جامعہ ملیہ ملیر کے عہد زریں کی آخری یادگار

جامع الکمالات
پروفیسر سیّد عطاء اللہ حسینی مرحوم

اس دنیا میں انسانوں کی آمد اور رفت ایک معمول کا عمل ہے۔ جو انسان بھی دنیا میں آیا، ایک نہ ایک دن قانونِ قدرت کے تحت اسے سفرِآخرت اختیار کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہم سب بقول اقبال قانونِ قدرت کے اسیر بھی ہیں اور اس کے اثر پذیر بھی:۔

ایک ہی قانونِ قدرت کے ہیں سب اثر
بوئے گل کا باغ سے، گلچیں کا دنیا سے سفر

ان رفتگاں میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں اور جب سے کرۂ ارض میں کورونا کی وبا پھیلی ہے یوں لگتا ہے کہ کاروانِ رفتگاں میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے میں دنیا سے ان کوچ کرنے والوں میں ایسے محترم انسان بھی شامل ہیں جو کسی ایک شعبے کے ماہر نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں جامع الکمالات کہلانے کے مستحق تھے۔ جامع الکمال ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جسے بیک وقت کئی شعبوں میں مہارت حاصل ہو۔ انہی محترم بزرگوں میں پروفیسر ڈاکٹر سید عطاء اللہ الحسینی بھی شامل تھے جنھوں نے مورخہ 14 جون 2020ء کو جامعہ ملیہ ملیر کراچی میں مختصر علالت کے بعد دنیا سے کوچ کیا اور اپنے لاتعداد شاگردوں، عقیدت مندوں، اہلِ تعلق، ہمدردوں اور بہی خواہوں کے دلوں میں یادوں کی کہکشاں چھوڑ گئے۔ پروفیسرصاحب اپنے اہلِ تعلق اور تلامذہ میں ’حسینی صاحب‘ کے نام سے معروف تھے اور پیش نظر مضمون میں ہم ان کا یہی نام لکھیں گے۔
راقم الحروف تو حسینی صاحب مرحوم سے شرف ِ تلمذ سے محروم رہا لیکن گزشتہ24 برسوں کے دوران ان کی رفاقت، ان کی معیّت میں اسفار، ان گنت طویل اور مختصر ملاقاتوں اور ان کی دینی، علمی اور رفاہی خدمات سے آگاہی کے پیش نظر راقم کے دل میں ان کا احترام کسی شاگرد سے کم نہیں۔ ان کی معیّت میں کراچی میں تو بار بار اسفار کے مواقع حاصل ہوئے لیکن مارچ 2006ء میں لاہور کا یادگار سفر بھی کیا۔ حسینی صاحب کے لاہور جانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ شیخِ طریقت اور معروف خطاط حضرت سیّد نفیس الحسینی سے روحانی تعلق قائم کرنا چاہتے تھے جن سے حسینی صاحب کا تعارف راقم کے ذریعے ہوا تھا۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، حسینی صاحب ایک جامع الکمالات بزرگ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بیک وقت عالم دین، مفسرِ قرآن، نامور استاد، مصنف، مترجم، شاعر اور منتظم کے علاوہ نہایت ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی تھے۔ راقم کو ان کی جو صفت سب سے زیادہ پسند تھی وہ زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اللہ کی ذات پر کامل توکل اور ہر طرح کے مشکل حالات کے باوجود کبھی حالات سے ہار نہ ماننے اور تنِ تنہا اپنا کام کرتے رہنے کی صفت تھی۔ حسینی صاحب کراچی کے معروف تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ ملیر کے عہدِ زرّیں کی آخری یادگار تھے۔ جامعہ ملیہ کے بانی اور سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر محمود حسین خان (وفات :12اپریل 1975ء) کے ساتھیوں میں وہ غالباً آخری استاد تھے جنہوں نے اس ادارے میں رہ کر کئی نسلوں کو نہ صرف زیورِ علمی سے آراستہ کیا بلکہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت بھی کی۔ حسینی صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ جامعہ ملیہ کے متعدد تلامذہ کو انھوں نے فنِ تقریر بھی سکھایا اور ایک زمانے میں کراچی کے بیشتر مقررین حسینی صاحب کے اس فن میں شاگرد رہے۔ جامعہ ملیہ ملیر کتنا خوبصورت ادارہ تھا اور یہاں طلبہ کی تعلیم و تربیت کا کتنا اعلیٰ معیار تھا، اور پھر 1974ء میں دیگر اداروں کے ساتھ اس ادارے کو کس طرح قومیا لیا گیا باَلفاظِ دیگر ایک بہترین ادارے کو کس طرح تباہ و برباد کیا گیا، یہ داستان نہ صرف دردناک ہے بلکہ افسوس ناک بھی۔ اس پوری داستان کے حسینی صاحب چشم دید گواہ تھے۔ مختصراً یوں سمجھیں کہ قومیائے جانے سے قبل جو ادارہ طرح طرح کے پھولوں پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستے کی مانند تھا اب وہی خوبصورت ادارہ تباہ و برباد ہوکر کانٹوں کے ڈھیر کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ڈاکٹر محمود حسین خان اور ان کے رفقا کی کوششوں سے جو خوبصورت تعلیمی عمارتیں تعمیر کی گئیں وہ اب کھنڈر بن چکی ہیں، جامعہ ملیہ کی زمینوں اور متعدد عمارتوں پر قبضے ہوچکے ہیں، نہ وہاں باغ اور پھول رہے اور نہ خوشنما مناظر۔ دیگر عمارتیں تو تباہ ہو ہی گئیں، ادارے کی لائبریری کو بھی تباہ و برباد کیا گیا اور بقول حسینی صاحب، اس عظیم الشان لائبریری کی قیمتی کتابیں بوریاں بھر بھر کے چوری کی گئیں۔ جامعہ ملیہ جیسے معیاری تعلیمی ادارے کی تباہی کی داستان ایک مکمل کتاب کی متقاضی ہے، یہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس ادارے میں ایک عمارت ایسی ہے جو نہ صرف تباہی سے بچی بلکہ حسینی صاحب کی مسلسل کوششوں سے اس میں نئی تعمیرات کا اضافہ بھی ہوا۔ یہ عمارت جامعہ ملیہ کی عظیم الشان جامع مسجد الفضل ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ پوری جامعہ ملیہ کو 1974ء میں قومیا لیا گیا لیکن ادارے کی مسجد کو حکومت نے اپنی تحویل میں نہیں لیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس مسجد کے ساتھ نہ تو دکانیں تھیں نہ کوئی ایسی عمارت جس کی آمدنی آتی، اور اس کے مغربی اور جنوبی جانب قبرستان، مشرقی جانب رہائش گاہیں اور شمالی جانب باب ِداخلہ ہے۔ حسینی صاحب کو ڈاکٹر محمود حسین مرحوم نے 1965ء میں جامع مسجد الفضل کی اعزازی خطابت کی ذمہ داری سونپی تھی جسے انہوں نے تاوقتِ آخر بڑی ذمہ داری سے نبھایا۔ اس کے علاوہ مسجد کی مرمت، نئی تعمیرات، اخراجات اور سہولیات کا بوجھ بھی حسینی صاحب نے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا تھا اور اسی مقصد کی خاطر انہوں نے ’’جمعیت برادرانِ جامعہ‘‘ نامی تنظیم بھی قائم کی تھی۔ راقم الحروف کی رہائش جامعہ ملیہ کے نزدیکی علاقے میںگزشتہ 36 برسوں سے ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا کہ اس علاقے کے مکینوں نے اپنے گھر تو کئی کئی منزلہ بنا لیے لیکن اللہ کے گھر کی خدمت سے عام طور پر غفلت ہی دیکھی گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اگر حسینی صاحب ایثار وقربانی کا مظاہرہ نہ کرتے تو خطرہ تھا کہ مسجد کی چھت اور دیگر متعلقہ تعمیرات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا، بلکہ چھت گربھی سکتی تھی۔ راقم نے بارہا مشاہدہ کیا کہ کوئی ساتھ دیتا یا نہ دیتا حسینی صاحب اس ضعیف العمری میں تنِ تنہا مسجد کی خدمت کے لیے کمربستہ ہوجاتے، یہاں تک کہ تقریباً نوّے سال کی عمر میں بھی انہوں نے مسجد کی خدمت سے سبک دوشی اختیار نہیں کی۔ راقم الحروف نے متعدد مرتبہ دیکھا کہ سخت گرمی کی چلچلاتی دوپہر ہو یا موسم سرما کی سرد رات، حسینی صاحب مسجد کے تعمیراتی کام خود کھڑے ہوکر مکمل کراتے اور کام میں معیار کا بڑا خیال رکھتے۔ ان کے نمایاں اوصاف میں یہ وصف بھی بڑی اہمیت کا حامل تھا کہ وہ جو بھی کام کرتے بھرپور سلیقے سے کرتے، اور ان کے ہر کام میں سلیقہ اور نفاست کا مظاہرہ ہوتا۔ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کرتے کہ ہمارے قومی مزاج میں سلیقہ شعاری کے بجائے روز بہ روز بے ڈھنگا پن بڑھتا جارہا ہے۔
ہم نے حسینی صاحب کا وہ دور نہیں دیکھا جب وہ جامعہ ملیہ، لیاقت کالج اور اسلامیہ کالج میں بحیثیت استاد فرائض انجام دے رہے تھے، لیکن ان کے اُس زمانے کے شاگرد ان کی بلند اخلاقی، عمدہ تدریس اور شفقت و محبت کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ چند برس قبل اقبال اکادمی لاہور میں راقم کی جناب احمد جاوید (ڈائریکٹر اقبال اکادمی) سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ وہ حسینی صاحب کے جامعہ ملیہ میں شاگرد رہ چکے ہیں، اور حسینی صاحب کا تذکرہ احترام آمیز الفاظ میں کرتے رہے۔ جامعہ ملیہ میں حسینی صاحب کے دیگر معروف تلامذہ میں شفیع نقی جامعی، طاہر مسعود، خالد جامعی، محمود غزنوی اور بے شمار افراد شامل ہیں۔ حسینی صاحب نے جامعہ ملیہ کے عہدِ زرّیں میں بہت سے تعمیری کام بھی کیے تھے جن میں ایک اہم کام یہ تھا کہ نقشوں اور چارٹوں کے ذریعے مکمل سیرۃ النبیؐ اس طرح پیش کی جائے کہ ناظر کو سیرتِ طیبہ کے ایک ایک مرحلے سے مکمل آگاہی ہوجائے۔ وہ فرماتے تھے کہ اس مقصد کی خاطر انہوں نے بڑی محنت سے نقشے اور چارٹ تیارکیے اور اپنی نگرانی میں کرائے تھے۔ یہ نمائش ہر سال ربیع الاول میں ہوتی، جو بھی انہیں دیکھتا وہ حسینی صاحب کی موضوع پر گرفت اور عمدہ پیشکش کی تعریف کرتا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جامعہ ملیہ کی دیگر اچھی چیزوں کی طرح ان نقشوں اور چارٹوں کو بھی برباد کردیا گیا۔
