کورونا کا عذاب پاکستان پر پنجے گاڑ چکا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ دوستوں رشتہ داروں شناسائوں اور دل کے ٹکڑے جیسی قربت رکھنے والے خاک میں گم نہ ہورہے ہوں۔ اگر صرف فیس بک پر نظر دوڑائیں تو روزانہ کم سے کم ایک درجن تعزیتی پیغامات لکھ رہا ہوں۔ کسی کا بھائی کسی کا بیٹا اور کسی کے ماں باپ رخصت ہورہے ہیں اور اسلام آباد سے بس ایک ہی آواز آرہی ہے کہ گھبرانا نہیں۔ جس عفریت کے بارے میں وزیر اعظم صاحب نے فرمایا تھا کہ یہ تو بس عام سا فلو ہے اس کے موت کے پروانے گھر پر گھر اجاڑ رہے ہیں اور وزیر اعظم کے ساتھی خود کی صفوں میں چھانٹی کے بجائے عوام کو کوسنے دے رہے ہیں ان کو جاہل قرار دے رہے ہیں اور گویا اس ہولناک وبا کی آندھی کی طرح پھیلائو کی ذمہ دار عوام پاکستان ہیں حکمران پاکستان نہیں ہیں۔وبا کی اسی آندھی میں میرا دل بھی اجڑ گیا۔ میرا پیارا دوست پچاس سال کا ساتھی اور انسانوں کا انسان جس کی دوستی شفقت محبت اور عظمت کے لیے الفاظ نہیں ہیں ہمارا سب کا ساتھی سب دوستوں کا پیارہ دوست محمد فیضی بھی اس وبا کا شکار ہوگیا اور۱۵ جون کی صبح دار فانی سے کوچ کرگیا۔دوست محمد فیضی ایک پر وقار قابل اعتماد اور انسان دوست شخصیت تھے اور سب سے بڑی بات کہ وہ عاشق رسولﷺ تھے۔ان کی محافل میلاد میں تقاریر سنیں تو گویا رسولﷺ سے محبت اور عقیدت کے جذبے سے سرشار تھے۔ان سے شناسائی جو پھر گزرتے مہینوں اور برسوں کے دوران مضبوط اور توانا دوستی میں تبدیل ہوگئی زمانہ طالبعلمی کے بین الکلیاتی مباحثوں سے شروع ہوئی اور پھر دوست محمد کے عملی سیاست میں قدم رکھنے تک مضبوط سے مضبوط تر ہوگئی۔ مباحثوں کے دور میں دوست محمد ایک حریف بھی تھے اور اچھے دوست بھی۔اس سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ اس دور میں تعلیمی ماحول کس قدر مختلف تھا۔مباحثوں میں ہم ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے مگر ان سے باہر ہم ایک دوسرے کے دوست تھے۔ کسی کا جیتنا اور کسی کا ہارنا کوئی انا کا یا دشمنی کا معاملہ نہیں ہوتا تھا بلکہ مباحثوں کے اختتام پر ہم ایک دوسرے کے اچھے دلائل کا اعتراف بھی کرتے اور جیتنے والے کو کھلے دل سے مبارکباد بھی دیتے۔ دوست محمد کا مقام ان دنوں میں بھی عام مقرر سے ذرا اوپر ہی ہوتا۔جس مباحثے میں وہ آجاتے ہم سب پہلے انعام کا تصور چھوڑ کر دوسرے یا تیسرے انعام کی کاوشوں میں لگ جاتے۔ دوست محمد کے ساتھ کچھ اور مقرر بھی تھے جن کی تقاریر کسی بھی مباحثے کو چار چاند لگا دیتی تھیں۔ ان میں خوش بخت۔ ظہور الحسن بھوپالی۔ سید احمد۔ اسد اشرف ملک۔ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی۔جنید فاروقی وغیرہ شامل تھے۔دوست محمد اس وقت بھی اور عملی ذندگی میں اپنی وفات تک بھی سب کے ساتھ شرافت، متانت اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ان کا یہی طرز عمل ان کے جامعہ کراچی کے سیاسی حریفوں کے ساتھ ہوتا۔ اس زمانے میں قتل و غارت گری کا وہ ماحول تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچا تھا اور اگر بہت مخالفت ہوتی تو وہ جلسے جلوسوں کے دوران دلچسپ مگر شائستہ جملے بازی کے ذریعہ ہوتی تھی۔