قربانی اور اس کے احکام و مسائل

قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی خود مذہب یا انسان کی تاریخ ہے۔ انسان نے مختلف ادوار میں عقیدت و فدائیت، سپردگی و جاں نثاری، عشق و محبت، عجز و نیاز، ایثار و قربانی اور پرستش و عبدیت کے جو جو طریقے اختیار کیے، خدا کی شریعت نے انسانی نفسیات اور جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے وہ تمام ہی طریقے اپنی مخصوص اخلاقی اصطلاحات کے ساتھ خدا کے لیے خاص کردیے۔ انسانوں نے اپنے معبودوں کے حضور جان کی قربانیاں بھی پیش کیں، اور یہی قربانیاں اور یہی قربانی سب سے اعلیٰ مظہر ہے۔ خدا نے اس کو بھی اپنے لیے خاص کرلیا اور اپنے سوا ہر ایک کے لیے اس کو قطعاً حرام قرار دے دیا۔

انسانی تاریخ کی سب سے پہلی قربانی

انسانی تاریخ میں سب سے پہلی قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی ہے۔ قرآن پاک میں بھی اس قربانی کا ذکر ہے:۔
’’اور ان کو آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی ٹھیک ٹھیک سنا دیجیے، جب ان دونوں نے قربانی کی تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی‘‘۔ (المائدہ: 27)۔
دراصل ایک نے جس کا نام ’’ہابیل‘‘ تھا، دل کی آمادگی سے رضائے الٰہی کی خاطر بہترین دنبے کی قربانی پیش کی، اور دوسرے نے جس کام نام ’’قابیل‘‘ تھا، بے دلی سے ناکارہ غلے کا ایک ڈھیر پیش کردیا۔ ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلا ڈالا اور یہ مقبولیت کی علامت تھی، لیکن دوسری کو آگ نے نہیں جلایا، اور یہ مقبول نہ ہونے کی علامت تھی۔

قربانی تمام الٰہی شریعتوں میں

قربانی کا حکم تمام الٰہی شریعتوں میں ہمیشہ موجود رہا ہے، اور ہر امت کے نظامِ عبادت میں اسے ایک لازمی جز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
’’اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ وہ ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے ان کو عطا فرمائے ہیں‘‘۔ (الحج:34)۔
یعنی قربانی ہر شریعت کے نظامِ عبادت میں موجود رہی ہے، البتہ مختلف زمانوں، مختلف قوموں اور مختلف ملکوں کے نبیوں کی شریعتوں میں ان کے حالات کے پیش نظر قربانی کے قاعدے اور تفصیلات جدا جدا رہی ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ تمام آسمانی شریعتوں میں مشترک رہی ہے کہ جانور کی قربانی صرف اللہ کے لیے کی جائے اور اسی کا نام لے کر کی جائے۔
’’پس ان جانوروں پر صرف اللہ کا نام لو‘‘۔ (الحج:36)۔
جانوروں پر اللہ ہی کا نام لینا بڑا بلیغ اندازِ بیان ہے۔ یعنی ان کو ذبح کرو تو اللہ ہی کے نام سے ذبح کرو اور اسی کے نام پر اسی کی رضا کے لیے ذبح کرو، وہی ہے جس نے تمہارے لیے یہ جانور مہیا کیے ہیں، وہی ہے جس نے ان کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے، وہی ہے جس نے تمہارے لیے ان میں گوناگوں فائدے رکھے ہیں۔

