ہر سیاسی جماعت پی ٹی آئی کا خلا پر کرنے کے لئے کوشاں
کورونا کیسز میں قدرے کمی سے خیبرپختون خوا میں جہاں معمولاتِ زندگی آہستہ آہستہ بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں، وہیں اس صورت حال کا فائدہ بعض سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی کچھ نہ کچھ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی صورت میں اٹھانا شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میں سرِدست تو اے این پی سب سے زیادہ متحرک نظر آرہی ہے، البتہ جماعت اسلامی نے بھی عیدالاضحیٰ کے بعد ایک منظم پروگرام کے تحت بتدریج میدان میں نکلنے کا نہ صرف فیصلہ کرلیا ہے بلکہ اس سلسلے میں حال ہی میں مجلسِ عاملہ کے پلیٹ فارم سے منصوبہ بندی بھی کرلی ہے۔ صوبے کی ان دونوں سرکردہ جماعتوں کی دیکھا دیکھی پیپلزپارٹی اور قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدور نے بھی اپنی پریس کانفرنسوں کے ذریعے جہاں اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے، وہیں سیاسی میدان میں حکومت کی نااہلی اور ناکام پالیسیوں سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی سیاسی حکمت عملی بھی اپنائی ہے۔
خیبر پختون خوا کے مخصوص سیاسی حالات اور پی ٹی آئی کو صوبے کی سیاسی تاریخ کے برعکس دوسری مرتبہ ملنے والے بھاری مینڈیٹ نے صوبے کی تمام قابلِ ذکر جماعتوں کو جہاں بیک فٹ پر جانے پر مجبور کردیا تھا، وہیں ان جماعتوں نے اپنی ناکامیوں کا اپنی اپنی سطح پر جائزہ لینا بھی ضروری سمجھا تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ اب اپوزیشن کی ہر جماعت خود کو پی ٹی آئی کا متبادل ثابت کرنے کی نہ صرف خواہش مند ہے بلکہ یہ جماعتیں اپنی بساط کے مطابق اس خلا کو پُر کرنے کی بھی متمنی ہیں۔ واضح رہے کہ اس ضمن میں اے این پی دیگر تمام سیاسی جماعتوں سے نسبتاً زیادہ جارحانہ انداز میں سرگرم عمل ہے، جس کی نمایاں مثال اُس کی صوبائی قیادت کا مسلسل میڈیا میں اِن رہنا ہے، جس کے لیے انہیں جہاں حکومت کا کوئی نہ کوئی بلنڈر کیش کرنے کے لیے ہاتھ آجاتا ہے وہیں اے این پی نے اپنی تنظیمی صفوں کو از سر نومنظم کرنے اور خاص کر اپنے ناراض کارکنان اور عہدیداران پر جرگے کرکے انہیں پارٹی میں واپس لانے اور انہیں پارٹی میں عزت دے کر دوبارہ فعال بنانے پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کے ناراض عہدیداران اور خاص کر گزشتہ انتخابات میں قابلِ قدر ووٹ لینے والے دیگر جماعتوں کے امیدواران پر بھی فوکس کرتے ہوئے انہیں پارٹی میں شامل کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔گو کہ اے این پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی کے بعض پرانے اور دیرینہ عہدیداران، خاص کر سابقہ انتخابی امیدواران میں ردعمل اور خاموش احتجاج بھی پایا جاتا ہے، لیکن پارٹی کے نوجوان صوبائی صدر ایمل ولی خان اس سلسلے میں ایک عملی راہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پارٹی عہدیداران اور کارکنان کے سامنے ایک واضح روڈمیپ رکھا ہے جس کی بنیاد آئندہ انتخابات میں اے این پی کو ہرحال میں ایک بڑی کامیابی سے ہم کنار کرانا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی تنظیموںکو کہا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں صرف ایسے امیدواران کو ٹکٹ جاری کریں گے جو جیتنے کی واضح پوزیشن میں ہوں گے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ پارٹی کے روایتی نظریاتی کارکنوں کی پارٹی کے ساتھ کمٹمنٹ اور وفاداری پر کمپرومائز کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ یاد رہے کہ وہ اس پالیسی کے تحت اب تک کئی نامی گرامی شخصیات کو پارٹی میں شامل کرا چکے ہیں، جب کہ کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی سے اے این پی میں شامل ہونے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی یاسین خلیل کو پی ٹی آئی سے مزید افراد توڑنے کا خصوصی ٹاسک بھی دیا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ پی ٹی آئی کے دیگر عہدیداران کے علاوہ کم از کم دس موجودہ ایسے ارکان صوبائی اسمبلی بھی رابطے میں ہیں جو اگر ایک طرف پی ٹی آئی کی پالیسیوں اور حکومتی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں تو دوسری جانب یہ لوگ آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ممکنہ عبرت ناک انجام کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا سیاسی مستقبل کسی ایسی جماعت سے وابستہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں جس میں انہیں اپنا سیاسی مستقبل قدرے محفوظ نظر آرہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اے این پی نے اپنی صفوں کو منظم ومتحرک کرنے کا تاثر دینے کے لیے پارٹی میں جہاں جزا کا تصور متعارف کرایا ہے، وہیں بعض پارٹی راہنمائوں کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سز ا دے کر پارٹی نظم و ضبط پرسمجھوتا نہ کرنے کا پیغام بھی دیا ہے۔ اس سلسلے میں اگر ایک طرف پارٹی سے کچھ عرصہ قبل نکالے جانے والے سینئر قانون دان اور پارٹی کے مرکزی راہنما عبداللطیف آفریدی کو واپس پارٹی میں شامل کیاگیا ہے، وہیں پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور سینیٹر افراسیاب خٹک جیسے دیرینہ اور پرانے راہنمائوں کے پارٹی سے اخراج کے سخت فیصلے کے ذریعے پارٹی راہنمائوں اور کارکنان کو پارٹی ڈسپلن پر سختی سے پابندی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ اے این پی کی جاری سیاسی سرگرمیوں میں پچھلے دنوں میں جہاں ہارون بلور کی برسی کے ذریعے کارکنان کو متحرک کرنے کی کوشش کی گئی، وہیں باچا خان مرکز میں پارٹی کے نائب صوبائی صدر خلیل عباس خٹک مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کے انعقاد کے ذریعے بھی اگر ایک طرف پارٹی کے مرحوم راہنما کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا تو دوسری جانب اس سرگرمی کے ذریعے کارکنان کو عیدالاضحیٰ کے بعد بڑے پیمانے پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا پیغام بھی دیا گیا ہے۔
کورونا SOPsکی وجہ سے چونکہ کسی بھی جماعت کو کوئی بڑا سیاسی اجتماع کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے اے این پی نے اس موقع پر محدود سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے اپنے آپ کو نہ صرف میڈیا میں زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ اپنے کارکنان کو بھی کسی نہ کسی حد تک اور کسی نہ کسی سطح پرمتحرک رکھا ہے۔ اس سلسلے میں پچھلے دنوں یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ اے این پی نے اپنے خواتین ونگ کو متحرک کرتے ہوئے پریس کانفرنسوں اور مہنگائی کے خلاف ٹوکن احتجاج کے ذریعے سوشل اور روایتی میڈیا کو اپنی جانب راغب کیا۔ اس سلسلے کی ایک اور کڑی کے طور پر پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک زبردست بحث اُس وقت شروع ہوئی جب ایمل ولی خان نے اپنے ٹویٹر ڈی پی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لگایا (حالانکہ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں باچاخان اور ان کے پیروکاروں کو سبز رنگ سے اتنی چڑ تھی کہ وہ سبز رنگ کی مرچ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے)، جس کے جواب میں ایمل ولی خان نے لاگ لپیٹ رکھے بغیر ماضی کے تمام تر تلخ حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر لکھا کہ اگر وہ پاکستان کا جھنڈا اپنی ڈی پی پرنہ لگائیں تو کیا افغانستان کا جھنڈا لگائیں؟ انہوں نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پختون بلاشبہ نسلاً ایک ہیں اور اس نسبت سے افغانستان اور پاکستان کے پختون یکساں شناخت کے حامل ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان اور پاکستان دو لگ الگ اور خودمختار ملک ہیں اور اس حوالے سے ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایمل ولی خان کے اس نقطہ نظر کے پیچھے جہاں اے این پی کے پاکستان مخالف روایتی تصور کو زائل کرنا مقصود ہے وہیں انہوں نے اس پالیسی کے ذریعے مقتدر قوتوں کو بھی خوش کرکے آئندہ کے انتخابی سیٹ اَپ میں اپنے لیے ایڈوانس بکنگ کی کامیاب حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس رائے میں کتنی صداقت ہے، اس کا پتا تو آگے چل کر ہی لگے گا، لیکن ایک ایسے موقع پر جب پختون تحفظ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے پختونوں کے حقوق اور مسائل کو بنیاد بناکر ایک بڑی تحریک معاشرے میں اپنے قدم جما رہی ہے اور صوبے کے نوجوان بڑی تیزی سے اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں، اے این پی کے مستقبل کے روحِ رواں اور باچا خان خاندان کی چوتھی نسل کے چشم وچراغ ایمل ولی خان کے اے این پی کے صوبائی صدر کی حیثیت سے پاکستان سے اظہارِ محبت اور وفاداری پرشک وشبہ کے بجائے اگر اسے موجودہ زمینی حقائق جن سے اختلاف کیاجاسکتا ہے، کا درست ادراک قراردیا جائے توشایدبے جا نہیں ہوگا۔