بڑی خاموشی اور مستقل مزاجی کے ساتھ سندھ میں شعبۂ تعلیم میں یادگار اور شان دار خدمات سرانجام دینے والے سابق بیوروکریٹ، نامور ماہر تعلیم اور سکھر میں آئی بی اے جیسے عظیم الشان تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھنے والے پروفیسر نثار احمد صدیقی وائس چانسلر آئی بی اے یونیورسٹی سکھر بھی بالآخر اتوار 22 جون 2020ء کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں دل کے عارضے کے باعث انتقال کر گئے، اور اس طرح سے اپنے پیچھے اتنا بڑا خلا چھوڑ گئے ہیں جسے پُر کرنا ایک عرصے تک بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ مرحوم بلاشبہ سندھ میں اپنی شاندار تعلیمی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ نثار احمد صدیقی مرحوم اپنے جس کارنامے کی وجہ سے اہلِ سندھ کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے وہ یقیناً ان کی جانب سے سکھر میں آئی بی اے یونیورسٹی جیسے شاندار اور بے مثال تعلیمی ادارے کا قیام ہے۔ ہمارے اس دورِزوال میں ان کا یہ کارنامہ بلامبالغہ کسی کرشمے سے کم ہرگز نہیں ہے۔ صدیقی صاحب نے اس ادارے کی خشتِ اوّل ہی نہیں رکھی بلکہ اسے کامیابی اور عروج دلانے کے لیے شبانہ روز محنت کی اور ایک طرح سے اپنے خونِ دل سے اس شان دار تعلیمی ادارے کو سینچا۔ ادارے کے قیام سے لے کر بعدازاں اس کے لیے بجٹ کی منظوری، اور پھر اسے یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لیے انہوں نے جس طرح سے شبانہ روز جانفشانی کی ہوگی، اس کا اندازہ ہمارے ہاں کے مروجہ سفارشی، اقربا پروری اور رشوت ستانی میں رچے بسے ماحول کو دیکھ کر بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے قائم کردہ تمام تعلیمی اداروں بہ شمول آئی بی اے یونیورسٹی سکھر میں داخلے کا صرف اور صرف ایک ہی معیار رکھا گیا ہے، اور وہ ہے ٹیسٹ اور میرٹ۔ سندھ، جہاں کے حد درجہ انحطاط پذیر تعلیمی معیار کی وجہ سے یہاں پر سالانہ امتحانات میں بہ کثرت ’’نقل‘‘ اور ہزاروں غیر حاضر گھر بیٹھ کر بھاری تنخواہیں وصول کرنے کی وجہ سے دو بدنما اصطلاحات ’’کاپی کلچر‘‘ اور ’’گھوسٹ اساتذہ‘‘ رائج ہوچکی ہیں، وہاں پروفیسر نثار صدیقی مرحوم کی جانب سے نقل سے مبرا شاندار معیار کے تعلیمی اداروں کا قیام بلاشبہ اہلِ سندھ پر ایک احسانِ عظیم ہے جس پر اگر انہیں سندھ کا سرسید احمد خان بھی قرار دیا جائے تو اس میں مبالغہ نہ ہوگا۔
سندھ میں تعلیم کے فروغ کے لیے بے لوث اور مشنری انداز میں خدمات سرانجام دینے والی ماضیِ قریب اور حال ہی کی شخصیات میں سابق ڈپٹی کمشنر محمد ہاشم میمن مرحوم (بانی پبلک اسکول میر پور خاص)، حافظ وحید اللہ خان مرحوم (بانی حرا سیکنڈری ہائر اسکول سکھر)، پروفیسر شیخ محمد یوسف (بانی پرنسپل کیڈٹ کالج لاڑکانہ)، موجودہ پرنسپل بختاور گرلز کیڈٹ کالج ضلع شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ) ایشیا کا اوّلین گرلز کیڈٹ کالج) کے اسمائے گرامی بھی نمایاں ہیں، لیکن فی الوقت ذکرِ خیر پروفیسر نثار احمد صدیقی مرحوم کا ہورہا ہے، جن کی وفات کو بلامبالغہ سندھ میں شعبہ تعلیم اور تحقیق کے لیے ایک بہت بڑا اور ناقابلِ تلافی نقصان گردانا جارہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے قومی اور سندھی الیکٹرانک میڈیا نے اتنے بڑے سانحے کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی۔