قربانی ایک عظیم یادگار

اس وقت دنیا کے ہر ہر خطے میں مسلمان جو قربانی کرتے ہیں اور ذبح عظیم کا جو منظر پیش ہوتا ہے، وہ دراصل حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا فدیہ ہے۔ قرآن میں اس عظیم قربانی کے واقعے کو پیش کرکے اس کو اسلام، ایمان اور احسان قرار دیا ہے۔ قربانی دراصل اس عزم و یقین اور سپردگی و فدائیت کا عملی اظہار ہے کہ آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب خدا ہی کا ہے اور اسی کی راہ میں یہ سب قربان ہونا چاہیے۔ یہ دراصل اس حقیقت کی علامت اور پیش کش ہے کہ اس کا اشارہ ہوگا تو ہم اپنا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ اسی عہد و پیمان اور سپردگی و فدائیت کا نام ایمان، اسلام اور احسان ہے۔
’’پس جب وہ (اسمٰعیل) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچے تو (ایک دن) ابراہیمؑ نے ان سے کہا: پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ غورکرو اب کیا ہونا چاہیے۔ بیٹے نے (بلا تامل) کہا: ابا جان! آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کر ڈالیے، ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔ آخر کو جب باپ بیٹے دونوں نے اللہ کے آگے سرِتسلیم خم کردیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو منہ کے بل (زمین پر) گرا دیا تو ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیم! تم نے خواب سچ کر دکھایا، ہم احسان کی روش پر چلنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ دراصل یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی اور ہم نے ایک عظیم قربانی فدیے میں دے کر ان (یعنی اسمٰعیل) کو چھڑا لیا، اور ہم نے پیچھے آنے والی امت میں ابراہیم کی یہ سنت (یادگار) چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیم پر، ہم اپنے فداکاروں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے‘‘۔ (الصّٰفٰت: 102 تا 111) ۔
یعنی رہتی زندگی تک امت ِ مسلمہ میں قربانی کی یہ عظیم الشان یادگار حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا فدیہ ہے، اللہ نے اس فدیے کے عوض اسمٰعیل علیہ السلام کی جان چھڑائی کہ اب قیامت تک آنے والے فداکار ٹھیک اسی تاریخ کو دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری اور جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ کرتے رہیں۔ قربانی کی یہ بے بدل سنت جاری کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام تھے، اور اس کو تاقیامت قائم رکھنے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے فداکار ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی اور فداکاری کی روح پوری زندگی میں جاری و ساری رکھنے کی تعلیم دیتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی ہے:
’’کہہ دیجیے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلا فرماں بردار ہوں‘‘۔ (الانعام: 163-162)۔
اللہ پر پختہ ایمان اور اس کی توحید پر کامل یقین کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری تگ و دو اسی کی رضا کے لیے مخصوص ہو، اور وہ سب کچھ اسی کی راہ میں قربان کرکے اپنے ایمان و اسلام اور وفاداری و جاں نثاری کا ثبوت دے۔

قربانی کا حکم ساری امت کے لیے ہے

قربانی کی اصل جگہ تو وہی ہے، جہاں ہر سال لاکھوں حاجی اپنی اپنی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ دراصل یہ حج کے اعمال میں سے ایک عمل ہے، لیکن رحیم و کریم خدا نے اس عظیم شرف سے اُن لوگوں کو بھی محروم نہیں رکھا ہے جو مکہ سے دور ہیں اور حج میں شریک نہیں ہیں۔ قربانی کا حکم صرف اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بیت اللہ کا حج کررہے ہوں، بلکہ یہ عام حکم ہے اور سارے ہی ذی حیثیت مسلمانوں کے لیے ہے، اور یہ حقیقت احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی شہادت ہے کہ
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دس سال تک مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے اور برابر ہر سال قربانی کرتے رہے‘‘۔ (ترمذی، مشکوٰۃ باب الاضحیہ)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’کوئی شخص وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘۔ (جمع الفوائد بحوالہ القزوینی کتاب الاضاحی)
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحیٰ کے دن فرمایا: ’’جس نے عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کرلیا اس کو دوبارہ اپنی قربانی کرنی چاہیے، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی، اس کی قربانی پوری ہوگئی اور اس نے ٹھیک مسلمانوں کے طریقے کو پالیا‘‘۔
ظاہر ہے عیدالاضحیٰ کے دن مکہ میں کوئی ایسی نماز نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنتِ مسلمین کے خلاف ہو، لامحالہ یہ واقعہ مدینہ منورہ کا ہے اور اسی کی شہادت حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی پیش فرماتے تھے، نیز ابن عمرؓ ہی کا بیان ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں قربانی کیا کرتے تھے‘‘۔
قربانی کے روحانی مقاصد:۔
قرآن پاک نے قربانی کے دو اہم مقاصد کی طرف اشارے کیے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ قربانی دراصل وہی ہے جو ان مقاصد کا شعور رکھتے ہوئے کی جائے:۔