حسینی صاحب گو ایک معروف دینی ادارے کے فارغ التحصیل تھے لیکن ان کا معاملہ زاہد خشک والا ہرگز نہ تھا، بلکہ وہ ایک ہمدرد، شفیق اور خوش مزاج اور حالاتِ زمانہ سے باخبر بزرگ تھے۔ وہ مطالعے کے بڑے شائق اور ایک قیمتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں تفاسیر، سیرت، سوانح، تاریخ، شاعری اور دیگر موضوعات پر نہایت نادر کتب موجود ہیں۔ وہ آخر دم تک مطالعے کے شائق رہے اور اپنے کتب خانے میں نئی دینی، علمی و ادبی کتب کا اضافہ کرتے رہے، اور اب ان کی دلی خواہش تھی کہ 22 جلدی اردو لغت کا پورا سیٹ خریدیں اور اس سے استفادہ کریں۔ ان کی محفل بڑی پُرلطف ہوتی جس میں خشکی اور یبوست کا شائبہ بھی نہ ہوتا۔ ان کی گفتگو بڑی مدلل اور معلومات افزا ہوتی خصوصاً قرآن پاک کے تفسیری نکات پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ تفاسیر قرآن میں وہ علامہ آلوسی کی روح المعانی کو بہت پسند فرماتے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے کہ اب تک اس اہم تفسیر کا اردو ترجمہ کسی نے نہ کیا۔ اگر حالاتِ حاضرہ پر گفتگو فرماتے تو وہ بھی بڑی معلومات افزا اور مدلل ہوتی۔ اگر کسی سے اختلاف بھی کرتے تو اس قدر مہذب اور مدلل انداز میں کہ مخاطب بالآخر حسینی صاحب کی رائے کو قبول کرلیتا۔ دراصل حسینی صاحب کی شخصیت میں علم اور عملِ صالح کا بہت خوبصورت امتزاج نظر آتا تھا۔ ان کی شخصیت ایک وضع دار اور تہذیبی شخصیت تھی۔ ان کی شخصیت میں ہماری تہذیب کے وہ محاسن جمع ہوگئے تھے جن سے ہماری نئی نسلیں مادّیت کے سیلاب میں دور ہوتی جارہی ہیں۔ اس تہذیب کے بنیادی عناصر میں مضبوط سیرت و کردار، پاکیزہ اخلاق، معاملات میں راست روی، معاشرت میں حسنِ سلوک، مہمان نوازی،کلام میں صداقت، شرافت، خلوص، بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت کا سلوک، سلامت روی، اعتدال اور اسی طرح کے دیگر محاسن شامل ہیں۔ حسینی صاحب کی محفل بھی بڑی پُرلطف اور پُر از معلومات ہوتی۔ دورانِ محفل وہ کوئی دلچسپ واقعہ، شعر یا قول بھی سناتے۔ راقم کو ایسے بہت سے واقعات سننے کا موقع ملا جن میں سے تین واقعات درج ذیل ہیں:۔
ایک مرتبہ راقم نے حسینی صاحب سے دریافت کیا کہ جامعہ ملیہ سے وابستہ ایک صاحب ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ پروفیسر لکھتے ہیں حالانکہ انھوں نے کبھی کسی کالج میں تدریس کے فرائض انجام نہ دیے، نہ ہی ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پروفیسر ہیں۔ اس پر حسینی صاحب زیر لب مسکرائے اور فرمایا کہ پرانے زمانے میں رواج تھا کہ گھوڑا خریدنے سے قبل اسے چھے مقامات سے اچھی طرح دیکھا جاتا تھا یعنی آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، نیچے سے۔ ان چھے مقامات کو دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جاتا تھا کہ گھوڑا خریدا جائے یا نہیں۔ اب جن صاحب کے بارے میں آپ نے دریافت کیا ہے اگر انہیں چھے کے بجائے بارہ مقامات سے بھی دیکھا جائے تو کہیں آپ کو پروفیسر نظر نہیں آئے گا۔