بلاشبہ نثار احمد صدیقی مرحوم نے سندھ کے تعلیمی شعبے میں یادگار تعلیمی خدمات سرانجام دے کر خود کو تاریخ میں امر کرلیا ہے۔ مرحوم نے اپنے پیچھے بطور یادگار نہ صرف آئی بی اے سکھر (یونیورسٹی) جیسی عظیم الشان نشانی چھوڑی ہے بلکہ انہوں نے سندھ بھر میں آئی بی اے کمیونٹی اسکولوں اینڈ کالجوں کے نام سے معیاری تعلیم مہیا کرنے والی درس گاہیں بھی بطور سوغات قائم کرکے اہلِ سندھ کو دی ہیں جو سندھ کے غریب اور متوسط طبقے کے بچوں کو جدید سائنسی اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کررہی ہیں اور ان کی بدولت سندھ کے عوام انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
نثار صدیقی مرحوم کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ آئی بی اے یونیورسٹی سکھر سمیت تمام کمیونٹی اسکولوں اور کالجوں میں دورانِ امتحان نقل یا کاپی کلچر وغیرہ جیسے سندھ میں مروجہ مکروہ سلسلے دکھائی نہیں دیتے، بلکہ اس کے برعکس باصلاحیت، محنتی اور میرٹ پر پورا اترنے والے طلبہ و طالبات کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں بلا تخصیص ملک اور بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی اسکالر شپ پر فراہم کیے جاتے ہیں جو یقیناً کسی کارنامے سے کم ہرگز نہیں ہے۔ نثار احمد صدیقی مرحوم کو 14 اگست 2014ء کو ان کی شاندار تعلیمی خدمات پر حکومتِ پاکستان نے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا تھا۔ دو مرتبہ حکومتِ سندھ بھی انہیں گولڈ میڈل دے چکی ہے۔ مرنجاں مرنج، علم و عمل، شرافت اور عجز و انکسار کے پیکر نامور تعلیمی ماہر اور آئی بی اے سکھر کے بانی نثار احمد صدیقی 1944ء میں آموں، کھجوروں اور گلابوں کے شہر پریالو ضلع خیرپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پریالو ہی سے حاصل کی۔ 1971ء میں سندھ یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا۔ ابتداً لیکچرار بنے اور پھر سول سروس میں آگئے۔ 2004ء میں ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے عمرِ عزیز کی 77 بہاریں دیکھی تھیں۔ خاموش بیٹھے رہنا اور خوب سے خوب تر کی جستجو کو ترک کرنا مرحوم کو سخت ناپسند تھا۔ مرحوم اوائل عمر میں حساب، انگریزی اور معاشیات کے استاد بھی رہے۔ علاوہ ازیں سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر، کمشنر، ہوم سیکرٹری، ڈائریکٹر مینجمنٹ سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹس (سائٹ) بھی رہے۔ 2004-5ء سے آئی بی اے کی باقاعدہ تشکیل کے بعد اس ادارے کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، جب کہ 16 مئی 2017ء کو سندھ اسمبلی کی جانب سے قرارداد کی منظوری کے بعد آئی بی اے کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو وہ اس کے وائس چانسلر بنائے گئے اور تادمِ آخر اپنے قائم کردہ اس ادارے کو انہوں نے اپنے خون اور پسینے سے سینچے رکھا۔ انہوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان میں بھی پہلی مرتبہ کمیونٹی اسکولوں اور کالجوں کی بنیاد ڈالی۔ سندھ بھر میں اعلیٰ معیار کے کمیونٹی اسکول اور کالج بنائے جن میں طلبہ و طالبات ’’کاپی کلچر‘‘ کی سندھ میں مروجہ لعنت کے بغیر امتحانات میں حصہ لے کر میرٹ پر کامیابی حاصل کرتے ہیں، جسے یقیناً ان کی ایک شاندار اور یادگار کارکردگی سے تعبیر کیا جائے گا۔ مرحوم نے امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی سے 1987ء میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ نثار احمد صدیقی نے ویسے 30 برس تک تو ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے طور پر بھی کام کرکے بے حد نیک نامی اور شہرت حاصل کی تھی، لیکن آج انہیں ایک تعلیمی ماہر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور یہی حوالہ ان کی اصل شناخت بن چکا ہے۔