۔1۔ قربانی کے جانور خدا پرستی کی نشانی ہیں

’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے ’’شعائر اللہ‘‘ قرار دیا ہے‘‘۔ (الحج:36)۔
’’شعائر‘‘ ’’شعیرہ‘‘ کی جمع ہے، شعیرہ اس محسوس علامت کو کہتے ہیں جو کسی روحانی اور معنوی حقیقت کی طرف متوجہ کرے اور اس کی یاد کا سبب اور علامت بنے۔ قربانی کے یہ جانور اس روحانی حقیقت کی محسوس علامتیں ہیں کہ قربانی کرنے والا دراصل ان جذبات کا اظہار کررہا ہے کہ ان جانوروں کا خون درحقیقت میرے خون کا قائم مقام ہے، میری جان بھی خدا کی راہ میں اسی طرح قربان ہے جس طرح میں اس جانور کو قربان کررہا ہوں۔

۔2۔ قربانی اللہ کی نعمت کا عملی شکر ہے

’’اللہ نے اس طرح چوپایوں کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو‘‘۔ (الحج: 36)۔
’’اللہ نے اس طرح چوپایوں کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تاکہ تم اس کی بخشی ہوئی ہدایت کے مطابق اس کی بڑائی اور کبریائی کا اظہار کرو‘‘۔ (الحج:36)۔
یعنی ان جانوروں کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا دراصل اس حقیقت کا اعلان و اظہار ہے کہ جس اللہ نے یہ نعمت عطا کی ہے اور جس نے ان کو ہمارے لیے مسخر کررکھا ہے، وہی ان کا حقیقی مالک ہے۔ قربانی اس حقیقی مالک کا شکریہ بھی ہے اور اس بات کا عملی اظہار بھی کہ مومن دل سے اللہ کی بڑائی، عظمت اور کبریائی پر یقین رکھتا ہے۔
جانور کے گلے پر چھری رکھ کر وہ اس حقیقت کا عملی اظہار و اعلان کرتا ہے اور زبان سے بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتا ہے۔

قربانی کی روح

اسلام سے پہلے لوگ قربانی کرکے اس کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لاکر رکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ اللہ کو تمہارے اس گوشت اور خون کی ضرورت نہیں۔ اس کے یہاں تو قربانی کے وہ جذبات پہنچتے ہیں جو ذبح کرتے وقت تمہارے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں۔ قربانی گوشت اور خون کا نام نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کا نام ہے کہ ہمارا سب کچھ اللہ کے لیے ہے اور اسی کی راہ میں قربان ہونے کے لیے ہے۔
قربانی کرنے والا صرف جانور کے گلے پر ہی چھری نہیں پھیرتا بلکہ وہ ساری پسندیدہ خواہشات کے گلے پر بھی چھری پھیر کر ان کو ذبح کر ڈالتا ہے۔ اس شعور کے بغیر جو قربانی کی جاتی ہے، وہ ابراہیم و اسمٰعیل علیہ السلام کی سنت نہیں بلکہ ایک قومی رسم ہے، جس میں گوشت اور پوست کی فراوانی تو ہوتی ہے لیکن وہ تقویٰ ناپید ہوتا ہے جو قربانی کی روح ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تمہاری جانب سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (الحج: 37)
اللہ کی نظر میں اُس قربانی کی کوئی قیمت نہیں جس کے پیچھے تقویٰ کے جذبات نہ ہوں۔ اللہ کے دربار میں وہی عمل مقبول ہے، جس کا محرک اللہ کا تقویٰ ہو۔
’’اللہ صرف متقیوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے‘‘۔ (المائدہ 27)۔