حسینی صاحب ہومیوپیتھک طریقۂ علاج کے بھی ماہر تھے اور ہومیوپیتھی کی تعلیم انہوں نے کلکتہ سے حاصل کی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ جب وہ پہلی بار حیدرآباد سے کلکتہ پہنچے تو چند روز بعد حجامت کرانے ایک حجام کی دکان گئے اور اس سے کہا: بال کاٹ دو۔ یہ سن کر حجام غصے سے انہیں دیکھنے لگا۔ جب دوبارہ حسینی صاحب نے کہا کہ بال کاٹ دو تو وہ دوبارہ غصے سے دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد حجام نے ان سے پوچھا: کیا آپ باہر سے آئے ہیں؟ حسینی صاحب نے کہا: ہاں، حیدرآباد سے۔ اس پر حجام نے کہا کہ کلکتہ میں کسی حجام سے یہ نہ کہیں بال کاٹ دو بلکہ اسے ہمیشہ یہ کہیں: چُول کاٹ دو، کیوں کہ یہاں بال موئے زیرِ ناف کو کہتے ہیں۔
جیسا کہ ذکر آیا حسینی صاحب جامعہ ملیہ کے عہد زرّیں کے چشم دید گواہ تھے اور اس مثالی ادارے کی تباہی اور بربادی بھی انہیں دیکھنی پڑی۔ ایک روز دورانِ گفتگو انہوں نے 1974ء سے قبل کے جامعہ ملیہ کے اساتذہ کی فرض شناسی اور اعلیٰ کردار کے واقعات سنانے کے بعد موجودہ جامعہ ملیہ کے حالات سے متعلق حیرت انگیز واقعہ سنایا۔ فرمایا کہ اب اس ادارے کا حال یہ ہوچکا ہے کہ جامعہ ملیہ کے ایک خالی مکان میں کالج کے پرنسپل صاحب نے بھینس پال رکھی ہے۔ انہیں تعلیم اور تربیت سے تو کوئی دلچسپی نہیں البتہ بھینس اور اس کی دیکھ ریکھ سے بے حد دلچسپی ہے۔
پروفیسر سیّد عطاء اللہ حسینی کا تعلق حیدرآباد دکن کے مشائخ کے اہم سلسلے ملتانیہ قادریہ سے تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ تقریباً تین سو برس قبل ان کے بزرگ ملتان سے حیدرآباد دکن پہنچے تھے۔ اسی وجہ سے حیدرآباد دکن میں ان کی آبائی رہائش گاہ آج بھی ملتانیہ منزل کے نام سے معروف ہے۔ وہ 10 فروری 1931ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے اور وہیں جامعہ نظامیہ سے مولوی فاضل کی سند حاصل کی۔ عالم اسلام کے نامور محقق و مصنف ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھی جامعہ نظامیہ کے طالب علم رہ چکے تھے۔ حسینی صاحب کو جامعہ نظامیہ کے ایک سو پچیس سالہ جشن (منعقدہ اکتوبر 1996ء) میں پاکستان سے بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر دیگر حضرات کے علاوہ قطر سے ڈاکٹر یوسف رضا قرضاوی نے بھی شرکت کی تھی۔ حسینی صاحب نے ہومیو پیتھک طریقۂ علاج میں مہارت کی خاطر ایچ ایم بی کی ڈگری کلکتہ سے اور آر ایم پی کی ڈگری حیدرآباد دکن سے حاصل کی تھی۔ وہ مولانا ابوالوفاء افغانی کے ادارے لجنتہ الاحیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔ پاکستان آمد کے بعد انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور کراچی یونیورسٹی سے ایم اے (علوم اسلامیہ) کی سند حاصل کی۔ جن تعلیمی اداروں میں انہوں نے بحیثیت استاد خدمات انجام دیں ان میں علامہ عثمانی اسلامیہ اسکول اور جامعہ ملیہ پائلٹ سیکنڈری اسکول میں بحیثیت استاد عربی و اسلامیات شامل ہیں۔ اس کے بعد جن کالجوں میں بحیثیت صدر شعبۂ معارف اسلامیہ خدمات انجام دیں ان میں جامعہ ملیہ گورنمنٹ ڈگری کالج، اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج اور لیاقت گورنمنٹ ڈگری کالج شامل ہیں۔
