یکساں نصابِ تعلیم کی بنیاد اسلام، نظریۂ پاکستان، شعائرِ اسلامی اور مشرقی اقدار کے بجائے ہیومن ازم پر استوار کی جارہی ہے
کہا جاتا ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز اور اُن کی بقا و سلامتی کی ضمانت تعلیم ہے۔ قومی تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم تباہ حال قوموں کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیتا ہے اور کوئی جارح اُن کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے 73 سال میں تعلیم ہی کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا۔ نظام تعلیم کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور جدید علوم و فنون سے روشناس کرانے پر سب سے کم توجہ دی۔ تعلیم کا قابلِ شرم حد تک بجٹ ہماری اس مجرمانہ کوتاہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہماری بدنصیبی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نظام تعلیم میں اصلاحات کے لیے جو کام آزادی کے فوری بعد شروع ہوجانا چاہیے تھا اُس پر ہم اب بحث و مباحثہ کررہے ہیں، اور یہ بحث و مباحثہ بھی ان خطوط پر ہورہا ہے کہ قومی تقاضوں، معاشرتی اقدار، دینی شعائر اور ملّی غیرت و حمیت کو نظرانداز کرکے جدید دنیا ہم سے جو مطالبے کررہی ہے ہم اُن کو پورا کردیں، تاکہ یہ نام نہاد جدید دنیا ہم سے مطمئن ہوکر ہماری مالی و عملی امداد جاری رکھ سکے۔ جدید دنیا کی ترقی سے فائدہ اٹھانا کوئی بُری بات نہیں ہے۔ اگر ہم جدید اور آزاد دنیا کے نظام ہائے تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے حالات، اقدار، ضروریات اور شعائر کو اپنے نظام تعلیم میں سمولیں، تو یہ بہت اچھا ہے۔ خود اس جدید دنیا کے ہر ملک نے اپنے نظام تعلیم کی بنیاد اپنی روایات، قومی تقاضوں، اقدار اور مقامی ضرورتوں پر رکھی ہے، لیکن ہم اُن کے نظام ہائے تعلیم کے بجائے اُن کے سیاسی ایجنڈے اور احکامات کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ہم اس اہم شعبے میں اپنی کوئی سمت متعین کرسکے ہیں اور نہ ہی قومی سطح کے اہداف حاصل کرسکے ہیں۔ البتہ اس کے نتیجے میں ملک میں پانچ چھے قسم کے طریقہ ہائے تعلیم اب تک رائج کرچکے ہیں۔ جبکہ دنیا کے ہر آزاد ملک میں ایک ہی طرح کا تعلیمی نظام، ذریعہ تعلیم اور یکساں نصاب رائج ہے۔ ہم مختلف طریقہ ہائے تعلیم کے ساتھ ساتھ قومی زبان اور یکساں نصاب سے بھی محروم ہیں۔ موجودہ حکومت نے یکساں نصابِ تعلیم بنانے کا اعلان کیا جس کا ملک کے تمام طبقات نے خیرمقدم کیا کہ اس طرح قومی امنگوں کے مطابق اور ہماری ملکی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسا نظام تعلیم وضع ہوجائے گا جس سے کم از کم یہ تاثر تو ابھر سکے گا کہ خیبر سے کراچی تک اور گلگت و بلتستان سے آزاد کشمیر تک ہم ایک قوم ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ تو اب تک ہوسکا ہے اور نہ ہوتا نظر آرہا ہے۔
یکساں قومی نصاب کی تیاری وفاقی وزارتِ تعلیم کا کام ہے۔ اگرچہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی موضوع بن چکا ہے۔ اس لیے پہلا سوال تو یہی ہے کہ وفاقی وزارتِ تعلیم کی نگرانی میں بننے والے یکساں نصاب کو صوبے قبول کرتے ہیں یا اسے صوبائی امور میں وفاق کی مداخلت قرار دے کر مستردکردیتے ہیں۔ کم از کم سندھ کی سطح تک تو یہ خطرہ موجود ہے، دیگر صوبوں سے بھی کچھ آوازیں اٹھ سکتی ہیں۔ بہرحال یکساں نصاب کی تیاری کی بنیادی ذمہ داری وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود کی ہے، جن کی آزاد خیالی، مذہب بیزاری اور انگریزی زبان و ثقافت سے مرعوبیت سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کمالِ ہوشیاری سے اس کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے جوائنٹ ایجوکیشنل ایڈوائزر ڈاکٹر محمد رفیق طاہر کے کندھوں پر ڈال دی ہے۔ ڈاکٹر رفیق طاہر کا ماضی ایک قومی سوچ کے حامل ماہر تعلیم کا ہے۔ اپنی ذاتی زندگی میں وہ ایک بھلے اور دیانت دار انسان ہیں۔ لیکن ہماری رائے میں انہیں اس پس منظر کی وجہ سے یہ ذمہ داری نہیں سونپی گئی، بلکہ درپردہ مقصد یہ ہے کہ اسلامی ذہن اور قومی سوچ رکھنے والے ایک شخص سے ایک لبرل اور آزاد خیال بلکہ قومی تقاضوں سے متصادم پالیسی بنوا لی جائے۔ چنانچہ اب تک کی کارروائی سے پتا چلتا ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم کی بنیاد اسلام، نظریۂ پاکستان، شعائرِ اسلامی اور مشرقی اقدار کے بجائے ہیومن ازم پر استوار کی جارہی ہے۔ ذریعۂ تعلیم کے معاملے میں بھی انگریزی کی وکالت اور نفاذ کی کوششیں جاری ہیں اور اردو کو قومی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ گردانا جارہا ہے۔ یکساں نصابِ تعلیم کی تیاری کے لیے جو کونسل تشکیل دی گئی تھی اُس میں ملک میں موجود دینی مدارس کے 35لاکھ سے زائد طلبہ کی نمائندگی کرنے والا کوئی ایک رکن بھی نہیں تھا۔ تاہم احتجاج اور کوششوں کے بعد اب اس کمیٹی میں دینی مدارس کی نمائندگی کے لیے تین ارکان کو نامزد کردیا گیا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ کام اُس وقت ہوا ہے جب واقف کار حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ یکساں نصاب کی تیاری کا کام مکمل ہوچکا ہے، اور متعلقہ حلقے یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ وزیراعظم سے اس کی منظوری بھی لی جاچکی ہے۔
سنگل کریکولم کونسل یا یکساں نصاب کمیٹی کے حالیہ اجلاس 16 اور 22 جولائی کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی صدارت میں اسلام آباد میں منعقد ہوئے، جن میں پہلی سے بارہویں جماعت تک ذریعہ تعلیم پر بات ہونا تھی۔ ایجنڈے اور دوسری تیاریوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ انگریزی کو پہلی سے بارہویں جماعت تک بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کی بات طے کرلی گئی ہے۔ البتہ قومی اور دینی حلقوں کو دل کی بھڑاس نکالنے اور قومی زبان اردو کے حامی ارکان کو اپنی بات کرنے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے، ورنہ پرنالہ تو وہیں گرے گا۔ تاہم شاید اردو کی حمایت میں پورے ملک میں جو فضا موجود ہے اُسے یکسر نظرانداز کرنا ممکن نہ تھا، اس لیے 16 جولائی کے اجلاس کی ابتدا ہی میں شرکاء کو بتادیا گیا کہ سردست پہلی سے پانچویں جماعت تک تمام مضامین انگریزی میں پڑھائے جانے کی تجویز دی جارہی ہے، البتہ اردو اور اسلامیات دو ایسے مضامین ہیں جو اردو ہی میں پڑھائے جائیں گے۔ گویا عملاً پہلی سے پانچویں تک کے پہلے مرحلے میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہوگا۔ اور شاید پانچویں کے بعد یہ دونوں مضامین یا تو نصاب سے خارج ہی کردیے جائیں گے یا پھر یہ مضامین بھی انگریزی زبان میں ہی پڑھائے جائیں گے۔ ذرا حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جو شخص بطور طالب علم اور بطور استاد اردو کو قومی زبان بنانے کی تحریک کا حصہ رہا ہو، اب یکساں نصاب کمیٹی کا سربراہ بن کر یا وزارتِ تعلیم کا جوائنٹ ایڈوائزر ہوکر پہلی سے پانچویں جماعت تک انگریزی ذریعہ تعلیم کے لیے سفارشات پیش کررہا ہے، البتہ انہوں نے اتمامِ حجت کے لیے یہ اہتمام ضرور فرمایا کہ پہلی بار دینی تعلیم اور دینی مدارس کے ذمہ داران کو بھی شریکِ گفتگو کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ اس اجلاس کے بعد جس میں بعض اصحاب نے آن لائن بھی شرکت کی تھی، نشستند، گفتند، برخاستند کے بعد یہ مژدہ سنایا گیا کہ پہلے مرحلے میں پہلی سے پانچویں جماعت تک اردو اور اسلامیات کے سوا باقی تمام مضامین انگریزی میں پڑھائے جانے کی تجویز دی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی کے ایک رکن اور اب وفاقی وزیر تعلیم کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں فیصلہ سازوں نے یہ غور کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ دستورِ پاکستان کی دفعہ 251 کے تحت اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود اردو کو قومی زبان قرار دے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے 8 ستمبر 2015ء کے فیصلے میں اردو کو قومی زبان ہی نہیں بلکہ عدالتی، تعلیمی، دفتری اور سرکاری زبان بنانے کے آئینی حکم پر فوری عمل درآمد کا فرمان جاری کرچکی ہے۔ اس فیصلے کی رو سے ایسا نہ کرنا آئین کی دفعہ 5 کی خلاف ورزی ہے جس پر آئین کی دفعہ 6 یعنی غداری کی سزا لاگو ہوتی ہے۔
چونکہ پہلے سے اندازہ تھا کہ یہی ہونا ہے، اس لیے اجلاس سے پہلے ہی وفاق المدارس پاکستان کے سربراہ حنیف جالندھری نے اسے مسترد کرتے ہوئے اردو کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ کیا۔ اتحاد تعلیماتِ مدارس پاکستان کے سیکرٹری جنرل مفتی منیب الرحمٰن نے بھی ڈاکٹر طاہر رفیق کے نام ایک خط میں سنگل کریکولم کونسل کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اردو کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ملّی مجلسِ شوریٰ، پاکستان قومی زبان تحریک اورسٹیزن کونسل آف پاکستان بھی اس تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطالبہ کرچکی ہیں۔ 18 جولائی کو ملّی یک جہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ نے منصورہ میں ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا جس میں ملّی یک جہتی کونسل میں شامل دینی، سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ ماہرینِ تعلیم اور دانش وروں نے شرکت کی۔ جناب لیاقت بلوچ کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں نیشنل ایسوسی ایشن فار ہائر ایجوکیشن کے نمائندے پروفیسر محمد ابراہیم خان، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے سربراہ مولانا زبیر احمد ظہیر، مولانا زاہد القاسمی، مولانا ضیاء اللہ، تنظیم اساتذہ کے سربراہ ڈاکٹر میاں محمد اکرم، اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن پنجاب یونیورسٹی کے سابق صدر ڈاکٹر ممتازسالک، پاکستان قومی زبان تحریک کے سربراہ ڈاکٹر شریف نظامی، غزالی ٹرسٹ کے چیئرمین وقاص انجم جعفری، پروفیسر سلیم ہاشمی، حافظ محمد اشرف، فاطمہ قمر اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیاکہ ملّی یک جہتی کونسل کا یہ اجلاس یکساں نصابِ تعلیم کے نام پر عالمی طاغوتی اور صہیونی سیکولر ایجنڈے کو مسلط کرنے کی حکومتی کوششوں کی پُرزور مذمت کرتا ہے اور حکومت پر واضح کرتا ہے کہ ماضی کی طرح یہ کوشش بھی ناکام ہوگی۔ قومی زبان اردو کے بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تجویز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ طلبہ، اساتذہ، والدین، علماء کرام، دینی مدارس، منبر و محراب اور عوام کی طاقت کے ساتھ ان شاء اللہ پاکستان کو سیکولر ایجنڈے اور سیکولر طبقے سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جائے گا۔ اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ
-1 یہ اجلاس مجوزہ نصاب کو مسترد کرتے ہوئے اس کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ نصاب سازی، درسی کتب کی تدریس اور نظام امتحان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قراردادِ مقاصد، آئین کے آرٹیکل 31 اور دیگر دستوری شقوں کو سامنے رکھتے ہوئے وسیع البنیاد قومی نصاب کونسل بنائی جائے، جس میں محبِ وطن، محبِ اسلام اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تعلیمی ماہرین، علماء کرام، تنظیمات مدارسِ دینیہ اور دانش ور حضرات شامل ہوں۔ جبکہ قومی نصاب پالیسی ورک کو ایکٹ کی شکل میں پارلیمان سے منظور کرایا جائے۔
-2 نیا نصاب اسلامی اقدار اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کے مقاصد و اہداف میں واضح ہو کہ اس کے ذریعے طلبہ کو اچھا باعمل مسلمان بنایا جائے گا۔
-3 ہر قسم کے بیرونی امتحانات پر پابندی لگادی جائے۔ ہر سطح پر واحد قومی امتحان اور یکساں سرٹیفکیشن کا نظام لایا جائے۔
-4 اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ انگریزی ذریعہ تعلیم پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ تاہم اجلاس انگریزی کو بحیثیت زبان سیکھنے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ابتدائی تعلیم اردو کے ساتھ مادری مقامی زبانوں میں دینے پر بھی توجہ دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
-5 دینی مدارس کے ثانویہ اور خاصہ کے لیے امتحانات متعلقہ بورڈ کے میٹرک اور انٹر کے امتحان کے مساوی ہوں۔
-6 دینی مدارس کے شہادۃ العالمیہ پاس نوجوانوں کو ایم ایس، ایم فل، پی ایچ ڈی عام یونیورسٹیوں سے کرنے کی اجازت ہو، نیز سول سروس کے تمام درجوں کے لیے مقابلے کے امتحان میں شامل ہونے کی بھی اجازت ہو، اس مقصد کے لیے قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ کے متعلقہ مضامین کو اعلیٰ سروسز کے امتحانی نصاب میں شامل کیا جائے۔
-7 عربی زبان کو نصاب کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے کیونکہ یہ آئین کا تقاضا بھی ہے۔
-8 نصاب کو ایمانیات، عبادات، سیرتِ طیبہ، مشاہیر اسلام، اسلامی تہذیب اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق بنادیا جائے۔
-9 نجی تعلیمی اداروں کی مؤثر نگرانی کے لیے اتھارٹی قائم کی جائے۔ اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ ملّی یک جہتی کونسل پاکستان نصابِ تعلیم کے نام پر غیر ملکی ایجنڈے کو مسلط کرنے کے عزائم کو ناکام بنانے اور نصابِ تعلیم کو اسلامی نظریے اور نظریۂ پاکستان کے مطابق بنانے کے لیے نگران کمیٹیاں قائم کرے گی۔