اونٹ کی قربانی کا روحانی منظر

’’اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے خدا پرستی کی نشانی بنا دیا ہے، اس میں تمہارے لیے خیر ہی خیر ہے، پس ان کو قطار در قطار کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو اور جب (گر کر) ان کے پہلو زمین پر ٹک جائیں تو خودکھائو اور اُن کو بھی کھلائو جو مانگنے سے بچتے ہیں، اور اُن کو بھی جو مانگتے ہیں‘‘۔ (الحج:36)
اونٹوں کی قربانی کا طریقہ یہ ہے کہ ان کو ایک قطار میں کھڑا کرکے زور سے ان کے حلقوم میں نیزہ مارا جاتا ہے، جس سے خون کا ایک فوارہ چھوٹتا ہے، اور جب خون نکل چکتا ہے تو وہ زمین پر گر پڑتے ہیں۔ قربانی کے اس منظر کو ذرا تصور میں جمائیے اور پھر غور کیجیے کہ جانوروں کی یہ قربانی کیا ہے؟ یہی تو ہے کہ اسی طرح ہماری جانیں بھی اللہ کی جناب میں قربان ہونے کے لیے حاضر ہیں۔ دراصل یہ قربانی اپنی جان کی قربانی کے قائم مقام ہے، اس معنویت کے ساتھ اونٹوں کی قربانی پر غور کیجیے… ایسا محسوس ہوگا کہ گویا میدانِ جہاد میں خدا پرستوں کی صفیں بندھی ہوئی ہیں، ان کے حلقوم اور سینوں میں تیر پیوست ہورہے ہیں، خون کے فوارے چھوٹ رہے ہیں، لالہ زار زمین ان کی جاں نثاری کا ثبوت دے رہی ہے، اور وہ ایک ایک کرکے خدا کے قدموں میں گر کر اپنی جانیں پیش کررہے ہیں۔

قربانی کا طریقہ اور دعا

جانور ذبح کرنے کے لیے اس طرح لٹایا جائے کہ اس کا رخ قبلہ کی جانب رہے، اور چھری خوب تیز کرلی جائے، جہاں تک ہو اپنی قربانی کا جانور خود اپنے ہاتھ سے ہی ذبح کیا جائے، اور کسی وجہ سے ذبح نہ کرسکے تو کم از کم اس کے پاس ہی کھڑا رہے۔ ذبح کرتے وقت پہلے یہ دعا پڑھے:
’’میں نے ہر طرف سے یکسو ہوکر اپنا رخ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر ٹھیک اس خدا کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے قطعاً نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اے اللہ! یہ تیرے ہی حضور پیش اور تیرا ہی دیا ہوا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)۔
بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے، ذبح کرنے کے بعد یہ کہے:۔
’’اے اللہ! تُو اس قربانی کو میری جانب سے قبول فرما، جس طرح تُو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی قربانی قبول فرمائی، دونوں پر درود و سلام ہو‘‘۔
(اگر کسی اور کی جانب سے ذبح کررہا ہو تو ’’مِن‘‘ کہنے کے بجائے ’’مِن‘‘ کے بعد اس کا نام لے، اگر ایک شخص ہو تو ایک کا نام لے اور چند ہوں تو چند کا نام لے)۔

قربانی کی فضیلت و تاکید

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی فضیلت اور بے بہا اجر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
1۔ ’’اللہ کے نزدیک نحر کے دن (یعنی دسویں ذوالحجہ کو) قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں ہے، قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے نہیں پاتا کہ اللہ کے یہاں مقبول ہوجاتا ہے، لہٰذا قربانی دل کی خوشی اور پوری آمادگی سے کیا کرو‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ)۔
2۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ہمارے لیے کیا اجر و ثواب ہے؟ ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرامؓ نے کہا: اور اون کے بدلے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فرمایا: ہاں اون کے ہر ہر روئیں کے بدلے میں بھی ایک نیکی ملے گی‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ)۔
3۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمۃ الزہراؓ سے فرمایا: فاطمہ اٹھو، آئو اپنی قربانی کے جانور کے پاس کھڑی ہو، اس لیے کہ اس کا جو قطرہ بھی زمین پر گرے گا، اس کے بدلے میں اللہ تمہارے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ حضرت فاطمہؓ نے پوچھا: یہ خوش خبری ہم اہلِ بیت کے لیے ہی مخصوص ہے یا ساری امت کے لیے ہے؟ ارشاد فرمایا: ہمارے اہلِ بیت کے لیے بھی ہے اور ساری امت کے لیے بھی‘‘۔ (جمع الفوائد، بحوالہ البزار)۔
4۔ ’’حضرت ابن بریدہؓ اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن بغیر کچھ تناول فرمائے نماز کو نہیں جاتے تھے اور عیدالاضحیٰ کے دن نماز عیدالاضحیٰ پڑھنے سے پہلے کچھ نہیں کھاتے تھے، اور جب واپس تشریف لاتے تو قربانی کے جانور کی کلیجی پہلے تناول فرماتے تھے‘‘۔ (ترمذی، احمد)۔

