محاوروں کی دلچسپ کتاب

پچھلے کالم کے حوالے سے ایک قاری عبدالحمید صاحب نے توجہ دلائی ہے کہ حضرت عزیر نبی نہیں بلکہ ایک بزرگ شخص تھے۔ ایسا ہی ہوگا، لیکن تفاسیر اور تراجم میں ان کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھا جاتا ہے اور یہ کلمہ عموماً انبیاءکرام کے نام کے ساتھ آتا ہے۔ ویسے تو اب غیر انبیاءکے ساتھ بھی علیہ السلام لکھا جارہا ہے۔ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے، تاہم مفسرین اور علماءکرام نے کچھ کلمات مخصوص کررکھے ہیں۔ رسول اکرم کے لیے صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام کے لیے رضی اللہ عنہ، اور دیگر بزرگوں کے لیے رحمت اللہ علیہ۔ حضرت عزیر کے نام پر بھی علیہ السلام کی علامت ’ع‘ بنائی جاتی ہے۔ مزید وضاحت علماءکرام کریں۔
ایک قاری نے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی کی کتاب ”اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ“ خریدنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو ان کو منع کردیا، کیونکہ اس کتاب میں جتنی غلطیاں یکجا کردی گئی ہیں کسی اور کتاب میں نہیں ملتیں۔ بظاہر اس کا عنوان علمی و ادبی ہے۔ لیکن اشعار غلط، املا غلط، انشاءغلط، محاورات غلط یعنی بالکل غلط، یکسر غلط۔ ایک محاورہ دیا گیا ہے ”بغضِ الٰہی“۔ موصوفہ نے اس کے معنیٰ پر غور فرمایا؟ انہوں نے محاورے کی وضاحت کی ہے ”یہ خدا واسطے کا بیر کہلاتا ہے اور اسی کو بغضِ الٰہی کہتے ہیں“۔ لیکن اس کا مطلب تو اللہ کا بغض ہوا جو شدید توہین آمیز ہے۔ اس پر موصوفہ کو توبہ کرنی چاہیے۔ اصل محاورہ بغضِ الٰہی نہیں بغض للّٰہی ہے، یعنی اللہ کے لیے کسی سے بغض رکھنا۔ اور اس کو خدا واسطے کا بیر کہا جاتا ہے۔ موصوفہ نے میر امن دہلوی کی ’باغ وبہار‘ کے حوالے سے لکھا ہے ”جو لوگ اپنی سات پشتوں سے دہلی میں نہیں رہتے وہ دہلی کے محاورے میں سند نہیں قرار پاسکتے۔ کہیں نہ کہیں ان سے چوک ہوجائے گا“۔ چُوک ہندی کا لفظ اور مونث ہے۔ میر امن دہلوی اسے مذکر نہیں لکھ سکتے۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی ہوسکتی ہے جس کی تصحیح عشرت جہاں کو کرنی چاہیے تھی ورنہ ان کا لکھا ”سند“ بن جائے گا کہ دلی میں شاید چُوک مذکر ہو۔ حرف خوانی وصی اللہ کھوکھر نے کی ہے اور کئی اغلاط کی نشاندہی کی ہے، لیکن وہ بھی کہاں تک تصحیح کرتے! سید ضمیر حسن دہلوی نے اس کا دیباچہ لکھا ہے۔ انہوں نے ایک شعر دیا ہے:۔

جو ہونی تھی وہ بات ہوئی کہاروں
چلو لے چلو میری ڈولی کہاروں

عشرت جہاں کو نہ سہی، ضمیر حسن دہلوی کو تو معلوم ہوگا کہ جب کسی کو مخاطب کرتے ہیں یا آواز دیتے ہیں تو نون غنہ نہیں آتا، مثلاً انسانو، عورتو، دوستو وغیرہ۔ اسی طرح کہاروں میں بھی نون غنہ نہیں آئے گا۔ محترمہ نے ہر جگہ ”امالہ“ کے استعمال سے گریز کیا ہے۔ ایک جملہ دیکھیے: ”مختلف محاورے کے سلسلہ میں….“ اس میں دو غلطیاں ہیں۔ صحیح جملہ یوں ہے ”مختلف محاوروں کے سلسلے میں“۔ اردو کے ایک مشہور شعر کا حلیہ یوں بگاڑا ہے:۔