نثار احمد صدیقی مرحوم نے شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور میں بی بی اے کے شاگردوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ 1994ء میں چار کمروں پر مشتمل یونیورسٹی، سکھر پبلک اسکول میں قائم کرکے آئی بی اے نامی شاندار تعلیمی ادارے کی ابتدا کی اور اپنے اس ادارے کا الحاق آئی بی اے کراچی سے کرایا۔ بعدازاں یہی ادارہ یونیورسٹی کا روپ دھار گیا۔ آئی بی اے یونیورسٹی ظاہری طور پر ہی شاندار عمارات اور باغات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کا تعلیمی معیار بھی آئی بی اے کراچی، لمس (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس)، جی آئی کے (غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) جیسے تعلیمی اداروں سے کسی طور بھی کم ہرگز نہیں ہے۔ انہوں نے دورانِ ملازمت ہی سکھر میں ’’سکھر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن‘‘ المعروف ’’آئی بی اے‘‘ قائم کیا تھا۔ آج سندھ کے گوٹھوں، قصبات اور چھوٹے بڑے شہروں کے ہزاروںطلبہ و طالبات اس ادارے میں اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہی نہیں، سارے ملک سے اس ادارے کی اچھی شہرت اور عمدہ تعلیمی معیار کی بدولت طلبہ و طالبات یہاں بہ غرض حصولِ تعلیم آیا کرتے ہیں۔ اس ادارے میں ملک اور بیرونِ ملک سے اعلیٰ تعلیمی اسناد کے حامل اساتذہ پڑھاتے ہیں جنہیں بہت اچھا مشاہرہ اور مراعات حاصل ہیں۔ نثار احمد صدیقی کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے ادارے کے اساتذہ اور شاگردوں کو حکومتِ سندھ اور پاکستان سمیت بیرونی ممالک کے اداروں کی فنڈنگ سے ملک اور بیرونِ ملک اسکالر شپ پر پی ایچ ڈی کی سطح تک حصولِ تعلیم کا موقع فراہم کیا۔ سینکڑوں طلبہ و طالبات نے اس طرح پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کی ہیں اور ان میں سے کئی اب اس ادارے میں پڑھا بھی رہے ہیں۔ (غالباً ادارہ ہٰذا کے رجسٹرار زاہد کھنڈ اور پی آر او معراج مہر بھی ان میں شامل ہیں۔ میرے ایک شاگرد فاروق میمن بھی اس ادارے سے پڑھنے کے بعد یہیں استاد ہوئے اور اب بیرونِ ملک سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں)
پروفیسر نثار احمد صدیقی کی اچانک اس انداز میں دائمی جدائی سے تعلیم و تعلم اور تحقیق سے چاہت رکھنے والے افراد حد درجہ ملول اور افسردہ ہیں اور اہلِ علم بجا طور پر اس سانحۂ ارتحال کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان قرار دے رہے ہیں۔ نثار احمد صدیقی مرحوم کی نماز جنازہ آئی بی اے گرائونڈ سکھر میںادا کی گئی جس میں معروف سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی شخصیات سمیت ان کے ہزاروں شاگردوں نے شرکت کی اور آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ان کی تدفین آئی بی اے پارک سکھر میں پولیس کی جانب سے سلامی کے بعد کردی گئی۔ اس طرح سے ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ رہے نام اللہ کا… بلاشبہ پروفیسر نثار احمد صدیقی کی تعلیمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور یہ خدمات ان کے لیے توشۂ آخرت بھی ثابت ہوں گی۔
نثار احمد صدیقی نے سندھ کے وڈیروں، جاگیرداروں، پیروں، میروں اور وزیروں کی طرح اپنے لیے مال و زر اکٹھا کرنے کے بجائے اہلِ سندھ کو جس طرح سے 13 کمیونٹی کالج، 40 پبلک اسکول اور آئی بی اے یونیورسٹی کا تحفہ دیا ہے اِن شاء اللہ اس کی وجہ سے مرحوم کی یاد تادیر دلوں میںزندہ رہے گی۔