قربانی کرنے والے کے لیے مسنون عمل

جو شخص بھی قربانی کا ارادہ کرے وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد نہ جسم کے کسی حصے کے بال کاٹے اور مونڈے، اور نہ ناخن کتروائے۔ پھر جب قربانی کا جانور ذبح کرلے تو بال اور ناخن وغیرہ بنوائے، یہ عمل مسنون ہے، واجب نہیں ہے۔ اور جو شخص قربانی کی وسعت نہ رکھتا ہو اُس کے لیے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ قربانی کے دن اپنے بال بنوائے، ناخن کٹوائے، خط بنوائے اور زیرناف کے بال صاف کرلے۔ اللہ کے نزدیک اس کا یہی عمل قربانی کا قائم مقام بن جائے گا۔
حضرت اُمّ سلمہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس کو قربانی کرنا ہو وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد نہ اپنے بال بنوائے اور نہ ناخن کٹوائے، یہاں تک کہ وہ قربانی کرلے‘‘۔ (مسلم جمع الفوائد)۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اضحیٰ کے دن (یعنی 10 ذوالحجہ کو) عید منائوں، اللہ نے اس دن کو اس امت کے لیے عید کا دن قرار دیا ہے۔ ایک شخص نے پوچھا: یارسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر میرے پاس ایک ہی بکری ہو جو کسی نے دودھ کے لیے مجھے دے رکھی ہو تو کیا میں اسی کی قربانی کروں؟ ارشاد فرمایا: نہیں، تم اس کی قربانی نہ کرو بلکہ (قربانی کے دن) اپنے بال بنوا لینا، اپنے ناخن کٹوا لینا، اپنی مونچھیں کتروا کے درست کرا لینا اور زیرناف کے بال صاف کرلینا، بس اللہ کے نزدیک یہی تمہاری پوری قربانی ہوجائے گی‘‘، (نسائی، ابودائود)۔

قربانی کے جانور اور ان کے احکام

1۔ قربانی کے جانور یہ ہیں: اونٹ، دنبہ، بکرا، بکری، بھیڑ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا۔ ان جانوروں کے سوا اور کسی جانور کی قربانی جائز نہیں۔
2۔ دنبہ، بکرا، بکری، بھیڑ کی قربانی صرف ایک آدمی کی طرف سے ہوسکتی ہے، ایک سے زائد کئی آدمی اس میں حصہ دار نہیں ہوسکتے۔
3۔ گائے، بھینس اور اونٹ میں سات حصے ہوسکتے ہیں، سات سے زائد نہیں، مگر اس کے لیے دو شرطیں ہیں، پہلے یہ کہ ہر حصہ دار کی نیت قربانی کی ہو، محض گوشت حاصل کرنے کی نیت نہ ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ ہر حصہ دار کا حصہ ٹھیک 1/7 ہو، اس سے کم کا حصہ نہ ہو۔
ان دو شرطوں میں سے کوئی بھی شرط پوری نہ ہوئی تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
4۔ گائے، بھینس، اونٹ میں سات افراد سے کم بھی شریک ہوسکتے ہیں، مثلاً کوئی دو، چار، یا کم و بیش حصے لے، مگر اس میں بھی یہ شرط ضروری ہے کہ کوئی حصہ دار ساتویں حصے سے کم کا شریک نہ ہو ورنہ کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
5۔ایک شخص نے گائے خریدی اور ارادہ یہ ہے کہ دوسروں کو شریک کرکے قربانی کرلیں گے تو یہ درست ہے، اور اگر خریدتے وقت پوری گائے اپنے ہی لیے خریدی پھر بعد میں دوسروں کوشریک کرنے کا ارادہ کرلیا تو یہ بھی جائز ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ ایسی صورت میں اپنے پہلے ارادے کے مطابق پورا جانور اپنی طرف سے ہی کرے، لیکن دوسروں کو شریک کرنا ہی چاہے تو خوشحال آدمی کو شریک کرے جس پر قربانی واجب ہو۔ اگرکسی ایسے شخص کو شریک کرلیا جس پر قربانی واجب نہیں ہے تو درست نہیں۔
6۔ گائے، بھینس کی قربانی میں ایک یا ایک سے زائد افراد کے حصے ازخود ہی تجویز کرکے قربانی کرلی اور ان افراد کی مرضی اور اجازت نہیں لی تو یہ قربانی صحیح نہیں ہے۔ جن لوگوں کے بھی حصے رکھے جائیں اُن کے کہنے سے رکھے جائیں، یہ نہیں کہ ازخود حصہ دار تجویز کرکے قربانی تو پہلے کرلی جائے اور حصہ داروں کی مرضی اور اجازت بعد میںحاصل کی جائے۔
7۔ بکرا، بکری اور دنبہ، بھیڑ جب پورے سال بھرکے ہوجائیں تو ان کی قربانی درست ہے۔ سال بھر سے کم کے ہوں تو قربانی درست نہیں۔ اور گائے، بھینس پورے دو سال کی ہوجائیں تو ان کی قربانی درست ہے، دو سال سے کم کی ہوں تو قربانی درست نہیں۔ اور اونٹ پورے پانچ سال کا ہو تو قربانی درست ہے، پانچ سال سے کم کا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔
8۔ جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نکلے ہی نہ ہوں یا نکلے ہوں مگر کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، البتہ جس جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ہی ٹوٹ گئے ہوں، اس کی قربانی جائز نہیں۔
9۔ اندھے، کانے جانور کی قربانی درست نہیں، اور اس لنگڑے جانور کی قربانی بھی درست نہیں جو صرف تین پیروں سے چلتا ہو، چوتھا پیر زمین پر رکھا ہی نہ جاتا ہو، یا رکھتا ہو لیکن اس پر زور دے کر نہ چلتا ہو، صرف تین پیروں کے سہارے چلتا ہو۔ ہاں اگر چوتھا پیر بھی کام کررہا ہو اور چلنے میں صرف لنگ ہو تو پھر قربانی درست ہے۔
10۔ جس جانور کا کان ایک تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو، یا دُم ایک تہائی سے زیادہ کٹ گئی ہو اس کی قربانی درست نہیں۔
11۔ دبلے پتلے جانور کی قربانی تو جائز ہے البتہ بہتر یہ ہے کہ موٹا تازہ صحیح سالم اور خوبصورت جانور اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے، اور اگر جانور ایسا مریل اور دبلا کمزور ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا ہی رہ گیا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔
حضرت ابوسعیدؓ کا بیان ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سینگوں والے ایک موٹے تازے دنبے کی قربانی کررہے تھے جس کی آنکھوں کے گرد سیاہی تھی، جس کا منہ بھی سیاہ رنگ کا تھا اور جس کی ٹانگیں بھی سیاہ تھیں‘‘۔ (ابودائود)
حضرت جابر بن عبداللہؓ کا بیان ہے کہ ’’قربانی کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنبے سینگوں والے چت اور خصی ذبح کیے‘‘۔
12۔ جس جانور کے پیدائشی طور پر کان نہیں ہیں یا بہت ہی چھوٹے چھوٹے ہیں، اس کی قربانی درست ہے۔
13۔ جس جانور کے دانت بالکل ہی نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں، اور اگر چند دانت گرے ہوں، باقی زیادہ دانت موجود ہوں تو اس کی قربانی درست ہے۔
14۔ خصی بکرے اور مینڈھے کی قربانی درست ہے۔ خصی ہونا عیب نہیں ہے بلکہ جانور فربہ کرنے کا ایک سبب ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی دنبے کی قربانی کی ہے۔
15۔ ایک خوشحال آدمی نے جس پر قربانی واجب تھی، ایک جانور قربانی کے لیے خریدا، خرید لینے کے بعد اس میں کوئی ایسا عیب پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی قربانی درست نہ رہی، تو ضروری ہے کہ وہ شخص دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے۔ ہاں اگر کسی ایسے نادار شخص کے ساتھ ایسا واقعہ ہوا جس پر قربانی واجب نہ تھی اُس کے لیے اسی عیب دار جانور کی قربانی کرلینا جائز ہے۔
16۔ گائے اور بکری اگر حاملہ ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے، اگر بچہ زندہ برآمد ہو تو اس کو بھی ذبح کرلینا چاہیے۔

