مسلمان زندگی فرعون کی پسند کرتا ہے اور عاقبت موسیٰ کی…۔

یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ خوش نصیب کون ہے۔ کسی بڑے خوش نصیب کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوسکتا ہے کہ خوش نصیبی کسے کہتے ہیں۔ ہمارے عقیدے اور معلومات میں پیغمبر ہی خوش نصیب ہیں۔ وہ لوگ جن کی زندگی دوسروں کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔ جن کا ذکر بھی اہلِ فکر حضرات کے لیے سکون و برکت کا باعث ہے۔
اگر ہم کسی پیغمبر کی پوری زندگی کو غور سے دیکھیں تو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ان کی خوش نصیبی نے کیا کیا منظر دیکھے اور کیا کیا منزلیں طے کیں۔ ایک پیغمبر بیٹے کی جدائی میں روتے روتے بینائی سے محروم ہوگئے۔ پیغمبر ہیں اور بیٹے سے جدا، اور بیٹا بھی پیغمبر۔ بیٹے کی پیغمبری کی ابتدا کنویں میں گرنے سے ہوتی ہے۔ خوب صورت اور خوب سیرت پیغمبر، بھائیوں کے ناروا سلوک سے آشنا۔ اور پھر بازارِ مصر ہے اور پیغمبر کو بیچا جارہا ہے، اور پھر الزام تراشی اور قید خانے کی صعوبت۔ معصوم ہیں، لیکن مقید۔ مصر کا مالک مصر کے قید خانے میں۔ عجب حال ہے۔ علم والے ہیں، عزت والے ہیں، مرتبے والے، حسن والے۔۔۔ اللہ کے اتنے قریب ہیں کہ قرآن میں آپ کے تذکرے ہیں۔ آپ کا ذکر احسن القصص ہے۔ آپ کا حسن مثالی ہے۔ خوش نصیبی کی انتہا ہے۔
ایک اور پیغمبر۔ خوش نصیب پیغمبر۔ کم و بیش ہزار سال تک اللہ کے دین کی تبلیغ فرماتے ہیں، دین کی خدمت کرتے ہیں اور آخرکار اپنے بیٹے کو طوفان کی نذر ہوتے دیکھتے ہیں۔ التجا کرتے ہیں، خدا سے التجا کہ میرا بیٹا بچالو۔ حکمِ خداوندی آتا ہے کہ ’’بیٹا جب باپ کے عقیدے پر ہی نہ ہو تو کیا بیٹا۔۔۔ جانے دو لہروں کے سنگ‘‘۔ پیغمبر ہیں اور خوش نصیب ہیں، اس لیے خاموش رہتے ہیں۔ نبوت سلامت رہتی ہے اور زندگی خوش نصیبی میں کٹ جاتی ہے۔
ایک اور پیغمبر مچھلی کے پیٹ میں، نبوت لیے، تقرب لیے۔ خوش نصیبی ہے، لیکن مچھلی کا پیٹ بھی ہے۔
کسی پیغمبر کو آرے میں چیر دیا جاتا ہے، اُف نہیں کی جاتی، کیونکہ اُف کرنا خوش نصیبی کے خلاف ہے۔ کتنے پیغمبروں کا ذکر کیا جائے! ایک پیغمبر گھر سے بے گھر۔ بادشاہ وقت سے مقابلہ، دولت والے کے خلاف۔ بادشاہت والے، سلطنت والے، دبدبے والے، انسان کے خلاف ایک پیغمبر، جس کے پاس مال و زر نہیں، تخت و تاج نہیں، بس صرف خوش نصیبی ہے۔ بادشاہ دریا کی موجوں میں غرق ہوتا ہے اور پیغمبر کو آسودئہ منزل کردیا جاتا ہے۔ پیغمبر کا مشن پورا ہوگیا، خوش نصیبی ہے۔ بڑا نصیب ہے۔
اور پیغمبروں کے ذکر میں اس آخری رسولؐ، عزت و شوکت والے پیارے نبی یعنی حضور اکرمؐ کا ذکر کیسے نہ آئے! آپؐ سے زیادہ دنیا میں کون خوش نصیب ہوسکتا ہے! ایک طرف اللہ اور اس کے فرشتے آپؐ پر درود بھیجتے ہیں، دوسری طرف دنیا میں آپؐ کے جاں نثار آپؐ پر درود و سلام اور نعت کے ہدیے پیش کرتے ہیں۔ آپؐ ایسے خوش نصیب ہیں کہ اپنے تو اپنے، بیگانے بھی آپؐ کو عقیدت کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ آپؐ اتنے خوش نصیب ہیں کہ جو آپؐ کا غلام ہوگیا، وہ بھی خوش نصیب کردیا گیا۔ لیکن غور طلب بات ہے کہ آپؐ کی زندگی کس کس راہ سے گزری۔ آپؐ پر کیا کیاوقت آیا۔ کون کون سے مراحل آئے۔ آپؐ سلطان الانبیا ہیں اور آپؐ پر کوڑا پھینکا گیا۔ آپؐ باعثِ تخلیق ِکائنات ہیں اور آپؐ پر زمین تنگ کردی گئی۔ ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ آپؐ نے کفار سے پتھر کھاکر اپنے بہنے والے خون سے انہی کفار کے لیے دعائیں لکھیں۔ کسی پر لعنت نہ بھیجی۔ خوش نصیبی کی انتہا ہے کہ پیوند والا لباس زیب تن ہے اور آسمانوں سے بلاوا آتا ہے کہ اللہ اپنے خاص بندے کو آج سیر کرائے گا۔ کیا کیا نہ دکھائے گا، کیا کیا نہ بتائے گا۔ کیا کیا نہ آشکار ہوگا۔ سب کچھ ہوگا۔ سب ماضی سے ملاقات ہوگی اور مستقبل کے بھی جلوے آشکار ہوں گے۔ امت کے لیے دعائیں منظور ہوں گی، رفعتوں کی مسافت طے ہوگی، قاب قوسین بلکہ اس سے بھی آگے۔ جلوہ، جلوے کے روبرو ہوگا۔ آئینہ آئینے کے روبرو ہوگا۔ انسان اللہ کے قریب ترین ہوگا۔ ایسا قرب کہ نہ کبھی ہوا نہ کسی کو حاصل ہوگا، لیکن لباس میں پیوند رہے گا۔ خوش نصیبی وجود کا ظاہر نہیں، وجود کا باطن ہے۔
یہ بات ہمیں سمجھ میں نہیں آسکتی کہ امام حسینؓ کیوں خوش نصیب ہیں۔ آپ پر کربلا گزری اور یہ بہت کٹھن منزل تھی۔ کیا کیا نہ ہوا۔ کون سا غم تھا جو نہ ملا ہو۔ کون سا مرحلہ تھا، جو نہ آیا ہو۔ مراحل ہی مراحل، مشکل ہی مشکل۔ خود مشکل کشا اور یہ ابتلا۔ مالک ذوالفقار کے اور پھر جلوے گردشِ روزگار کے۔ بڑے نصیب کی باتیں ہیں۔ تقرب کے صحیفے ہیں۔ زمین پر ہونے والا آسمانی کرشمہ۔ خود تماشا و خود تماشائی۔ عجب صورت حال ہے۔ خوش نصیبی کی شرح دل پذیر اپنے خون سے رقم کررہے ہیں۔ سید الشہدا نے خوش نصیبی کو وہ رنگ عطا کیا کہ کہنے والے برملا کہہ اٹھے:۔

