جنہیں زردشت، زرہ تشت، زردہشت اور زرتشترہ بھی کہتے ہیں۔ ان کے والد کا نام پوروشسب اور والدہ کا نام دغدو ہے۔ ان کا سلسلہ نسب فریدون تک پہنچتا ہے۔ یہ شاہ گشتاسب کے زمانے میں آذربائیجان کے علاقے ’’گزن شہر‘‘ یا ’’شیز‘‘ میں پیدا ہوئے۔ بیس سال کی عمر میں کوہِ سبلان میں واقع غار میں چلے گئے اور وہاں دس سال تک خدا کی عبادت اور رازِ آفرینش کے مطالعے میں مصروف رہے۔ جب اس راز سے آگاہ ہوئے تو دنیا کو اپنی نبوت کے اعلان سے آگاہ کیا۔ بہت سے لوگ انہیں قتل کرنے کے لیے امادہ ہوئے، مگر شاہ گشتاسب کے حکم سے دانش مندوں نے ان سے بحث مباحثہ کیا اور بالآخر سب نے انہیں پیغمبرانہ حیثیت میں قبول کرلیا۔ خود شاہ گشتاسب، کتایون اور شہبانو پہلے افراد تھے جو اس کے آئین پر ایمان لائے۔ وہ اپنی پیغمبرانہ تعلیم کو ’’اہورامزدا‘‘ کہتے ہیں، جس کے معنی داناے بزرگ ہستی کے ہیں۔ انہوں نے دین و اخلاق کی بنیاد سچائی، نیکی اور پرہیزگاری پر رکھی ہے۔ ان کے قانون کے تین بڑے ہدف اندیشہ نیک، گفتارِ نیک اور کردارِ نیک ہیں۔ زرتشت روح کی بقا اور آخرت پر یقین رکھتے تھے۔ زرتشت کے بقول ان پر جو الہام نازل ہوئے وہ اوستائی زبان میں تھے اور وہ منظوم گیت تھے، جن کا نام ’’گاتھا‘‘ تھا۔ ایران پر تورانیوں کے دوسرے حملے کے دوران 77 سال کی عمر میں اپنے ستّر پیروکاروں کے ساتھ بلخ کے عبادت خانے میں عبادت کے دوران ’’براتور‘‘ نامی تورانی کے ہاتھوں مارے گئے۔
۔(پروفیسر عبدالجبار شاکر)۔
قابلیت
ایک بڑے جہاز کا انجن فیل ہوگیا۔ جہاز کے مالکان نے بہت سے مکینک بلائے، لیکن ان میں سے کوئی بھی انجن کی خرابی دور نہ کرسکا۔ تب وہ ایک بوڑھے آدمی کو لائے جو اپنی جوانی میں جہازوں کی مرمت کرتا رہا تھا۔ اپنے ساتھ وہ ایک بڑا تھیلا اوزاروں کا ، اور جیسے ہی وہ آیا اُس نے فوراً مرمت کرنا شروع کردی۔ اس نے انجن کو بہت ہی غور سے دیکھا۔ جہاز کے دونوں مالک وہاں موجود تھے اور اس مکینک کو دیکھ رہے تھے، اس امید پر کہ وہ جانتا ہوگا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد اس بوڑھے آدمی نے اپنے تھیلے میں سے ایک چھوٹی سی ہتھوڑی نکالی اور نرمی سے کسی جگہ اس سے چوٹ لگائی۔ فوراً ہی انجن میں جان پڑ گئی اور وہ چلنا شروع ہوگیا۔ اس نے احتیاط سے ہتھوڑی اپنے تھیلے میں رکھ دی۔ انجن ٹھیک ہوگیا تھا۔
ایک ہفتے بعد جہاز کے مالکوں کو اس بوڑھے مکینک سے دس ہزار ڈالر کا بل موصول ہوا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ جہاز کے مالکان چلاّئے ’’اس نے مشکل سے کوئی کام یا محنت کی تھی!‘‘
انہوں نے اس بوڑھے مکینک کو خط لکھا کہ وہ مہربانی سے اپنا تفصیلی بل بھیجے۔ اس شخص نے ایک بل بھیجا جس پر لکھا تھا:
’’ہتھوڑی سے چوٹ مارنے کے لیے… دو ڈالر
ہتھوڑی کہاں مارنا تھی… نوہزار نو سو اٹھانوے ڈالر۔
۔(پروفیسر اطہر صدیقی)۔
لاڈ، پیار اور بچے
ایک بندریا کے دو بچے تھے۔ ایک کو بہت چاہتی تھی اور دوسرے کو کم۔ ایک روز عقاب یعنی گدھ بندریا پر ٹوٹا۔ خوف کی حالت میں بندریا اپنے پیارے بچے کو گود میں اٹھا کر بھاگی اور دوسرے کو چھوڑ چلی۔ جب اس بچے نے دیکھا کہ ماں نے اس کو موت کے حوالے کردیا تو وہ ازخود دوڑ کر بندریا کی پیٹھ پر لپٹ گیا۔
بندریا ایک درخت سے کود کر دوسرے درخت پر جانا چاہتی تھی کہ گود سے پیارا بچہ چھوٹ کر زمین پر گرا اور مرگیا اور وہ دوسرا بچہ پیٹھ سے لپٹا ہوا صحیح سلامت بچ گیا۔
حاصل: جو لڑکے ماں باپ کے لاڈ پیار پر بھول کر اپنی فکر نہیں کرتے، تباہ ہوجاتے ہیں۔
۔(نذیر احمد دہلوی، منتخب الحکایات)۔