ملک کی طالبعلموں کی سیاست واضح طور پر دائیں اور بائیں بازو کے درمیان بٹی ہوئی تھی دوست محمد جن کی تربیت اور پرورش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی تھی جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے حامی تھے اور جب طلبہ یونین کے سالانہ انتخابات کا وقت آتا تو وہ جامعہ کراچی کے آرٹس بلاک میں اپنے پرزور تقاریر سے طلبہ کو متاثر کررہے ہوتے تھے۔ ان کا نام بھی ایک وقت جامعہ کراچی کی یونین کے صدر کے طور پر سامنے آتا رہا مگرپھر ایسا ممکن نہ ہوسکا کیونکہ یحییٰ خان کا مارشل لگ گیا اور انتخابات ہی نہ ہوسکے۔
1970ء کے انتخابات کے بعد جمعیت علما پاکستان سندھ اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور اس میں شامل ہمارے مشترکہ دوست جناب ظہور الحسن بھوپالی سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے جس کی وجہ سے گویا ہم سب اس جماعت سے منسلک ہوگئے اور اس میں دوست محمد فیضی بھی شامل تھے جن کی اس جماعت کا ہر فرد عزت کرتا تھا اوروہ عام طور پر مشاورت میں شامل کیے جاتے تھے۔ بالکل نو جوانی میں ان کی قابلیت کے جوہر سب پر عیاں ہونے لگے تھے اور مجھے یاد ہے کہ کئی اہم مقامات پر ان کی رائے کو سنجیدگی سے لیا گیا اور اس کے اچھے نتائج بر آمد ہوئے۔میں تو 1976ء میں کینیڈا چلا گیا اور شاید اچھا ہی ہوا کہ میرے جانے کے کچھ دن بعد ہی دوست محمد اور سندھ کے حزب اختلاف کے سارے ممبران بھٹو صاحب کے غیظ و غضب کا شکار ہوکر سکھر جیل میں مقید ہوئے۔ دوست محمد بھی اسوقت پی این اے کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے امیدوار تھے اور جب انہیں مرکزی قیادت کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کا حکم ملا انہوں نے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا اور انتخابات سے دستبردار ہوگئے جس کی پاداش میں انہیں سکھر جیل بھیج دیا گیا۔ سنا ہے کہ وہاں جیل میں دوست محمد اور پروفیسر غفور میں بیڈ منٹن کے اچھے مقابلے ہوئے جس کی تفصیل مجھے بعد میں دوست محمد نے سنائی۔ اس وقت بھی دوست محمد جنہوں نے کبھی جیل جانے کی سوچی بھی نہ تھی پر عزم رہے اور ان کے پائے استقلال میں کوئی لرزش نہیں آئی۔بظاہر تو دوست محمد ایک بہت ہی نرم دل انسان تھے مگر جب اصولوں کی بات آجاتی تو وہ کسی چٹان سے کم نہیں تھے۔وہ سالہاسال سیاست میں رہے اور مختلف ادوار میں آٹھ سال تک صوبائی وزیر رہے۔ مگر جس جماعت کے ساتھ رہے اصولوں کی بنیاد پر رہے اور کبھی بھی اپنی مقبولیت یا شہرت کا سودا نہیں کیا۔ میںذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کس کس جماعت نے ان کو اپنی صفوں میں شامل ہونے کی دعوت دی بلکہ کچھ جماعتیں تو ایسی بھی تھیں کہ جن کی دعوت کوئی بھی اپنی زندگی دائو پر لگا کر ہی مسترد کرسکتا تھا مگر فیضی نے ان کی دعوت قبول نہیں کی اور گوشہ نشینی کو بااصول سیاست پر ترجیح دی۔
