بی جے پی کا ہندی مسلط کرنے کا منصوبہ
کشمیر پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے پانچ اگست کے وار کو پہلا سال مکمل ہونے والا ہے۔ موذی مودی اور اس کی سرکار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈلائن عبور کرکے مزید مکروہ عزائم آگے بڑھا رہی ہے۔ مقبوضہ وادی میں ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے مہاجرین کو آباد کیا جارہا ہے اور ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اردو کی جگہ ہندی زبان نافذ کی جارہی ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد سے یہاں کے لوگوں کی آزادی اور حقوق سلب کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کوئی بھی زبان شناخت اور ثقافت کا ایک حصہ ہوتی ہے، لیکن کشمیر میں زبان، شناخت اور ثقافت تینوں پر حملے جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد اسے دہلی سرکار ہندو قوم پرست علاقہ بنانا چاہتی ہے۔ کشمیر میں ہندی مسلط کرنا اسی ایجنڈے کا تسلسل ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی گئی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ یہاں اردو کے خاتمے سے ناراضی اور غصہ بڑھے گا، احساسِ محرومی میں اضافہ ہوگا۔ یہاں اردو زبان کا ایک الگ مقام رہا ہے، اور اس کو ختم کرنا بہت بڑی ناانصافی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے کچھ ماہ پہلے بیان بھی دیا تھا کہ ایک دیش، ایک زبان اور ایک آئین۔ اس کے خلاف تامل ناڈو میں لوگوں نے احتجاج کیا جس کے بعد اُن کو اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ لیکن اس درخواست کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی نیت بدلی نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی ہم خیال تنظیمیں یہاں اردو ختم کرکے ہندی نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ 130 برس سے زائد عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں سرکاری زبان اردو رہی ہے، اس کے خلاف باضابطہ طور پر عدالتی و میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیا ہے۔ کشمیر ہائی کورٹ میں گزشتہ ہفتے ماگھو کوہلی نامی شخص نے جسے بی جے پی اور اس کی حامی ہندو تنظیموں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، مفادِ عامہ کی ایک درخواست دائر کی ہے جس میں اردو کے بجائے ’ہندی‘ کو مقبوضہ کشمیر کی سرکاری زبان قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ کشمیر ہائی کورٹ نے درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد بھارتی حکومت کو نوٹس جاری کردیا ہے اور دہلی سرکار سے جواب مانگا ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جموں میں ڈوگری اور ہندی زبانیں استعمال ہوتی ہیں اور اردو زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے جموں کے لوگ ناانصافی کا شکار ہیں۔ ماگھو کوہلی کی جانب سے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرنے کے ساتھ ہی بھارتی ٹی وی چینلز اور بی جے پی سمیت کئی ہندو تنظیموں نے کشمیر میں اردو کی جگہ ہندی کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کے مطالبے پر شور مچانا شروع کردیا ہے۔ حریت ذرائع کہتے ہیں کہ کشمیر سے اردو کو ہٹانے کے لیے کوشش کی راہ روکنا بہت ضروری ہے، کیونکہ ایسی ہی ایک مہم 2014ء میں اس متنازع خطے کی خصوصی آئینی حیثیت کے خلاف شروع کی گئی تھی جو 5 اگست 2019ء کے فیصلوں پر منتج ہوئی۔ اس کوشش کے پیچھے بی جے پی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب اگر ہندی کشمیر کی سرکاری زبان بن جائے تو یہ اس کے لیے ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی، ہندی نافذ ہوگئی تو پھر سرکاری کاغذات ہندی میں لکھے جائیں گے اور نوکریوں کے امتحانات بھی ہندی میں لیے جائیں گے۔ بی جے پی کی حامی ایک تنظیم ڈوگرہ برہمن پرتیندھی سبھا نے سرکاری خط کتابت کے لیے ہندی کو استعمال کرنے کی اجازت طلب کرلی ہے اور مطالبہ کررہی ہے کہ جموں و کشمیر اب ایک ریاست سے ایک یونین ٹیرٹری بن چکی ہے اس لیے لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو تمام سرکاری فرامین ہندی میں جاری کریں۔
مقبوضہ کشمیر کے 20 میں سے 15 اضلاع میں لوگوں کی اکثریت اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے والوں کی ہے۔ اب جو پانچ ہندو اکثریتی اضلاع کٹھوعہ، جموں، سانبہ، ادھم پور اور ریاسی ہیں ان میں بھی 40 سے 50 فیصد آبادی اردو بولنے اور جاننے والوں کی ہے۔ یہاں ریونیو اور پولیس جیسے اہم محکموں کا سرکاری ریکارڈ اردو میں ہے، طلبہ کے لیے دسویں جماعت تک اس زبان کو ایک مضمون کے طور پر پڑھنا لازمی ہے، قارئین کی 70 فیصد تعداد ہے جو اردو اخبارات پڑھتے ہیں۔ کشمیر کے مسلم اکثریتی اضلاع میں دو فیصد لوگ بھی ہندی لکھنا یا پڑھنا نہیں جانتے۔ کشمیر میں لوگوں کی اردو اور ہندی میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلے کے لیے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں امیدوار قسمت آزمائی کرتے ہیں، جب کہ اسی یونیورسٹی میں 1956ء سے قائم شعبہ ہندی میں بمشکل ہی کوئی طالب علم داخلہ لینے میں دلچسپی لیتا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبہ پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلہ پانے کے لیے اردو کے شعبے کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں ڈپارٹمنٹ میں نشستوں کی تعداد 86 ہے، اس لیے اتنے ہی طلبہ داخلہ حاصل کرپاتے ہیں۔ جو طلبہ داخلہ پانے میں کامیاب نہیں ہوتے وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے فاصلاتی طرزِ تعلیم کے تحت اردو کے پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلہ لیتے ہیں۔کشمیر یونیورسٹی کے علاوہ سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی اور جموں یونیورسٹی بھی اردو میں ریگولر پوسٹ گریجویٹ کورس کراتی ہیں، لیکن اب المیہ یہ ہے کہ پانچ اگست 2019ء کو بی جے پی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ہی اردو زبان بھی ’سرکاری زبان‘ ہونے کا اعزاز کھو رہی ہے۔
جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019، جس کے تحت کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ’یونین ٹیرٹری آف جموں و کشمیر‘ اور ’یونین ٹیرٹری آف لداخ‘ کا نیا نام دیا گیا ہے، کے سیکشن 47 کے مطابق کشمیر میں معرضِ وجود میں آنے والی نئی اسمبلی ہی ’کسی ایک‘ یا ’ایک سے زیادہ‘ یا ’ہندی‘ کو یہاں کی سرکاری زبان منتخب کرسکتی ہے۔ حریت ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال پانچ اگست 2019ء کے بعد شروع ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران حکومت نے 6 ستمبر کو ایک اخباری اشتہار دیا تھاکہ خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی سے کشمیریوں کی منفرد تہذیب، زبان، مذہب اور زمین کے مالکانہ حقوق پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑیں گے، مگر اس سال جنوری میں دارالحکومت سری نگر میں پہلی بار ہندی زبان میں بڑے ہورڈنگز لگ چکے ہیں، ایسے ہورڈنگز سری نگر کے مختلف علاقوں میں بھی نصب ہیں۔ بی جے پی کی حامی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس بھی چاہتی ہے کہ اردو کی حفاظت کی جائے مگر وہ بے بس ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اردو روزنامہ ہند سماچار جموں میں سب سے زیادہ پڑھاجاتا ہے، اس کے بعد وادی چناب اور پیر پنجال میں اکثریت اردو پڑھنے لکھنے والوں کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہو یہ رہا ہے کہ بھارت کی دہلی سرکار اردو کو ایک مخصوص مذہب کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔ اردو یہاں کی سرکاری زبان رہی ہے اور یہ یہاں تہذیبی شناخت بھی ہے۔ ڈوگرہ راج میں بھی یہاں اردو زبان رہی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جنوبی بھارت کی ریاستوں تلنگانہ، آندھرا پردیش، تامل ناڈو، کرناٹک اور کیرالا میں ہندی کو اردو پر سبقت نہیں مل سکی۔ حریت ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کی اردو صحافت کا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے،70 فیصد لوگ اردو اخبارات ہی پڑھتے ہیں مگر اشرافیہ اور بیوروکریسی انگریزی بولتی ہے، زیادہ تر اشتہار انگریزی اخبارات کو ہی دیے جاتے ہیں کیونکہ بیوروکریسی انگریزی اخبارات پڑھتی ہے۔ کشمیر میں اردو اخبارات عوام اور سرکار کے درمیان پل کا کام کرتے تھے، لیکن اب وہ بات نہیں رہی ہے، کیونکہ سرکار اردو کو پوری طرح سے نظرانداز کررہی ہے، حالانکہ کشمیر میں ڈوگرہ راج نے اردو کو سرکاری زبان منتخب کیا تھا اور اردو کا پہلا اخبار ’رنبیر‘ اُسی دور میں جموں سے جاری ہوا تھا۔ڈوگرہ راج نے بھی اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ جموں میں ڈوگری، کشمیر میں کشمیری اور لداخ میں لداخی بولی جاتی تھی، لیکن اردو ان تینوں کے درمیان رابطے کی زبان تھی۔ یہاں اردو کا پہلا چھاپہ خانہ 1858ء میں جموں میں قائم ہوا تھا۔ ڈوگرہ مہاراجا رنبیر سنگھ کے عہدِ حکومت میں کشمیر کا پہلا دارالترجمہ بھی قائم ہوا تھا جہاں سے اردو کے کئی مسودے شائع ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک لائبریری بھی قائم کی گئی جہاں اردو کی کتابیں اور کئی نادر مسودے جمع کیے گئے۔ 1924ء میں ملک راج صراف نے کشمیر کا پہلا اخبار جموں سے جاری کیا۔ سری نگر کا پہلا اخبار ’وتستا‘ پریم ناتھ بزاز نے 1933ء میں جاری کیا تھا۔ 1934ء میں شیخ محمد عبداللہ اور بزاز نے پہلا ہفت روزہ ’ہمدرد‘ شائع کیا تھا۔ کشمیری پنڈتوں کی انجمن نے ہفت روزہ ’مارٹنڈ‘ کا اجرا کیا تھا۔ 1947ء تک کشمیر میں اردو اخبارات کی تعداد 47 تک پہنچ گئی تھی۔ 1954ء میں جموں وکشمیر آئین ساز اسمبلی نے بھی دفعہ 145 کے تحت اردو کو کشمیر کی سرکاری زبان قرار دیا تھا۔
کشمیر سے اردو کو بحیثیت سرکاری زبان ہٹانا دراصل زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ آر ایس ایس کے زیراثر ہندوتوا منصوبے کا ایک حصہ ہے۔