بھنبھور کو عالمی ورثہ قرار دیے جانے کا امکان
آج سے چند ماہ قبل اسرائیل کے اخبار Haaretz میں قسیم سعید اور روتھ شوسٹر (Ruth Schuster) کی ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی۔ یہ رپورٹ دیکھ کر بے ساختہ علامہ اقبال کا یہ شعر ذہن میں آگیا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
یہ تحقیقی مضمون کراچی سے کچھ دور واقع بھنبھور کے مقام پر جہاں موئن جو دڑو اور سندھ کی قدیم تہذیب کی باقیات ہیں، وہاں موجود ہاتھی دانت کی صنعت کے حوالے سے ہے۔ اس مضمون کی تفصیل سے پہلے آج سے کم از کم پچاس سال قبل تحریر کی گئی مولانا ابوالجلال ندوی مرحوم کی اس تحریر کا حوالہ دینا بے جا نہ ہوگا۔ مولانا مرحوم کی سندھ کی قدیم تہذیب کے حوالے سے تحقیق و دریافت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اُن کے اس کام کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا اور اس کی پذیرائی بھی کی گئی۔ بھنبھور کے قدیم آثار میں عربوں کے سکّے دریافت ہوئے تھے، اس حوالے سے مولانا رقم طراز ہیں:
’’کراچی سے چل کر گھارو پر پہنچو، یہ مقام نارتھ ویسٹرن ریلوے کی کوٹری کراچی لائن پر Dhabe jo ڈابھے جو اسٹیشن کے پاس ہے، یہاں سے ½ 3 میل کی مسافت پر Gharo Creek میں ایک چٹانی علاقے میں 10 فٹ بلند ایک پہاڑی ٹیکری ہے Sasui jo Takerیعنی ساسوی کا پہاڑ، مشہور کہانی ساسوی اور پونیو کی داستان عشق کا مقام ہے۔ چند لوگوں کے نزدیک یہ مقام گھارو کریک کی Out post guarding ہے۔ 712ء عربوں کے حملے سے زیادہ قدیم نہیں ہے، اس تاریخ کی تائید یہاں کی یافتوں سے ہوتی ہے۔ لال رنگ کی پختہ مٹی کے روغن چڑھے ظروف اور عرب حکام کے تانبے کے سکوں سے جو یہاں پائے گئے ہیں، ایک سنگی دیوار کے پاس 80 سکے عرب حکام کے ملے ہیں۔
مجومدار نے سکوں کے نقوش اور حکام کے اسماء نہیں لکھے ہیں۔ یہ سکے ہندوستان یا پاکستان کے مخزنوں (Museum) میں نہیں ہیں۔ بیرون ممالک کے مخزنوں (Magazine) میں بکھرے ہوں گے۔ اسلامی دور کی تاریخ سے انگریزوں اور ہندوئوں کی بے اعتنائی قابلِ فہم ہے۔ پاکستان کی آرکیالوجی کی بے توجہی ناقابلِ توجہ نہیں، ان سکّوں کا نہیں تو کم از کم اُن سکوں کا عکس تو حاصل کرنا چاہیے۔ اگر یہ سکے اسلامی دور سے پہلے کے ہوتے تو ان پر کافی سے زیادہ توجہ مبذول ہوجاتی۔ اسلامی دور کی تاریخ کو اجاگر نہ ہونے دینا انگریزوں اور ہندوئوں کی ملی بھگت کا واجبی فریضہ تھا۔ قدیم ترین عربی سکوں پر مکتوب، حکام کے اسمائے گرامی کو گم کردینے کی ضرورت انگریزوں کو ضرور تھی لیکن کیا ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ اسلامی دور کو اجاگر نہ ہونے دیں؟ غالباً یہ وہی بھمبھور ہے جہاں میرے کراچی آنے سے کچھ دن بعد عباسی دور کا ایک نوشتہ ملا ہے جسے اموی دور کا خیال کیا گیا ہے اور جسے دیبل کے لفظ سے تطبیق دی جاتی ہے۔
ٹھٹھہ کے قریب انڈس کے بائیں بازو پر دو پہاڑیاں ہیں جو بدھ جوٹاکر کہلاتی ہیں۔ ان ٹیکریوں کے پاس Carter G.E.L کو چند Flints ملے۔ یہ یافتیں کہاں ہیں؟ ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سے بھولی بسری تاریخ کا کچھ اندازہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کی فکر کس کو تھی؟ ٹھٹھہ اسلامی دور میں سندھ کی پائگاہ (دارالحکومت) تھا، اس لیے یہاں کے آثار سے کسی کو کیوں دلچسپی ہونے لگی! ٹھٹھہ کی ایک مرتبہ زیارت کرچکا ہوں۔ اس کے آس پاس بزرگان سلف کی بہت سی یادگاریں ہیں، مقبرے ہیں، مساجد ہیں، خانقاہوں کے آثار ہیں۔ ان پر کتبے ہیں۔ لیکن اسلامی دورکی تاریخ کو تو بھولی بسری داستانیں بنائے رکھنا گویا ضرورت ہے۔ ہمارے لیے یہی فخر کافی ہے کہ سندھی مہروں اور دراوڑی زبان میں پانچ قسم کے دیوتائوں کے نام مکتوب ہیں۔ بھلا اس سے زیادہ قابلِ توجہ واقعہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ پانچ قسم کے دیوتائوں سے واقف ہونا اور قوم کو واقف کرنا، ان باطل دیوتائوں کے پجاریوں کی نسل سے ہونا قابلِ فخر بات ہے۔ رہا اسلام، تو اس کے تذکرے کو جس قدر عمیق گڑھے میں مدفون رکھا جائے وہ اسی قدر انسب ہے۔ دانش وری اور عقل و فہم کا یہی فریضہ ہے۔ سلام ہمارا اس قسم کی ’’اسلامی‘‘ ذہنیت کو پہنچے۔ اپنوں کو بھولو، غیروں کو یاد رکھو اور ان پر فخر کرو‘‘۔
(غیر مطبوعہ اوراق، مخزونہ ابوالجلال ندوی اکیڈمی، کراچی)
پچاس سال قبل لکھی گئی اس تحریر کا ایک ایک لفظ آج بھی اسی طرح سچ ہے۔ صورت حال مزید افسوس ناک یہ ہوگئی ہے کہ ہم اب اپنوں، غیروں کسی پر بھی تحقیق و توجہ کے قابل نہیں رہ گئے ہیں۔ بھنبھور میں موجود ہاتھی دانت کی مصنوعات کی دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی فیکٹری (IVory WorkShop) کی موجودگی کا انکشاف اسرائیل کے اخبار Haaretz میں ہورہا ہے۔
اس خبر میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو سندھ کے 2100 سال قدیم شہر بھنبھور کا دورہ کرتے ہوئے قدیم دور کی ہاتھی دانت کی نقاشی (IVory Carving) ورکشاپ کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدیم ورکشاپ اسلامی دورِ حکومت میں قائم ہوئی ہے۔
خبر کا یہ ابتدائی جملہ مولانا ابوالجلال ندوی کی بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس ورکشاپ یا اس قدر اہم تاریخی یافت کو صرف اس وجہ سے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا گیا کہ یہ اسلامی دور کی یادگار ہے جس سے تعلق جوڑنا باعثِ شرمندگی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 800 سال پرانی اس ورک شاپ میں سے 40 کلو گرام وزنی ہاتھی دانت کے ٹکڑے اس قدیم شہر کے کھنڈرات سے برآمد ہوئے ہیں، اس جگہ پر کام کرنے والے مزدوروں نے انہیں بے توجہی سے باہر نکال پھینکا۔
یونیورسٹی آف بولوگنا کے ماہر آثار قدیمہ Simon Mantellini کے مطابق تلاش کرنے والوں کو اب تک ہاتھی دانت کی بنی ہوئی اشیا نہیں ملی ہیں، جو چیز دریافت ہوئی ہے وہ ایک بہت بڑی کارپنٹری کا کچرا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس مقام پر Trench 9 کی کھدائی کا آغاز 2017ء میں ہوا۔ یہ بھنبھور کی بڑی مسجد (جو کہ اس علاقے کی قدیم مسجد ہے) اور اس کے شمالی دروازے کے درمیان میں واقع ہے۔ اس جگہ کی کھدائی کا کام اس مقام کی سائنسی انداز میں دریافتوں کے ایک صدی بعد شروع کیا گیا۔ اس کام کا آغاز حکومتِ سندھ کے محکمہ ثقافت و آثارِ قدیمہ اور اٹلی کے محکمہ خارجہ کے اشتراک سے کیا گیا، اور اس میں کیتھولک یونیورسٹی آف سیکر ڈپارٹ میلان کا اشتراک بھی شامل تھا۔