قربانی کا حکم

1۔ قربانی کرنا واجب ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہؓ ہیں:
’’جو شخص وسعت رکھتے ہوئے قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘۔ (جمع الفوائد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک شخص نے پوچھا: کیا قربانی واجب ہے؟ آپ نے جواب دیا: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔ اس نے پھر وہی سوال دہرایا (کیا قربانی واجب ہے؟) ارشاد فرمایا: تم سمجھتے ہو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے‘‘۔
2۔ قربانی قارن پر بھی واجب ہے اور متمتع پر بھی۔ البتہ مفرد پر واجب نہیں۔ اگر وہ اپنے طور پر کرلے تو اجر و ثواب کا مستحق ہوگا۔
3۔ زائرینِ حرم کے سوا عام مسلمانوں پر قربانی واجب ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خوشحال ہو۔ خوشحال سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس اتنا مال و اسباب ہو جو اس کی بنیادی ضرورتوں سے زائد ہو اور اگر ان کا حساب لگایا جائے تو یہ بقدرِ نصاب ہوجائے، یعنی جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے، اس پر قربانی بھی واجب ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مقیم ہو، مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
4۔ قربانی صرف اپنی ہی جانب سے واجب ہے، نہ بیوی کی طرف سے واجب ہے نہ اولاد کی طرف سے۔
5۔ کسی شخص پر قربانی شرعاً واجب نہیں تھی، لیکن اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اب اس جانور کی قربانی واجب ہوگئی۔
6۔ ایک شخص پر قربانی واجب تھی لیکن قربانی کے تینوں دن گزر گئے اور وہ کسی وجہ سے قربانی نہیں کرسکا، اگر اس نے بکری وغیرہ خرید لی تھی تب تو اسی بکری کو زندہ خیرات کردے، اور نہ خریدی ہو تو ایک بکری کی قیمت بھر رقم خیرات کردے۔
7۔ کسی نے منت اور نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو قربانی کروں گا۔ پھر اللہ کے فضل و کرم سے وہ کام ہوگیا تو چاہے وہ شخص خوشحال ہو یا نادار، بہرحال اُس پر قربانی واجب ہوگئی۔ اور نذر کی قربانی کا حکم ہے کہ اس کا سارا گوشت غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم کردیا جائے، قربانی کرنے والا خود بھی نہ کھائے اور نہ خوشحال لوگوں کو کھلائے۔

قربانی کے ایام اور وقت

1۔ عیدالاضحیٰ یعنی ذوالحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر ذوالحجہ کی بارہویں تاریخ تک غروبِ آفتاب سے پہلے تک قربانی کے ایام ہیں۔ ان تین ایام میں سے جب اور جس دن سہولت ہو، قربانی کرنا جائز ہے، لیکن قربانی کا سب سے افضل دن عیدالاضحیٰ ہے۔ پھر گیارہویں تاریخ اور پھر بارہویں۔
2۔ شہر اور قصبات کے باشندوں کے لیے نماز عید سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں، جب لوگ نماز سے فارغ ہوجائیں تب قربانی کریں۔ البتہ دیہات کے باشندے نمازِ فجر کے بعد بھی قربانی کرسکتے ہیں۔
3۔ شہر اور قصبات کے باشندے اگر اپنی قربانی کسی دیہات میں کرا رہے ہوں تو ان کے جانوروں کی قربانی دیہات میں فجر کے بعد بھی ہوسکتی ہے، اور اگر وہاں سے نماز عید سے پہلے بھی گوشت آجائے، تب بھی یہ قربانی درست ہے۔
4۔ ایام قربانی یعنی ذوالحجہ کی دس تاریخ سے بارہویں تاریخ غروبِ آفتاب تک، جس وقت چاہیں قربانی کرسکتے ہیں، دن میں بھی اور رات میں بھی، لیکن افضل یہی ہے کہ شب میں قربانی نہ کی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی رگ سلیقے سے نہ کٹے یا رہ جائے اور قربانی درست نہ ہو۔
5۔ قربانی واجب ہونے کی دو شرطیں ہیں: مقیم ہونا اور خوشحال ہونا۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہے اور وہ بارہویں ذوالحجہ کو غروبِ آفتاب سے پہلے اپنے وطن پہنچ گیا اور خوشحال ہے تو اس پر قربانی واجب ہوگئی۔ اور اگر وہ مقیم ہے اور نادار ہے لیکن بارہویں ذوالحجہ کو غروبِ آفتاب سے پہلے اللہ نے اسے مال و دولت سے نواز دیا تو اس پر بھی قربانی واجب ہوگئی۔