امیدیں باندھتا ہوں سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے

اصل شعر میں ”اُمیدیں“ نہیں بلکہ ”ارادے“ ہے، اور ارادے توڑے جاتے ہیں، امیدیں نہیں۔ ایک محاورہ ”آسامی بنانا“ دیا ہے۔ آسامی کا مطلب ہے آسام کا رہنے والا۔ یہ لفظ ”اسامی“ ہے۔ الف پر مد کے بغیر۔ اُن کے بقول ”کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک آسامی خالی ہے“۔ بہرحال بہت دلچسپ کتاب ہے۔ ہم جب بھی معمول کے کام سے اُکتا جاتے ہیں تو تفنن طبع کے لیے عشرت جہاں کی کتاب اُٹھا لیتے ہیں۔ اور اب غازی علم الدین کی سنیے:
پروفیسر مرزا ناصر بیگ صاحب/ جناب پرنسپل صاحب
ہمارے ہاں القاب و آداب لکھنے میں بھی لفظوں کا اِسراف اور معنوی و لفظی تکرار عام ہے۔ اِنشا کی ان غلطیوں کے ضمن میں ممتاز ادیب اور زبان دان رشید حسن خان ہمیں آگاہ کرتے ہیں: ”جب نام سے پہلے ”ڈاکٹر“ یا ”پروفیسر“ لکھ دیا تو پھر نام کے بعد صاحب لکھنے کی ضرورت نہیں، اِسی طرح جب نام سے پہلے جناب لکھ دیا تو پھر نام کے بعد صاحب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر نام کے بعد صاحب لکھا ہے تو پھر نام سے پہلے جناب لکھنا ضروری نہیں، ضروری کیا، مناسب بھی نہیں۔ جناب ایڈیٹر صاحب، جناب ڈاکٹر صاحب، جناب پرنسپل صاحب، جناب محمود الٰہی صاحب…. ان سب میں ’جناب‘ اور ’صاحب‘ میں سے ایک لفظ زائد ہے“۔
پسِ غیبت
پسِ غیبت کا معنیٰ ”غیر حاضری میں“ کیا جاتا ہے۔ یہ ترکیب اس لیے غلط ہے کہ ”غیبت“ میں ”پس“ کا معنیٰ پہلے سے موجود ہے، صرف غیبت لکھنا اور بولنا کافی ہے۔
پہلے سے پیش بندی
مثلاً ”انھوں نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے پہلے سے پیش بندی کرلی“۔ ’پیش‘ کا معنیٰ ہی ’پہلے سے‘ ہے۔ لہٰذا ان دونوں کا جمع کرنا درست نہیں۔
پیشِ نظر کے سامنے
حضرت سیماب اکبر آبادی اور گجرات کے ایک شاعر اعجاز بھڑوچی کے درمیان کسی ادبی مسئلے پر منظوم بحث چھڑ گئی۔ اعجاز بھڑوچی کسی ایک مصرعے میں ’…. پیشِ نظر کے سامنے‘ نظم کر گئے تو جواباً حضرتِ سیماب نے یہ شعر کہہ کر بحث ہی ختم کردی کہ:۔

کھُل گیا سیماب! اعجاز بھڑوچی کا بھرم
کہہ گیا بندئہ خدا، پیشِ نظر کے سامنے

’پیشِ نظر‘ کے ساتھ ’سامنے‘ کے استعمال نے اعجاز بھڑوچی کی زبان دانی کی قلعی کھول دی۔
1932ءتا 1936ءتک
”پروفیسر واسطی نے 1932ءتا 1936ءتک گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے“۔ ماہ نامہ ”قومی زبان“ کراچی بابت اپریل 2018ءمیں شائع ہونے والے جاوید احمد خورشید کے مضمون میں ’تا‘ اور ’تک‘ کی یکجائی کی غلطی تین مرتبہ دہرائی گئی۔
تاثر کے زیر اثر
ایک اخبار نویس کا کیا خوب جملہ ہے ”اس واقعے کے تاثر کے زیر اثر انھوں نے یہ فیصلہ کیا“۔ اخبار نویس صاحب یقیناً لاعلم ہیں کہ لفظی اور معنوی تکرار کی وجہ سے ”تاثر“ اور ”زیر اثر“ کو یکجا نہیں کیا جاسکتا۔
تاہنوز
ہنوز کا معنیٰ ’ابھی تک‘ ہے، اس سے پہلے ’تا‘ ملانا غلط عمل ہے کیوں کہ ’تا‘ کا معنیٰ بھی ’تک‘ ہے۔
تجدیدِ نَو
”تجدیدِ نَو“ لاہور سے شائع ہونے والا ایک ادبی رسالہ ہے جس کی مدیرہ، محترمہ عذرہ اصغر صاحبہ ہیں۔ رسالے کا نام لفظی اور معنوی تکرار کی بنا پر محلِ نظر ہے۔ تجدید کا معنیٰ ہے جدت، نیا بنانا…. یا نئے سرے سے کوئی کام کرنا۔ اور ’نو‘ کا مطلب بھی ’نیا‘ ہے۔ ان دو لفظوں کی یکجائی کسی طور پر درست نہیں۔
تحریری مقالہ رقم کرنا
”ڈاکٹر جمیل جالبی نے 1972ءمیں قدیم اردو ادب پر تحریری مقالہ رقم کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی“۔ ’تحریری‘…. ’مقالہ‘ اور ’رقم کرکے‘ کی یکجائی اور ہم معنویت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
تقریباً دس کے قریب
”اس کے پاس تقریباً دس کے قریب سندیں ہیں“۔ اس جملے میں ہم معنیٰ لفظوں کا ایک ساتھ استعمال کردیا گیا ہے۔ یہ اجتماعِ مترادفین کی ناروا اور غلط مثال ہے۔