موجودہ حکومت بھی بد عنوانی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اقتدار میں آئی تھی اور اس سے پہلے بھی اسی گھوڑے پر بیٹھ کر کئی لوگ ایوان اقتدار تک پہنچے مگر کسی نے عملی طور پر اصولی اور ایماندار سیاست کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔جناب دوست محمد مختلف ادوار میںتقریباً 8 سال وزیر رہے مگر ان کا ریکارڈ بالکل شفاف اور ان کے کیے اقدامات ان کی ایمانداری اور اصول پرستی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ایک واقع کا تو میں خود چشم دید گواہ ہوں، جب یہ ٹرانسپورٹ منسٹر سندھ تھے تو ایک وفد ملنے آیا۔ میں بھی اس وقت ان کے دفتر میں تھا، وفد نے بتا یا کہ وہ نئی نئی بنی کراچی حیدر آباد سپر ہائی وے پر عوام کے لیے ائیر کنڈیشن وین چلانا چاہتے ہیں مگر محکمہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے اور وہ کئی ہفتوں سے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔دوست محمد نے فوری طور پر سیکرٹری ٹرانسپورٹ کو طلب کیا اور اس سے وضاحت مانگی جو ان کو وہی گھسے پٹے جواز دیتا رہا جو سرکاری محکمے دیتے ہیں۔ دوست محمد نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کوئی عوام کی سہولت میں اضافہ کرنا چاہتا اور آرام دہ ٹرانسپورٹ فراہم کرنا چاہتا ہے اور ہم اسے روک رہے ہیں۔ انہوں نے حکم جاری کیا کہ معقول کرایوں کی منظوری کے بعد ایک ہفتے میں ان حضرات کو پرمٹ جاری کیا جائے۔ یہ آپ کو یاد ہوگا کراچی اور حیدر آباد کے درمیان چلنے والی پہلی بلو لائین کمپنی تھی جس نے دونوں شہروں کے درمیان سفر آرام دہ اور محفوظ بنایا۔وفد کے ارکان بھی حیران رہ گئے۔نہ وزیر صاحب کا کوئی مطالبہ نہ کہیں سے میز کے نیچے سے فرمائش انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ پاکستان میں ہی ہیں۔ دوست محمد کی یہی اصولی سیاست اور نیک نامی تھی جس کی وجہ سے مرتے دم تک ہر چھوٹا بڑا امیر رئیس اور ادنیٰ کارکن بھی ان کی بے پناہ عزت کرتا تھا۔زیادہ تر کارکن انہیں بھیا کہتے تھے اور وہ تھے بھی واقعی اپنے کارکنوں اور ہم سب دوستوں کے بھی بھیا جو دن رات کسی بھی وقت کسی بھی جائز کام کے لیے آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔
پاکستان میں متوسط طبقے کی سیاست کا بڑا ڈھنڈورہ پیٹا گیا ہے مگر افسوس اس کے نام پر بر سر اقتدار آنے والوں کی ذندگی بھی وڈیرہ شاہی سیاست کا نمونہ پیش کرتی رہی ہے۔ دوست محمد نے متوسط طبقے کی سیاست کا عملی نمونہ پیش کیا۔ان کی سیاست اور سوچ صحیح معنوں میںاس طبقہ کی نمائندہ تھی۔ایک واقعہ جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا میری اس بات کی شہادت دیتا ہے۔ جب یہ صوبائی وزیر تھے تو ایک دن ہم رات کو ان کے گھر پر بیٹھے تھے کہ دوست محمد نے کہا کہ گھر والے پکنک منانے گھارو گئے ہوئے ہیں کیوں نہ ہم بھی وہیں چل کر رات کا کھانا کھائیں۔ گھارو کراچی سے کوئی ۶۰ کلومیٹر ہے اور کراچی کے لوگوں کے لیے تفریحی مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ رات کا وقت ہونے کی وجہ سے دوست محمد نے کہا کہ پولیس گارڈ کو بھی جو ان کے گھر کے باہر بیٹھا تھا بٹھالیتے ہیں۔