قربانی کے متفرق مسائل

1۔ قربانی کرتے وقت نیت کا زبان سے اظہار کرنا اور دعا پڑھنا ضروری نہیں، صرف دل کی نیت اور ارادہ قربانی صحیح ہونے کے لیے کافی ہے، البتہ زبان سے دعا پڑھنا بہتر ہے۔
2۔ اپنی قربانی کا جانور اپنے ہی ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے، ہاں اگر کسی وجہ سے خود ذبح نہ کرسکے تو کم از کم وہاں موجود ہی رہے، اور خواتین بھی اپنی قربانی کا جانور ذبح ہوتے وقت موجود رہیں تو بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے وقت حضرت فاطمہؓ سے فرمایا: ’’فاطمہ اٹھو، اپنی قربانی کے جانور کے پاس کھڑی ہو، اس لیے کہ اس کے ہر قطرۂ خون کے بدلے تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ فاطمہؓ نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ ہم اہلِ بیت کے لیے ہی خصوصی کرم ہے یا ہمارے لیے بھی ہے اور عام مسلمانوں کے لیے بھی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے بھی ہے اور سارے مسلمانوں کے لیے بھی ہے‘‘۔ (جمع الفوائد)۔
3۔ گائے، بھینس وغیرہ کی قربانی میں کئی افراد شریک ہوں تو گوشت کی تقسیم اندازے سے نہ کریں بلکہ سری پائے اور گردہ کلیجی وغیرہ سب کو شامل کرکے سات حصے بنائیں اور پھر جس کے جتنے حصے ہوں اس کو حساب سے دے دیں۔
4۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں، اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب میں بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ کم از کم ایک تہائی تو غربا اور مساکین میں تقسیم کردیں اور باقی اپنے اور اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کے لیے رکھ دیں، لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ ایک تہائی خیرات ہی کیا جائے، ایک تہائی سے کم بھی فقیروں اور غریبوں میں بانٹ دیا جائے تو کوئی گناہ نہیں۔
5۔ گائے، بھینس اور اونٹ کی قربانی میں کئی افراد شریک ہیں اور وہ آپس میں گوشت تقسیم کرنے کے بجائے سب ایک ساتھ ہی فقرا اور مساکین کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں یا پکا کر کھلانا چاہتے ہیں تو یہ بھی جائز ہے۔
6۔ قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دینا بھی جائز ہے، البتہ اجرت میں دینا صحیح نہیں ہے۔
7۔ قربانی کی کھال بھی کسی حاجت مند کو خیرات میں دی جا سکتی ہے اور فروخت کرکے رقم بھی خیرات کی جا سکتی ہے، یہ رقم اُن لوگوں کو دینی چاہیے جن کو زکوٰۃ دی جاتی ہے۔
8۔ قربانی کی کھال کو اپنے کام میں لانا بھی جائز ہے، مثلاً نماز پڑھنے کے لیے جانماز بنوالی جائے، یا ڈول وغیرہ بنوا لیا جائے۔
9۔ قصاب کو گوشت بنانے کی مزدوری میں گوشت، کھال یا رسّی وغیرہ نہ دی جائے بلکہ مزدوری الگ سے دی جائے، اور جانور کی رسّی، کھال وغیرہ سب خیرات کردینی چاہیے۔
10۔ جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کو تو کرنا ہی ہے۔ جس پر واجب نہیں ہے، اس کو بھی اگر غیر معمولی زحمت نہ ہو تو ضرور قربانی کرنی چاہیے۔ البتہ دوسروں سے قرض لے کر قربانی کرنا مناسب نہیں۔
مردوں کی طرف سے قربانی:
اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو مال و دولت سے نوازا ہے، وہ صرف واجب قربانی پر ہی کیوں اکتفا کرے، بلکہ قربانی کا بے حد و حساب اجر و انعام پانے کے لیے اپنے بزرگوں، یعنی مُردہ ماں، باپ، دادا، دادی اور دوسرے رشتے داروں کی طرف سے بھی قربانی کرے تو بہتر ہے۔ اور اپنے محسنِ اعظم (صلی اللہ علیہ وسلم) جن کی بدولت ہدایت و ایمان کی دولت نصیب ہوئی ہے، کی طرف سے قربانی تو مومن کی بہت بڑی سعادت ہے۔ اسی طرح ازواجِ مطہرات یعنی اپنی روحانی مائوں کی طرف سے قربانی کرنا بھی انتہائی خوش نصیبی ہے۔