حکومتوں کی ناکامی مذاق نہیں۔ جب دو تین حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو صرف حکومتیں ناکام ہوتی ہیں۔ جب پانچ چھے حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو پھر ’’نظام‘‘ ناکام ہوتا ہے۔ لیکن جب ہر حکومت ناکام نظر آنے لگے تو ریاست کی ناکامی کا تاثر پیدا ہوجاتا ہے
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سوات میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ” موجودہ حکومت زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ چار پانچ ماہ میں خود ہی ’’ہینڈز اَپ‘‘ کردے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زمیں بوس ہوچکی ہے، وزراء اپنی ناکامیوں کا خود اعتراف کررہے ہیں، موجودہ حکومت کی ناکامی دیوار کا لکھا ہے“ لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ صرف عمران خان کی حکومت ناکام ہوئی ہے، پاکستان میں ہر حکومت ناکام ہوئی ہے۔ حکومتوں کی ناکامی مذاق نہیں۔ جب دو تین حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو صرف حکومتیں ناکام ہوتی ہیں۔ جب پانچ چھے حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو پھر ’’نظام‘‘ ناکام ہوتا ہے۔ لیکن جب ہر حکومت ناکام نظر آنے لگے تو ریاست کی ناکامی کا تاثر پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر حکومت کی ناکامی ریاست کے لیے وجودی یا Existential خطرہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے لیے ریاست کی ناکامی کیا، ریاست کا انہدام بھی کوئی خیالی بات نہیں۔ 1971ء میں پاکستان دولخت ہوچکا ہے۔
پاکستان کے فوجی آمر خود کو دیوقامت ثابت کرنے میں لگے رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومتیں جس طرح ناکام ہوئیں، سول حکومتیں اس طرح ناکام نہیں ہوئیں۔ جنرل ایوب خود کو پاکستان کا ’’گاڈ فادر‘‘ سمجھتے تھے، لیکن چند سال پہلے سامنے آنے والی ‘American Paper’ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954 سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ خفیہ مراسلے تحریر کرکے امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان پاکستان کو تباہ کررہے ہیں، اور فوج ان کو ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ پاکستان کے سیاست دان واقعتاً ملک کو نقصان پہنچا رہے ہوں گے، مگر سوال یہ ہے کہ جنرل ایوب نے گھر کے پوتڑے امریکیوں کے سامنے کیوں دھوئے؟ انہیں مارشل لا لگانا تھا، لگا دیتے۔ لیکن مارشل لا کے لیے امریکہ کی حمایت کی کیا ضرورت تھی؟ جنرل ایوب کی امریکہ پرستی نے جنرل ایوب کی پاکستانیت کو سرسری، سطحی اور مشتبہ بنادیا۔ بلاشبہ جنرل ایوب وہ شخص ہیں جنہوں نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو “Americanization” کا ’’تحفہ‘‘ دیا۔ Americanization اپنی اصل میں “Satanization” کے سوا کچھ نہیں۔ جنرل ایوب نے پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کے چنگل میں پھنسا دیا۔ اس طرح ہمارا دفاع 50 سال کے لیے ’’امریکہ مرکز‘‘ ہوگیا۔ جنرل ایوب ہی نے مغرب کے مالیاتی اداروں کو پاکستان پر مسلط کیا اور ہماری معیشت کو ’’عالمی بینک مرکز‘‘ اور ’’آئی ایم ایف مرکز‘‘ بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جنرل ایوب اس طرح امریکہ کی گود میں بیٹھے کہ خود انہیں اپنے امریکہ پرست ہونے پر شرمندگی لاحق ہونے لگی۔ اس شرمندگی کو کم کرنے کے لیے انہوںنے ‘Friends Not Masters’ لکھی اور یہ تاثر دیا کہ وہ امریکہ کے دوست ہیں اس کے غلام نہیں۔ لیکن دوستوں کو کبھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ کسی کے غلام نہیں ہیں۔ یہ ضرورت صرف غلاموں کو پڑتی ہے۔ جنرل ایوب 11 سال اقتدار میں رہے۔ وہ رخصت ہوئے تو جنرل یحییٰ اقتدار میں آگئے۔ ان کا دورِ حکومت تین سال پر مشتمل ہے۔ اس طرح 1958ء سے 1971ء تک 14 سال فوجی آمروں کی حکومت رہی۔ سقوطِ ڈھاکہ اسی فوجی آمریت کا نتیجہ تھا۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان کو دیوار سے لگانے میں اہم کردار اداکیا۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ 1962ء تک بنگالیوں کو فوج میں نہیں لیا جاتا تھا، اور 1971ء میں جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی صرف 15 فیصد تھی حالانکہ وہ ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اپنی اصل میں ظلم وناانصافی اور جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی حکومتوں کی ناکامی ہی کا نتیجہ تھی۔ غور سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کے نشے نے ہماری فوجی قیادت کو روحانی، اخلاقی، ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے بالکل بانجھ کردیا تھا۔ جنرل نیازی نے مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران فرمایا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر Rape کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل دیں گے۔ جنرل ٹکا خان نے فرمایا کہ ہمیں علاقہ چاہیے، لوگ نہیں۔ جنرل یحییٰ کے بارے میں جنرل رحیم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ مشرقی پاکستان کے بحران کے درمیان ایک دن جنرل یحییٰ سے ملنے پہنچے تو وہ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ جنرل رحیم نے ٹی وی بند کرنا چاہا تو جنرل یحییٰ نے کہا کہ ٹی وی بند نہ کرو نورجہاں کا گانا آنے والا ہے۔ ایسی قیادت اور ایسی قیادت سے بننے والی حکومت ملک کو سنوارتی نہیں، اسے تباہ و برباد کرتی ہے۔
