فیصل آباد، گیٹ وے لگانے کا کام شروع

۔’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘۔

یہ محاورہ اگر کہیں فٹ ہوتا ہے تو وہ فیصل آباد ہے، جس کی سیاست، معیشت، منتظمہ اُس پسلی کی طرح ٹیڑھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اسے مزید سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو ٹوٹ جائے گی۔
نجی اسکول مالکان ابھی تک تو ہارن بجانے کے احتجاج تک محدود ہیں، لیکن احتجاج کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکلنے کا نہیں۔ اب یہ لوگ حکمرانوں کے مرتبان سے گھی نکالنے کے لیے انگلیاں اگر ٹیڑھی کریں گے تو حاصل ہوتا کچھ نظر نہیں آتا۔ حکومت نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو بند کیا تھا۔ اسکول مالکان کا کہنا ہے کہ اگر واقعی صحت مند ہونے والوں کی تعداد متاثرین سے زیادہ ہوئی ہے اور اموات کی شرح میں بھی کمی آئی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ ایس او پیز سے مشروط کرتے ہوئے اسکول کھولنے کی اجازت دے۔ ایسا کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مارکیٹوں اور بازاروں میں کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے۔
انکشاف ہوا ہے کہ آر پی او کی جانب سے مارک ہونے والی انکوائریاں ماتحت پولیس افسروں کی جانب سے اپنے جونیئر عملے کو مارک کردی جاتی ہیں، اور یہ سب کچھ اپنی کارکردگی کے نام سے کیا جاتا ہے۔ جب کہ مقامی پولیس افسر کو اس ہیرا پھیری کا علم تک نہیں ہوتا۔ زیرنظر سطور میں کسی کی توہین مطلوب نہیں، بلکہ اس حقیقت کا اظہار کرنا ہے کہ جن لوگوں کو تحقیقاتی امور بھیجے جاتے ہیں انہیں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ تحقیقات کیا مطلوب ہیں اور نتیجہ کیا سامنے آیا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گزشتہ دنوں سرگودھا موڑ کے انچارج ٹریفک وارڈن پر خاتون ٹریفک اسسٹنٹ نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم اسے ورغلاکر اپنے ڈیرے لے گیا جہاں پر اسے ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں زیادتی کا کیا جانا ثابت ہو گیاہے۔ تاہم ابھی فریقین کے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آنا باقی ہے۔ اس پورے معاملے میں چیف ٹریفک آفیسر سردار محمد آصف کا طرزعمل یہ ہے کہ وہ دونوں کو سزا دینے پر مُصر ہیں۔ اگر اس کی بنیاد محکمے کی بدنامی ہونا ہے تو پھر یہ بدنامی دونوں کو سزا ملنے سے اور بھی زیادہ ہوگی کہ عوام کے مددگار محکمے کے نزدیک گناہ گار اور بے گناہ دونوں برابر ہیں۔ پتا چلا ہے کہ ملزم مدعیہ پر صلح کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ تاہم یہ خیال ہے کہ ملزم اور مدعیہ کو محکمانہ طور پر برابر کی سزا دینا بھی صلح کے لیے دبائو کا ایک انداز ہے۔
گزشتہ دنوں پیر محل کے نواحی گائوں میں چودھری محمد سرور کی اہلیہ پروین سرور نے واٹر فلٹریشن پلانٹ کا افتتاح کیا اور ساتھ ہی گورنر کی طرف سے کہی گئی اس بات کو اجاگر کیا کہ وہ کے پی کے کی طرح پنجاب کے عوام کو صاف ستھرا پانی فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ شاید ایسا کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ شہباز شریف دور میں جو واٹر پلانٹ لگائے گئے تھے شاید ہی ان کی باقیات ڈھونڈنے سے ملیں۔ اس کے برعکس انفرادی طور پر یا چیریٹی کا کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں نے جو پلانٹ لگائے تھے وہ حکمرانوں کی طرف سے لگائے گئے پلانٹوں کے مقابلے میںکہیں زیادہ بہتر کام کر رہے ہیں،بلکہ عوامی خدمت کے حوالے سے جو محنت کش گھروں میں نہری پانی ریڑھیوں پر سپلائی کرتے ہیں وہ سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ واسا کا ادارہ جس کے سپرد پانی کی نکاسی اور فراہمی ہے عملاً سفید ہاتھی سے زیادہ کچھ نہیں، یہ ادارہ نہ صرف عوام سے بھاری رقوم وصول کرتا ہے بلکہ آئے روز حکومت سے اربوں کے فنڈ بھی لیتا ہے، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ آج تک شہر کے ہر حصے کو پینے کا پانی فراہم نہیں کر سکا، بلکہ ابتری تو یہاں تک ہے کہ گھوسٹ ملازمین کا صحیح شمار نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ ہر دور میں سیاسی مداخلت نے اس ادارے کا بیڑہ غرق کیا۔ پہلے میاں عبدالمنان کے فرزندِ ارجمند اس کے چیئرمین تھے۔ جب مسلم لیگ ن روبہ زوال ہوئی تو اب تحریک انصاف چیئرمینی کے مزے لوٹ رہی ہے۔ اسی طرح کے ترقیاتی ادارے تین بڑے شہروں لاہور، ملتان اور گجرانوالہ میں بھی ہیں جنہوں نے تازہ بستیاں بسا کر اپنا نام کمانا شروع کر دیا ہے، جبکہ فیصل آباد میں ایف ڈی اے سٹی کوبنے اٹھارہ سال ہوچکے ہیں اور آبادی کاری کا یہ عالم ہے کہ جگہ جگہ دھول اڑتی نظر آرہی ہے۔
فیصل آباد کارپوریشن اور دوسری انتظامیہ نے اندرونِ شہر ٹریفک کا حل یہ نکالا ہے کہ آٹھوں بازاروں میں گیٹ وے لگانے کا کام شروع کردیا ہے اور اس کا آغاز کچہری بازار سے ہوا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس سے ہیوی ٹریفک کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات دور ہوجائیں گی، لیکن اس کے مقابلے میں تاجر حضرات جو کہ تھوک اور پرچون دونوں قسم کا کاروبار کرتے ہیں، ان کو اور اندرونِ شہر کے رہائشیوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگا۔ پھر اندرونِ شہر داخلے پر رشوت کا بازار بھی گرم ہوسکتا ہے۔