پروفیسر مینٹلنی نے جو کہ خود بڑے ماہرِ آثارِ قدیمہ اور سرامکس (مٹی کے برتن) کے ماہر ہیں، اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان آثار پر تحقیق کی اور ان کا کہنا ہے کہ یہ بلاشبہ اب تک دریافت ہونے والی ہاتھی دانت کی ورکشاپوں میں سب سے بڑی ورکشاپ ہے۔ اب تک دریافت ہونے والے ہاتھی دانتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ ورکشاپ اسلامی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ محض ایک آغاز ہے، اور یقیناً یہ ورکشاپ ایک بڑے صنعتی علاقے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے‘‘۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ ہاتھی دانت کا کوئی ایسا ذخیرہ اور نہ ہی کوئی ایسی ورکشاپ دنیا میں کہیں اور موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی اچھوتی دریافت ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہڑپہ کا قدیم شہر جو کہ جدید پاکستان کے وسط میں واقع ہے، اس کی دریافت انیسویں صدی کے وسط میں اتفاقی طور پر ہوئی تھی۔ ابھی تک یہ دعویٰ کرنا مشکل ہے کہ دنیا کا قدیم ترین شہر کون سا ہے، تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل اور ترکی کے بشمول وسطی علاقوں میں 9000 سال قبل کے آثار ملے ہیں۔ اس کے ساتھ ہندوستانی برصغیر میں بھی ایسے قدیم شہروں کے آثار ملے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں اس قسم کی آبادیوں کے آثار پائے گئے ہیں۔ سندھ میں قدیم Indus Valley Civiltization (جس کو ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں) نوہزار سال پرانی تہذیب ہے۔
بھنبھور کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہڑپہ کے مقابلے میں جدید شہر ہے جو کہ پہلی صدی عیسوی سے قبل آباد ہوا ہے۔ یہ کراچی کے مشرق میں 65 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے دہانے پر ہے۔ یہ شہر سیتھائی پارتھیائی عہد (Scytho-Parthian Period) میں قائم ہوا اور ہندو بدھ ادوار سے ہوتا ہوا اسلامی دور تک تیرہویں صدی میں برباد ہونے تک آباد رہا۔ اس کا نام بھی گم نہیں ہوا۔ پاکستان کی مشہور قدیم داستانوں کا اہم کردار ’’سسی‘‘ جس کو سندھ کی جولیٹ کہا جاتا ہے، بھنبھور کی رہائشی بتائی جاتی ہے، اور ’’پنوں‘‘ جو اس کا رومیو تھا، ایک تاجر تھا۔
اس شہر کی دریافت کے کام کا آغاز قیام پاکستان سے قبل 1928ء میں رمیش چندرہ مجومدار نے کیا جو ایک ممتاز مؤرخ ہند اور ماہر آثارِ قدیمہ تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد اس کام کی ذمہ داری 1958ء سے 1965ء کے درمیان فضل احمد کے سر آئی۔ بھنبھور کی جغرافیائی پوزیشن (جیسا کہ یہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے ساتھ سمندر سے بھی لگا ہوا ہے) کی وجہ سے اس شہر کو قدیم زمانے میں تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ بھنبھور کے مقام پر 14000 مربع میٹر پر محیط ایک بڑے قلعہ کے آثار بھی موجود ہیں۔ پرانی دریافتوں میں اس دیوار سے گھرے شہر کے علاوہ مختلف عمارتیں اور گلیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ اس شہر کو وسطی دور میں اسلام کے پھیلائو کے حوالے سے ابتدائی مقام قرار دیا جاتا ہے۔
711 عیسوی میں محمد بن قاسم کی قیادت میں عرب افواج نے سندھ کو فتح کیا۔ Sacred Haart University کے پروفیسر Piacentini کے مطابق بھنبھور دیبل کا ایک گم شدہ شہر ہے اور محمد بن قاسم اسی راستے سے سندھ میں داخل ہوا تھا۔ پیاسینٹنی کے اس خیال سے بہت سے لوگ متفق نہیں ہیں، کیوں کہ اس نے دوسرے علاقوں کے جغرافیائی حالات کے پیش نظر یہ خیال ظاہر کیا ہے۔ اس بات میں کبھی کوئی شبہ نہیں رہا کہ بھنبھور کا شہر معاشی لحاظ سے ایک فعال شہر تھا، اور اب ہاتھی دانت کی ایک وسیع فیکٹری کی موجودگی نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اسرائیلی پروفیسر Mantellini کا خیال ہے کہ ہاتھی دانت کے یہ بڑے ذخائر اس کی خوشحالی کا اہم سبب تھے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں بھی ہاتھی دانت کے ٹکڑے دریافت ہوئے ہیں۔
