیٰ سطحی مشاورت سے بدلے ہوئے حقائق کا اعتراف کرکے درمیانی راستہ ڈھونڈ نکالیں۔