حسینی صاحب کی علمی و ادبی خدمات میں چار سال تک روزنامہ جسارت اور روزنامہ انجام میں کالم نگاری بھی شامل ہے۔ متعدد مواقع پر انھوں نے فرمایا کہ روزنامہ جسارت میں انھوں نے اُس دور میں ادبی کالم لکھے جب مشفق خواجہ مرحوم نے جسارت میں لکھنا بند کردیا تھا۔ ان کی مطبوعہ کتب میں اسلامی نظام، نورالحقیقت، اسلام کی بنیادی تعلیمات، شاہد الوجوہ، مکاتیب حسینی کے علاوہ شعری مجموعہ موجِ خیال شامل ہے۔ غیر مطبوعہ کتب میں سوانح حسین شہید سہروردی، شعلہ مقالی، الاحزاب، مباحثاتی تقریریں، صحنِ وحدت، مقالاتِ حسینی اورتلخیص و ترجمہ رسالہ قشیریہ شامل ہیں۔
ایک نامور استاد ہونے کے باوصف حسینی صاحب عمدہ ادبی اور شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔ ان کی کتاب موجِ خیال میں نعتیں بھی ہیں، رباعیات بھی اور غزلیات و منظومات بھی۔ یہاں ہم موجِ خیال سے چند منتخب رباعیات پیش کرتے ہیں جن کے مطالعے سے اندازہ ہوگا کہ وہ حالاتِ حاضرہ اور حالاتِ اہل ِوطن کو کس نظر سے دیکھتے تھے:۔

افلاس نہیں دولت و زر کا افلاس
افلاس نہیں رزق و ثمر کا افلاس
قوموں کی تباہی کا سبب پہچانو
افلاس ہے وہ فکر و نظر کا افلاس
…٭…٭…
اب فتح و ظفر کی ہے علامت پیسا
ہرگام پہ آثارِ سعادت پیسا
تعلیم و سیادت کبھی ہوں گے معیار
اس دور کا معیارِ شرافت پیسا
…٭…٭…
گہوارئہ غفلت میں پلے جاتے ہو
فطرت کے مقاصد سے ٹلے جاتے ہو
دنیا میں کوئی کام تو کرتے جائو
ہوٹل ہے جو کھاپی کے چلے جاتے ہو
…٭…٭…
گو جذبۂ خدمت تو بہت عالی ہے
خادم کا مگر ہاتھ سدا خالی ہے
کیا اجر ملے دیکھیے عقبیٰ میں کل
دنیا میں تو خدمت کا صلہ گالی ہے

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا پروفیسر عطاء اللہ حسینی مرحوم ایک پُرعزم اور پُرعزیمت زندگی گزار کرمختصر علالت کے بعد مورخہ 14 جون 2020ء کو راہیِ ملک بقا ہوگئے۔ تدفین اسی شام جامع مسجد ابوالفضل جامعہ ملیہ کی جنوبی دیوار کے سائے میں ہوئی۔ بوقتِ تدفین راقم الحروف نے دیکھا کہ اسی مسجد کی شمالی دیوار کے سائے میں جامعہ ملیہ کے بانی ڈاکٹر محمود حسین خان، ان کی اہلیہ اور معمار جامعہ ملیہ ماسٹر عبدالحیّ آسودۂ خاک ہیں اور ڈاکٹر محمودحسین مرحوم کے رفقاء میں صرف حسینی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ جس مسجد کی خدمت انہوں نے تاوقتِ آخر کی اُس کی جنوبی دیوار کے سائے میں انہیں ان کی اہلیہ اور فرزندِ اکبر کو آخری آرام گاہ نصیب ہوئی۔
جہاں تک ان سطور کے عاجز راقم کا تعلق ہے جب سے حسینی صاحب نے دنیا سے کوچ کیا ہے، زندگی میں ایک بڑی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ ان کی بلند اخلاقی، شفقت، محبت، وضع داری، جذبۂ خدمت و خیر خواہی اور عزم و عزیمت کے واقعات یاد نہ آتے ہوں۔ ساتھ ہی ناصر کاظمی کا یہ نہ بھولنے والا شعر بھی بے اختیار یاد آجاتا ہے:۔

جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں

دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کے نیک نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین