نواب شاہ میں سو سے زائد آٹا چکی اور دس سے زائد فلور ملز نے اگرچہ گندم کی کٹائی کے بعد بڑے پیمانے پر گندم ذخیرہ کی، لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شہری مہنگے داموں آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ گندم کی نقل وحمل پر پابندی اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے روک تھام کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری اقدامات ہر سال ہوتے ہیں، پھر کیوں اِس بار آٹا مہنگے داموں فروخت کرکے راتوں رات امیر بننے کی جدوجہد ہورہی ہے! اس کی وجوہات کو تلاش کرنا اور خاص طور پر لاک ڈائون کے دوران اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ سفید پوش طبقے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ادھر مالی دشواریوں کے باعث جام صاحب، قاضی احمد، دوڑ، سانگھڑ، سکرنڈ میں معاشی بدحالی بڑھ جانے کے باعث خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔ جب معاشرہ خودکشیوں کی جانب بڑھ رہا ہو، اور حکومت اور انتظامیہ اس سلسلے میں ناکام ہوتی نظر آئیں تو حکومت اور انتظامیہ کی درندگی نظر آتی ہے۔ نواب شاہ میں آٹے کی مہنگے داموں فروخت پر نواب شاہ کے معروف سماجی رہنما منظور احمد کہتے ہوئے ہیں کہ تبدیلی سرکار کو تبدیل ہوجانا چاہیے، اب گنجائش باقی نہیں ہے، نواب شاہ میں آٹے کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے، 10 کلو آٹے کا تھیلا 550 روپے میں فروخت ہونے لگا ہے، ایک طرف آٹا مافیا اپنا کام دکھا رہا ہے تو دوسری جانب ضلعی انتظامیہ آٹے کے ساتھ ساتھ اشیائے خورونوش کے نرخ کو برقرار رکھنے میں بری طرح سے ناکام نظر آتی ہے، اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً کمیٹیاں بھی بنائی جاتی ہیں جو کارروائیاں بھی کرتی ہیں۔ منظور احمد کہتے ہیں کہ سخت عوامی ردعمل سامنے آرہا ہے، انتظامیہ صرف فوٹو سیشن تک محدود ہے، ملک میں پہلے ہی تبدیلی سرکار کی وجہ سے مہنگائی نے جینا دوبھر کیا ہوا ہے، اس پر مستزاد ضلعی انتظامیہ مافیا کو لگام ڈالنے میں مخلص نہیں ہے، لاک ڈائون کے باعث روزانہ اجرت کمانے والے کے لیے زندگی انتہائی دشوار ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے آٹا ہول سیل مارکیٹ کے دکان داروں کا کہنا ہے کہ ہر چیز کے نرخ بڑھ گئے ہیں، ہم اپنا جائز منافع رکھ کر آگے دکان دار کو فروخت کردیتے ہیں۔ آٹا مہنگا ہونے کی ایک وجہ دوسرے علاقوں میں گندم کی ترسیل ہے۔ منظور احمد کہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ سندھ حکومت نے پابندی لگائی تھی لیکن اس دوران بھی ضلع بھر سے گندم کی ترسیل بڑے پیمانے پر ہوئی تھی، اسی وجہ سے آٹے کے نرخ میں اضافہ ہوا ہے۔
سٹیزن ایکشن کمیٹی نواب شاہ کے صدر اسلم نوری کہتے ہیں کہ نواب شاہ میں آٹے کا بحران سر اٹھانے لگا ہے، آٹا 55 روپے کلو تک فروخت ہورہا ہے، انتظامیہ اور چکی مالکان میں تکرار جاری ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ محکمہ خوراک منظر سے غائب ہے۔ حکومتی سطح پر آٹے کا نرخ 43 روپے کلو ہے۔ لیکن چکی مالکان 50 تا 55 روپے تک فروخت کرنے لگے ہیں، جس کے باعث مزدور طبقہ سخت اذیت میں مبتلا ہے۔ ڈپٹی کمشنر شہید بے نظیر آباد کی ہدایت پر مختارکار نے فلور ملز اور چکی مالکان کو طلب کرکے آٹا 43 روپے کلو فروخت کرنے کے احکامات دیے تھے، دوسری جانب چکی مالکان نے حکومتی نرخ پر آٹا فروخت کرنے سے انکار کردیا ہے۔ چکی مالکان کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک کی جانب سے گندم سپلائی نہیں کی گئی جس کے باعث آٹا مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے گندم اپنے ذاتی خرچ سے 45 روپے کلو خریدی ہے، حکومتی نرخ پر کس طرح فروخت کرسکتے ہیں؟ محکمہ خوراک گندم کی سپلائی جاری کرتا ہے تو آٹا حکومتی نرخ پر فروخت کریں گے۔
اس سرکس میں کرتب کے ہر رنگ میں اگر کوئی گرتا ہے تو وہ صرف عوام ہیں۔ ہم سب چکی کے پاٹوں میں پس رہے ہیں، ان پاٹوں میں انتظامیہ کہیں نہیں ہے۔