حقا کے بنائے لاالٰہ است حسینؓ

یہ سب حسین اوراق ہیں، خوش نصیبی کی کتابِ مقدس کے۔ یہ سب مقطعات ہیں، خوش نصیبی کی الہامی کتاب کے۔ کون جانے اور کون سمجھے۔ علم کے مخفی خزانوں کی کنجیاں ہیں، ان خوش نصیبوں کے پاس۔ ساقی کوثر ہیں اور دریا کے کنارے پر پیاسے ہیں۔ یہ سب راز ہائے سربستہ کی کرشمہ کاریاں ہیں۔ آج کا انسان کیا جانے کہ خوش نصیبی کیا ہے۔ آج کسی کو غریبی اور پیغمبری اکٹھی مل جائے تو وہ پیغمبری سے استعفیٰ دے دے۔ اگر آج کے انسان کو دولت اور خدا میں سے ایک کو چننا پڑے تو وہ دولت قبول کرلے گا۔ دل اور شکم کا قصہ تو اقبالؔ نے فرمادیا کہ

دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت

آج کا انسان صرف دولت کو خوش نصیبی سمجھتا ہے اور یہی اس کی بدنصیبی کا ثبوت ہے۔ آج کا انسان یا مسلمان زندگی فرعون کی پسند کرتا ہے اور عاقبت موسیٰ کی۔ بدقسمت ہے آج کا انسان۔ آسائشوں کا گرفتار، نمائشوں کا پرستار، آرائشوں کا پجاری، آلائشوں کی بیماری میں کراہ رہا ہے۔ اس کا دل بجھ چکا ہے، لیکن اس کے مکان میں قمقمے روشن ہیں۔ وہ لذت وجود کی لعنت میں گرفتار ہے۔ اسے کسی بڑے مقصد سے تعارف نہیں۔ وہ صرف سنچریاں ہی بناتا ہے اور پھر کلین بولڈ ہوکر رخصت ہوجاتا ہے۔
۔(”دل دریا سمندر“)۔

بیادِ مجلس اقبال

علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خِرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

اس شعر میں علامہ نے مغربیت سے مرعوب افراد کو یہ مشورہ دیا ہے کہ مغرب کے زہریلے تہذیبی اثرات اور مغربی برتری کے جادو کا توڑ رومیؒ کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہے۔ علامہ کے مطابق مغرب کی ذہنی غلامی کے نتیجے میں غور و فکر کی بہت سی صلاحیتیں مُردہ ہوجاتی ہیں اور انہیں جس حرارت اور سوز کی تپش سے زندہ کیا جاسکتا ہے وہ رومیؒ کے ارشادات یا رومیؒ کی محفل سے ملتا ہے۔ یہ وہ تجربہ ہے جس سے اقبال خود فیض یاب ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ تم بھی میری طرح اپنے آپ کو پیر روم کے ساتھ جوڑ لو کہ انوار و افکارِ رومی سے فیض حاصل کرکے اپنی عقل کو مغرب کی غلامی کی بیماری سے آزاد کرسکو۔