وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و بلدیات کامران بنگش نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کی مثبت پالیسیوں سے صوبے میں صحافت اور صحافیوں کے لیے ماحول سازگار ہوا ہے۔ ہم ٹیررازم سے ٹورازم کی جانب بڑھ چکے ہیں، اور آنے والا دور صوبے کی خوشحالی اور ترقی کا دور ثابت ہوگا۔ صوبائی مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ صوبے میں میڈیا کو مکمل طور پر آزادانہ بنیادوں پر کام کی اجازت ہے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا کا کام مسائل اور خرابیوں کی نشاندہی کرنا ہے، اس کی اصلاح حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا معاشرے کی اصلاح میں جو کردار ادا کررہا ہے اس پر پوری قوم کو فخر ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ مشترکہ جدوجہد کے ذریعے مشترکہ اہداف کے حصول میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہوگی، اور اگر ایسی کوئی رکاوٹ موجود ہے بھی تو اسے بھی ہم مل کر ختم کریں گے۔
وزیراعلیٰ کے مشیر اطلاعات کا شمار صوبائی کابینہ کے نوجوان اور متحرک وزراء میں ہوتا ہے، ان کا یہ پیغام ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایک جانب حکومت افغانستان کو اقتصادی اور تجارتی میدانوں میں ریلیف دینے کی پالیسی پر گامزن ہے، تو دوسری جانب پاکستان نے طورخم بارڈر کے راستے افغانستان کے ساتھ تجارت کو بڑھانے کے لیے جہاں طورخم اور چمن بارڈر پر 24گھنٹے سہولیات دی ہیں، وہاں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں غلام خان اور وانا کے راستے بھی دو طرفہ تجارت کے لیے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز یہ اطلاع بھی سامنے آچکی ہے کہ گوادر بندرگاہ سے بھی افغانستان کے لیے تجارتی آمدورفت کا آغاز کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا نے گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ ایکنک نے خیبر پختون خوا کے دو بڑے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے جن میں پشاور طورخم اور چکدرہ فتح پور ایکسپریس وے کے منصوبے شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پشاور طورخم موٹروے منصوبہ 48کلومیٹر پر مشتمل ہوگا جس پر 78ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جبکہ چکدرہ فتح پور موٹروے 80کلومیٹر طویل ہوگا، اور اس پراجیکٹ کے لیے دس ہزار کنال زمین کی خریداری کے لیے 20 ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایاگیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا ان دونوں منصوبوں کے متعلق کہنا ہے کہ ان منصوبوں سے صوبے کے ایک لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع بھی دستیاب ہوں گے۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ان دونوں منصوبوں میں خیبر پختون خوا کی پسماندگی اور معاشی زبوں حالی کے پس منظر میں خاصی جان نظر آتی ہے۔ ان منصوبوں کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک منصوبے پشاور تا طورخم موٹروے کی تکمیل سے جہاں قبائلی اضلاع اور قبائلی نوجوانوں کو تیز ترین اور محفوظ سفر کی سہولیات دستیاب ہوں گی، وہیں یہ منصوبہ چونکہ افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت بڑھانے کا ذریعہ بنے گا اس لیے اس منصوبے سے مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ ملک کے مجموعی تجارتی حجم میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اسی طرح پشاور اور طورخم موٹروے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ چکدرہ فتح پور سیکشن پر موٹروے کی تعمیر سے ملاکنڈ کی دہشت گردی سے تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے ساتھ ساتھ اس پورے خطے میں سیاحت کے فروغ میں بھی مدد ملے گی۔ یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ ہمارے شمالی اور قبائلی علاقوں میں سیاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اگر ان علاقوں میں درکار سہولیات بہم پہنچائی جائیں تو اس شعبے سے صوبے کی کمزور مالی حالت کو خاطر خواہ فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سیاحت کا شعبہ ایک بڑی صنعت کا درجہ حاصل کرچکا ہے اور کئی ممالک کے معاشی استحکام میں یہی شعبہ بنیادی اور کلیدی کردار ادا کررہا ہے جن میں یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ دبئی، سنگاپور اور تھائی لینڈ جیسے چھوٹے ممالک کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے، جن کی معیشتوں کا انحصار ہی سیاحت کے شعبے پر ہے۔ لہٰذا خیبر پختون خوا چونکہ اقتصادی، زرعی اور صنعتی لحاظ سے دیگر صوبوں سے بہت پیچھے ہے لہٰذا اگر یہاں صرف سیاحت کے شعبے ہی پر نگاہ مرکوز کی جائے اور اس ضمن میں درکار سہولیات جن میں مواصلات یعنی موٹر ویز، انٹرنیٹ، ہوائی سفر، ہوٹلنگ اور سیکورٹی بنیادی عوامل ہیں، تو یہ صوبہ چند سال کے اندر اندر معاشی ترقی کے بام عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ اگر ان دو میگا پراجیکٹس پشاور طورخم اور چکدرہ فتح پور موٹرویز کو گزشتہ دنوں منظوری پانے والے کمراٹ تا لوئر چترال کیبل کار منصوبے کے تناظر میں دیکھا جائے تو انہیں سونے پر سہاگہ کے مترادف قرار نہ دینا یقیناً زیادتی ہوگی۔ یاد رہے کہ متذکرہ کمراٹ لوئر چترال کیبل کار منصوبہ 14کلومیٹر پر مشتمل ہوگا اور اس کیبل نیٹ ورک کے ذریعے دیر بالا کی حسین ترین وادی کمراٹ کو لوئر چترال کے مداکلشٹ علاقے کے ساتھ ملایا جائے گا۔ یہ کیبل کار سروس دنیا کی بلند ترین اور طویل ترین سروس ہوگی جس پر 32 ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس منصوبے سے اس خطے میں سالانہ 80 لاکھ سے زائد ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد متوقع ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ کا تعلق چونکہ خود ایشیا کا سوئٹزر لینڈ کہلائے جانے والے ضلع سوات سے ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود نہ صرف سیاحت کی اہمیت سے واقف ہیں بلکہ وہ پورے صوبے میں سیاحت کو ایک بڑے معاشی پاور انجن کے طور پر بروئے کار لانے کے متمنی بھی ہیں، جس سے سیاحت کی اہمیت سے متعلق ان کے وژن اور ادراک کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ ماضی میں ہمارے ہاں یہ اہم ترین شعبہ نہ صرف اعلیٰ حکومتی سطح پر نظرانداز رہا ہے بلکہ اس کی اہمیت کو بھی کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی، ورنہ کیا وجہ ہے کہ آج تک اس شعبے میں ہم ذرہ برابر بھی کوئی پیش رفت نہیں کرسکے ہیں؟ حالانکہ ہمارے ہاں جہاں بدھا تہذیب کے آثارِ قدیمہ غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں وہیں دیر بالا، دیر پائین، چترال، شانگلہ، کوہستان، بٹگرام، مانسہرہ، کاغان، ناران، کالام، سوات اور باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک پھیلے قبائلی علاقوں میں پایا جانے والا قدرتی حسن اور سیاحتی مقامات نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ کے مراکز بھی بن سکتے ہیں۔ یہ بات بجا ہے کہ ماضیِ قریب میں دہشت گردی کے باعث اس خواب کی تکمیل ممکن نہیں تھی، اور اس دور سے پہلے اس اہم شعبے کی جانب کسی بھی حکومت نے توجہ نہیں دی، بلکہ ماضی کی حکومتوں کی ترجیحات کا زیادہ تر فوکس چونکہ چھوٹی بڑی سڑکوں کی تعمیر، تعلیم اور صحت کے مراکز کے قیام، اور زیادہ سے زیادہ چند صنعتی بستیوں کی تعمیر پر رہا ہے، اور ان منصوبوں کے ذریعے اُس وقت کے حکمران اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ کمیشن کے نام پر اپنی تجوریاں بھرنے پر توجہ دیتے رہے ہیں، اس لیے ہمارا صوبہ آج پسماندگی اور معاشی زبوں حالی کا شکار نظر آتا ہے، کیونکہ یہاں اجتماعی اقتصادی ترقی کے لیے نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی قابلِ ذکر قدم اٹھایا گیا ہے۔ لہٰذا توقع ہے کہ موجودہ حکومت نے مواصلات اور سیاحت کے شعبوں کو باہم منسلک کرکے صوبے کی اجتماعی ترقی کا جو وژن اور قابلِ عمل منصوبہ بنایا ہے اس کے مثبت اثرات جلد ہی بڑے پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کی شروعات اور نوجوانوں کو مختلف سیکٹرز میں ملنے والی روزگار کی سہولیات کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے جس سے یقیناً صوبے کی معیشت پر دوررس اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