فیکٹری اور دریافتوں کے حجم سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ مصنوعات صرف مقامی آبادی کی ضروریات کے مطابق نہیں تھیں، بلکہ ان کو دور دراز مقامات پر بھی بھیجا جاتا ہوگا۔ ان ہاتھی دانتوں سے کون کون سی اشیاء بنائی جارہی تھیں، دریافت شدہ ٹکڑوں سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن مینٹلنی کے مطابق (مولانا ابوالجلال ندوی کی تحریروں سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے) بھنبھور کی اصل صنعت ہاتھی دانت کے بنائے ہوئے زیورات تھے۔ ماہرین کو چوکور ٹوٹے ہوئے ٹکڑے بھی ملے ہیں، لیکن جب ان کو جوڑ کر ملا کر دیکھا گیا تو ایک ڈونٹ (Donut) کی شکل کا دائرہ بن گیا۔ یہ ہاتھی دانت کی انگوٹھی کی باقیات محسوس ہوتی ہیں۔
بعض ٹکڑوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شطرنج کے نامکمل پیادے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بناتے وقت ٹوٹ گئے ہوں اور ان کو ضایع کر دیا گیا۔
قدیم اور وسطی دور میں ہاتھی دانت کی اہمیت سونے چاندی کے مساوی تھی۔ وادی سندھ سے لے کر روم تک اس کو ایک پُرتعیش شے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بھنبھور سے ملنے والے ہاتھی دانت کے آثار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بارہویں اور تیرہویں صدی میں اسلامی دور میں یہ شہر انتہائی خوش حال شہر ہونے کے ساتھ مقامی اور بین الاقوامی تجارت کا مرکز تھا۔ دوسری جگہوں سے آئی ہوئی اشیاء کی دریافت سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہاتھی دانت سے بنی مصنوعات کے بدلے میں یہ اشیاء منگوائی جاتی تھیں۔
Made In China:
جدید ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے قدیم دور میں تجارت کی اصل حد کا تعین کرنا بھی ایک مشکل امر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تجارت کا آغاز Cuneifom سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ مثال کے طور پر اناطولیہ کا برکاتی شیشہ (Obsidian) نوہزار سال نوحجری دور (Neolithic) کے آثار جو کہ یروشلم کے قریب Motza کے مقام پر ملے ہیں، سے دریافت ہوا۔ یہ چھوٹا سا آتش فشانی شیشہ براہِ راست تجارت کے ذریعے یہاں نہیں پہنچا ہوگا، اس کو یہاں پہنچنے میں وقت لگا ہوگا اور مختلف مقامات سے ہوتا ہوا یہ اس جگہ پہنچا ہوگا۔
مذکورہ مثال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قدیم حجری دور میں بھی تجارت سے اشیاء ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچائی جاتی تھیں، اور گزشتہ چند ہزار سال کے دوران تاجر سمندر کے راستے تیز رفتار تجارت کا کام کرتے تھے۔
چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدیم بھنبھور سے ہاتھی دانت کی مصنوعات کی برآمد ہوتی تھی اور اس کے بدلے کئی اشیاء درآمد کی جاتی تھیں جن میں شیشے کا سامان بھی شامل ہے۔
