عثمان بزدار کا دورہ بلوچستان

تربت میں پنجاب حکومت کی جانب سے سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کی تعمیر کے لیے 75کروڑ روپے اور پاک ایران سرحدی شہر تفتان میں زائرین کے لیے کمپلیکس کی تعمیر کے لیے 25کرو ڑ روپے کا چیک حکومتِ بلوچستان کے حوالے

تحریک انصاف کی حکومت بنی تو پنجاب کے اندر ماضی کے برعکس جنوبی پنجاب سے وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان بزدار وزیراعلیٰ بنائے گئے جو بلوچ قبیلے بزدار کے سردار ہیں۔ ڈیرہ غازی خان بلوچستان سے متصل ضلع ہے جہاں بلوچ اقوام کے لوگ سکونت رکھتے ہیں۔ اس بنا پر عثمان بزدار یقیناً بلوچستان سے واقفیت رکھتے ہوں گے۔ لامحالہ نسلی ارتباط کی بنا پر بلوچستان سے انسیت و محبت بھی ہوگی۔ ان احساسات کا انہوں نے بلوچستان کے دورے کے دوران عوامی اجتماعات سے خطاب میں ذکر بھی کیا۔ عثمان بزدار 16 جولائی کو بلوچستان کے دورے پر آئے۔ لورالائی، پشین، سیاحتی مقام زیارت اور کوئٹہ میں بھی ان کی آمد ہوئی۔ ان مواقع پر انہوں نے گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، صوبائی وزراء، سیاسی و قبائلی عمائدین سے ملاقاتیں کیں۔ عثمان بزدار کے زیارت کے دورے کے موقع پر البتہ وہاں کے عوام کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن پہلے زیارت کا چھوٹا بازار سیکورٹی انتظامات کے پیش نظر سیل کردیا گیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب زیارت میں واقع قائداعظم ریذیڈنسی گئے۔ ان کی واپسی کے بعد شہر کھل گیا۔
جون2013ء میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے شرپسندوں نے قائداعظم ریذیڈنسی تباہ کی، تو اس کے بعد زیارت میں فرنٹیئر کور تعینات کردی گئی۔ ریذیڈنسی کا مکمل کنٹرول اب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی اِس وقت ریذیڈنسی پر سول انتظامیہ کا کنٹرول محض نام کی حد تک ہے۔ 23 مارچ اور 14 اگست کے ایام کے موقع پر ریذیڈنسی میں تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ یوں سیکورٹی کے تحت ان مواقع پر بھی شہر بند کرادیا جاتا ہے، تاوقتیکہ پروگرامات ختم اور عسکری و سول حکام چلے نہ جائیں۔ زیارت کے اندر مختص تفریحی پوائنٹس پر بھی فورسز تعینات ہیں جس کی وجہ سے شہریوں اور سیر وسیاحت کے لیے آنے والوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ زیارت کے عوام بالخصوص اس رویّے پر خفگی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جون، جولائی اور اگست ہی ان کے کاروبار کا سیزن ہے، جس کے بعد موسم سرد ہوجاتا ہے اور سیاح نہیں آتے۔ ان مشکلات کا سامنا صوبے کے مختلف تفریحی مقامات پر عوام کو کرنا پڑرہا ہے۔ کوئٹہ کے تفریحی مقام ہنہ جھیل کا غالب حصہ سول انتظام و انصرام میں نہیں رہا۔ ولی تنگی کا سیاحتی مقام بہت پہلے ہی شہریوں کے لیے عام نہیں رہا۔ وہاں تک رسائی کے لیے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔ حال ہی میں بولان کے اندر سیرگاہ ’پیر غائب‘ کا کنٹرول بھی ایف سی نے سنبھال لیا ہے۔ یہاں ایف سی سبی اسکائوٹس نے تزئین و آرائش اور سہولیات کے لیے صوبائی حکومت کو پی سی ون دیا، جسے منظور کرتے ہوئے کروڑوں روپے جاری کیے جاچکے ہیں۔ وہاں تیزی سے کام ہورہا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جب بھی سرکاری حکام یا اُن کے اہلِ خانہ تفریح کے لیے جاتے ہیں تو وہاں عام شہریوں کا داخلہ بند کردیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ حکومتوں، سول اداروں اور محکموں کی نالائقی، غبن اور ہیرا پھیری کا نتیجہ ہے۔ یہ اہل ہوتے تو کوئی اور کیوں براجمان ہوتا؟ بہرکیف وزیراعلیٰ پنجاب نے گوادر اور زیارت میں پنجاب ہائوس تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے، اور اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پنجاب اور بلوچستان مل کر وفاق سے اپنی محرومیوں کا خاتمہ کرائیں گے۔ سردار بزدار نے تربت میں پنجاب حکومت کی جانب سے سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کی تعمیر کے لیے 75کروڑ روپے اور پاک ایران سرحدی شہر تفتان میں زائرین کے لیے کمپلیکس کی تعمیر کے لیے 25کرو ڑ روپے کا چیک حکومتِ بلوچستان کے حوالے کردیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پنجاب حکومت نے تفتان میں زائرین کے لیے کمیونٹی سینٹر کے قیام کے لیے ایک ارب روپے کی گرانٹ منظور کرلی ہے۔ واضح رہے کہ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے کوئٹہ میں پنجاب حکومت کی جانب سے امراضِ قلب کے ہسپتال کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ تب بلوچستان حکومت نے سنجیدگی نہ دکھائی، بعدازاں ہسپتال کے لیے شہر کے اندر زمین مختص کی گئی، لیکن اندریں کشمکش شروع ہوئی اور آخرکار ہسپتال کا منصوبہ کوئٹہ چھائونی کی حدود میں منتقل کردیا گیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ ہسپتال تعمیر ہوتا ہے تو اس کے ثمرات سے کوئٹہ کے عوام فی الواقع مستفید نہ ہوسکیں گے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے اوائل میں بلوچستان کے لیے ایک ارب روپے جاری کیے۔ پنجاب کی جامعات اور کالجوں میں بلوچستان کے طلبہ و طالبات کے لیے نشستوں میں اضافے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا یہ خلوص ناقابلِ فراموش ہے۔