کورونا نامی وائرس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر جہاں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے وہیں روزگارِ زندگی کے مسائل، تعلیم کے مسائل، سماجی مسائل، معاشی مسائل اور دیگر کئی مسائل جنم لے چکے ہیں۔ تعلیمی مسائل کی اگر بات کی جائے تو پورے ملک میں تعلیمی ادارے حالات کے پیش نظر کئی ماہ سے بند پڑے ہیں اور طلبہ تعلیمی سرگرمیوں سے آزاد گھروں میں آرام کررہے ہیں۔
حکومتِ وقت کی طرف سے طلبہ کے تعلیمی نقصان کو پورا کرنے کے لیے آن لائن نظام تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں طلبہ گھر میں بیٹھ کر محفوظ انداز میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ علم دوست منصب داروں کی طرف سے یہ ایک اچھی کوشش ہے۔
عرصہ پہلے سنا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ کمپیوٹر استاد کی جگہ لے لے گا۔ اور آج وہ وقت یقینی طور پر آگیا ہے۔ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا انڈرائیڈ فون کے ذریعے طلبہ کسی بھی ادارے میں اپنا داخلہ کرا سکتے ہیں، کلاس لے سکتے ہیں، امتحان دے سکتے ہیں اور نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایک بہترین ٹیکنالوجی ہے۔
میری بصارت جہاں تک کام کرتی ہے، میں نے دیکھا کہ سو میں سے تیس طلبہ اس طرح کے طرزِ تعلیم سے مستفید ہورہے ہیں اور باقی کے ستّر طلبہ کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھنے کے باوجود اس طرزِ تعلیم سے بہرہ ور ہونے سے قاصر ہیں۔ میرا قلم یہ سوال کرنے کی جسارت کررہا ہے کہ جو باپ سارا دن کی مشقت کے بعد اپنے اہل و عیال کے لیے صرف دو وقت کی روٹی کمانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے مہنگی ٹیکنالوجی کہاں سے لا کے دے—؟
حالات بہتر ہوتے ہی جب تعلیمی ادارے پھر سے کھل جائیں گے اور پہلے کی طرح بچے حصولِ علم کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں جانا شروع کردیں گے، آئیے اُس وقت کی صورتِ حال کا پیشگی جائزہ لیتے ہیں۔ استاد بچے سے سوال پوچھے گا: نیوٹن کا تیسرا قانون کیا ہے؟ بچہ اگر کہے گا: معذرت جناب! میں نہیں جانتا۔ استاد کہے گا: آپ کو آن لائن کلاس میں یہ پڑھایا جا چکا ہے، پھر آپ کو کیوں یاد نہیں؟ طالب علم کا جواب ہوگا: جناب! میرے پاس لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی اس لیے کلاس میں غیر حاضر رہنے کی وجہ سے تمام لیکچرز سے لاعلم ہوں۔ تب وہ بچہ کس طرح کے امتحانات دے گا اور کس طرح کے نتائج کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا!
یہی نہیں اگر طلبہ کے بورڈ میں داخلے بھیجتے وقت آن لائن کلاس میں حاضری کو بنیاد بنا لیا گیا جو کہ عین ممکن ہے، تب کتنے طلبہ امتحان میں بیٹھ پائیں گے۔۔۔؟ دوسو کی کلاس میں سے صرف پچاس ساٹھ طلبہ ہی امتحان میں بیٹھ پائیں گے۔
گویا اب علم حاصل کرنا غریبوں کے بس سے باہر ہوتا نظر آرہا ہے۔
لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ جیسے وسائل اور آن لائن نظام تعلیم جیسے چونچلے ایک غریب کا بچہ کیسے برداشت کرسکتا ہے؟
ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے گوہرِ نایاب زیادہ تر ایسے ہی غریب طبقے کے چشم و چراغ ہوتے ہیں۔ ستّر اسّی فیصد طبقے کو ملکی معیشت اور قومی ترقی میں اضافہ بھی کرنا اور کمی بھی۔ تیس فیصد طلبہ جن کو جدید ٹیکنالوجی جیسی سہولیات بآسانی میسر ہوتی ہیں، صرف انھی پر ملکی و قومی ترقی کا انحصار نہیں کیا جاسکتا،اور تیس فیصد طلبہ کے اس گروہ کے لیپ ٹاپ، موبائل اور انٹرنیٹ کے طرزِ استعمال پر اگر غور کیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ تعلیم کے نام پر ٹیکنالوجی کا غلط استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔ طلبہ سارا سارا دن فیس بُک کا غلط استعمال کرنے، سوشل میڈیا پر دوستیاں کرنے اور دیگر ویب سائٹس پر غلط کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ آن لائن نظام تعلیم کی آڑ میں ایسے طلبہ کی اکثریت ڈیجیٹل فحاشی کی طرف تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ ایک کمرئہ جماعت میں استاد بچے کے سر پر کھڑا اپنے طور پر گن پوائنٹ پر پڑھانے کی کوشش کرتا ہے، تب بھی بعض طلبہ مثبت نتائج دینے میں ناکام رہتے ہیں، تو استاد کی عدم موجودگی میں ایسے طلبہ کی کیا صورتِ حال ہوگی!
طلبہ ہماری قوم کا اثاثہ ہیں۔ ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔ یہی اگر بگڑتے رہے تو قومی و ملکی تنزلی یقینی امر ہوجائے گا۔ میری حکام بالا سے اپیل ہے کہ قوم کے اثاثے کی فکر کیجیے۔ ملک کے سرمایے کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے مناسب اقدامات کیجیے۔ ایسے اقدامات جو طبقات کی تفریق سے بالاتر ہر ایک کے لیے یکساں منافع بخش ہوں۔