جب دوست محمد نے گارڈ سے کہا کہ تم بھی گاڑی میں پیچھے بیٹھ جائو تو وہ کچھ سوچ میں پڑ گیا اور پھر سرگوشی میں دوست محمد سے کہا کیا میں کچھ اضافی کارتوس بھی لے لوں۔ہم دونوں کو اندازہ ہوا کہ بیچارہ پولیس والا سمجھ رہا ہے کہ صاحب کسی مخالف کے ساتھ کوئی حرکت کرنے جارہے ہیں۔ اسے اس بات کا تو خیال نہیں کہ جو ہونے جارہا ہے وہ قانونی ہے یا غیر قانونی مگر اس بات کی فکر ہے کہ جب مقابلہ ہو تو کارتوس کم نہ پڑجائیں۔ دوست محمد نے گارڈ کو ڈانٹا اور کہا ہمیں تو اس بندوق کی بھی ضرورت نہیں اسے پیچھے ڈکی میں ڈال دو۔ میں سوچتا رہ گیا کہ دوست محمد کی سیاست ان کے علاقے کی سیاست سے کس قدر مختلف ہے۔ گارڈ کو ایک منٹ کے لیے بھی خیال نہیں آیا کہ صاحب جو کچھ کرنے جا رہا ہے قانونی ہے یا غیر قانونی۔ اسے وڈیرہ شاہی سیاست کی عادت تھی جہاں یہ سب عام ہے۔ دوست محمد بیچارے کے لیے اس کا طرز عمل حیران کن تھا۔ یہ تھا ان کی سیاست کا انداز۔
بہت سے لوگوں کو اس بات پر بھی حیرت ہوتی تھی کہ دوست محمد مختلف ادوار میں آٹھ سال وزیر اور اس کے علاوہ سیاسی طور پر ایک مضبوط اور مقبول راہ نما ہونے کے باوجود آخر وقت تک ملازمت پیشہ رہے اور اب بھی ایک کمپنی میں ملازمت کررہے تھے۔ پاکستان میں شاید یہ بات لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے کیونکہ ہم اپنے راہ نمائوں کے بارے میں باور کر لیتے ہیں کہ جب اقتدار کے ایوانوں میں دو چار پانچ سال گزار لیے تو پھر کسی ملازمت کی کیا ضرورت۔ مغرب میں بالکل وہی ہوتا ہے جو دوست محمد نے کیا۔ امریکی صدور بھی عہدہ چھوڑنے کے بعد یا تو جامعات میں لیکچر دے کر یا کتابیں لکھ کر یا کسی اور طریقے سے حق حلال کی روزی کما کر اپنا گھر چلاتے ہیں اور اسی طرح مغرب میں سارے ممبر پارلیمان بھی جب ان کی معیاد ختم ہوجاتی ہے اور وہ دوبارہ منتخب نہیں ہوتے تو جو بھی ان کا پیشہ ہے اس میں لوٹ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شرمندگی کی بات نہیں بلکہ ان کی عظمت ہے جیسے ہمارے دوست محمد کی شان تھی کہ کبھی حق حلال کے راستے سے نہ ہٹے۔ ان کی یہی خوبیاں تھیں کہ جس کی وجہ سے ہر طبقہ فکر کے لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ عام طور پر دعوتوں میں جاتا اور جیسے ہی وہ کسی محفل میں داخل ہوتے سب چھوٹے بڑی ان کی طرف متوجہ ہوجاتے اورمیزبان کی تو گویا عید ہوجاتی جو ان کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ چھوڑ تا اور جب تک وہ رہتے ان کی طرح طرح سے خدمت کرتا۔ دوست محمد بھی ہر محفل کی جان تھے۔ ان کے برجستہ جملے ان کی حس مزاح اور ان کی علمی قابلیت ہر محفل کو چار چاند لگا دیتی تھی۔ دوست محمد نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ وہ ہمارے ہی نہیں پورے معاشرے کے دوست اور ہمدرد بن کے جئے۔دوست محمد کی جدائی ان کے اہل خانہ اور دوستوں کے لیے بھی بڑی آزمائش ہے۔ ایک ایسی دنیا میں رہنا جس میں دوست محمد نہ ہو۔نہ جانے ہم یہ کیسے کر پائیں گے۔