بین الاقوامی تجارت کی ایک اہم نشانی غیر ملکی ظروف ہیں۔ ہارٹز کی رپورٹ کے مطابق اسلامی دور کے بھنبھور سے بڑی تعداد میں برتن دریافت ہوئے ہیں جن میں سے بعض تو بہت سادہ اور روزمرہ کے استعمال کے برتن ہیں، جبکہ بعض ماہرانہ کاریگری کے شاہکار ہیں، مثلاً پانی کے جگ اور کیتلی کی شکل کے برتن۔ ان میں سے بعض برتن تو مقامی طور پر بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں سے کیتلی کی شکل کا برتن کھدائی کے ہر مقام سے دریافت ہوا ہے اور مزیدار بات یہ ہے کہ اس کی ساخت (کیتلی کی شکل) اب تک چلی آرہی ہے۔ ماہرِ آثارِ قدیمہ Fusaro کا کہنا ہے کہ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ برتن صدیوں سے آج تک زیراستعمال ہے۔ ایک اور برتن جس پر ماہرینِ آثارِ قدیمہ حیران ہیں وہ سنگ ریگ سے بنا ہوا برتن ہے جس کو Grayware کا نام دیا گیا ہے۔ فیو شارو کے مطابق اس کی صناعی میں بھی بے تحاشا مہارت اور تیکنیک درکار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مختلف برتن مختلف مقامات سے منگوائے گئے ہیں جن میں انڈیا اور چین بھی شامل ہیں۔
ان درآمد شدہ برتنوں میں سے خوبصورت برتن چین سے منگوائے جانے والے برتن ہیں۔ ماہرین کو پورسلین کے بنے ہوئے برتن ملے ہیں۔ یہ باریک دانوں کے بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کو اشیاء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کچھ درجن مرتبان بھی ملے ہیں۔ یہ مرتبان یورپ میں تیل، شراب اور چٹنی وغیرہ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ چینی برتن ایک ٹوٹی ہوئی کشتی (Belitung Ship wreck) میں ملے ہیں۔ یہ ایک عربی کشتی تھی۔ ظاہری طور پر انڈونیشیا سے نکلی تھی اور چین سے ہوتی ہوئی افریقہ کی طرف جارہی تھی۔ یہ 830 عیسوی کے قریب کی بات ہے۔ اس کشتی کے آثار سے 1998ء میں یہ مرتبان دریافت ہوئے تھے جو کہ چینی ساختہ ہیں لیکن ان کی تزئین اسلامی انداز کی ہے۔
بعد کے اسلامی دور میں بڑے زلزلے کے آثار بھی معلوم ہوئے ہیں۔ ہندوستانی برصغیر زلزلوں کے حوالے سے حساس ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھنبھور میں وقفے وقفے سے زلزلے آتے رہے ہیں اور 280 عیسوی میں یہ شہر تباہ ہوگیا تھا۔ بعد میں اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ تاہم بارہویں صدی میں یہ شہر اپنی تباہی کے آخری دور میں داخل ہوگیا۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب دریائے سندھ کا ڈیلٹا تہ نشین ہونا شروع ہوا تو مقامی افراد نے برتن بنانے شروع کردیے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تجارت ختم ہورہی تھی، خشک سالی نے اس جگہ کا رخ کیا اور دریا نے اپنا رخ بدل لیا، اور لوگوں نے اس علاقے کو چھوڑ دیا اور بھنبھور شہر خلیج میں تہ نشین ہوتا چلا گیا۔
اس کے بعد یہاں آبادی نہیں ہوئی۔ اب یہ علاقہ حکومتِ سندھ کی تحویل میں ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اس کو UNESCO کا تحفظ بھی حاصل ہوجائے۔ ہاتھی دانت کی اس شاندار صنعت کی دریافت کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس مقام کو عالمی ورثہ (World Heritage) کا حصہ بنادیا جائے۔ فی الحال یہ اس کی عارضی فہرست میں شامل ہے۔
مذکورہ بالا دو رپورٹوں کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں واقع یہ عظیم ورثہ اور عظیم تاریخ پہلے اپنوں کے ہاتھوں بالکل نظرانداز کردی گئی، بین الاقوامی محققین نے جانے انجانے میں اسے نظرانداز کیا، مگر اب اس کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر یہ مقام ان کی نظروں میں آگیا ہے۔ اور رپورٹ کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جلد ہی بین الاقوامی ادارے اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کریں گے۔ رہ گئے مقامی ماہرین اور ذمہ داران… اُن کے پاس کرنے کے لیے بہت سے دوسرے کام ہیں۔