جنرل ضیاء الحق روحانی اور اخلاقی طور پر جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ سے بہت بہتر تھے، مگر وہ بھی ایک فوجی آمر ہی تھے۔ وہ چاہتے تو ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلزپارٹی کو ایک ’’سیاسی حریف‘‘ کے طور پر لے سکتے تھے، مگر انہوں نے بھٹو اور پیپلزپارٹی کو ’’دشمن‘‘ کی طرح لیا۔ ان کی اس روش نے پاکستان کے سیاسی وجود کو لہولہان کردیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ کسی جواز کے بغیر بھٹو کو پھانسی دی، بلکہ انہوں نے دیہی سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک کو کچلنے کے لیے بے پناہ طاقت استعمال کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیہی سندھ کے حالات مخدوش ہوگئے۔ حالات کی خرابی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ مولانا نورانی اور پروفیسر غفور جیسے لوگوں نے بیانات میں کہا کہ دیہی سندھ کے حالات مشرقی پاکستان جیسے ہوگئے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو وہ پاکستان سے الگ ہوگیا۔ سندھ کے حالات مزید خراب ہوتے تو سندھ بھی پاکستان سے علیحدگی کی راہ پر جا سکتا تھا۔ کم از کم جنرل ضیاء الحق نے اس سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک آمر کی حکومت نے ایک بار پھر ملک کی وحدت اور سلامتی کو دائو پر لگا دیا تھا۔ جنرل ایوب نے پاکستان میں Americanization کا جو خبیث پودا لگایا تھا وہ نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف کے دور میں ایک تناور درخت بن کر ابھرا۔ جنرل پرویزمشرف اور ان کے فوجی رفقا نے ملک کی آزادی، خودمختاری، وقار، عزت و ناموس کو بیچ کھایا۔ انہوں نے ملک کے ہوائی اڈے اور بندرگاہ امریکہ کے حوالے کردیے۔ جنرل پرویز کے دور میں فوج حقیقی معنوں میںکرائے کی فوج بن کر ابھری۔ اس کی عزت و وقار کو اس دور میں وہ ٹھیس لگی کہ جنرل پرویز کے دور میں فوجیوں کے سول علاقوں میں وردی پہن کر جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ جنرل پرویز اور ان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ملک میں وہ خانہ جنگی برپا کی کہ 75 ہزار افراد جان سے گئے، 120 ارب روپے کا نقصان ہوا، اور ملک کی وحدت و سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔ جنرل پرویز نے امریکہ کے ایسے جوتے چاٹے کہ مغربی پریس انہیں ’’بشرف‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ پاکستان میں Americanization جنرل پرویز کے دور میں جس طرح Satanization بنی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنرل پرویز نے ملک و قوم کے ساتھ جو ظلم کیا، کسی سول رہنما نے کیا ہوتا تو فوج اُس کی بوٹیاں کیا ہڈیاں بھی چبا جاتی۔ مگر پرویزمشرف ’’جنرل‘‘ تھے۔ ’’گھر کے آدمی‘‘ تھے۔ ان کو سات خون معاف تھے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ملک کی آزادی، خودمختاری، وحدت و سلامتی اور عزت و تکریم کے تناظر میں جنرل پرویز کی حکومت ہماری ناکام ترین حکومتوں میں سے ایک تھی۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بناکر اقتدار میں آئے، مگر جب یہ خود اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک میں پہلے سے زیادہ سیاسی عدم استحکام تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو 1971ء سے 1977ء تک اقتدار میں رہے، اس طرح انہوں نے ملک پر 6 سال حکومت کی، لیکن ان کے اس سیاسی استحکام سے بھی بالآخر سیاسی عدم استحکام ہی برآمد ہوا۔ بدقسمتی سے یہ عدم استحکام خود بھٹو صاحب نے پیدا کیا۔ انہوں نے انتخابات میں خود دھاندلی کرائی، حالانکہ انہیں فتح یاب ہونے کے لیے دھاندلی کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بھٹو صاحب کی دوسری غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حزبِ اختلاف کے ساتھ مذاکرات دیر سے شروع کیے، اور ان مذاکرات کو بھی انہوں نے کھیل کی طرح لیا۔ پروفیسر غفور احمد نے ہمیں خود بتایا کہ بھٹو صاحب مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ نہ تھے۔ وہ صرف وقت گزار رہے تھے۔ چنانچہ جنرل ضیاء کو اقتدار پر قبضے کا موقع مل گیا۔
میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کا عہدِ حکومت سیاسی عدم استحکام کی انتہا تھا۔ ابھی میاں صاحب اور بے نظیر ٹھیک سے اقتدار میں بھی نہیں آئے ہوتے تھے کہ ایوانِ اقتدار سے باہر ہوجاتے یا کردیے جاتے تھے۔ اس زمانے میں ہماری سیاسی زندگی جس طرح کولہو کا بیل بنی اس کی مثال کہیں مشکل ہی سے ملے گی۔ اس سیاسی عدم استحکام نے انتخابات، اقتدار اور حکمرانوں کی برطرفی سمیت ہر چیز کو مذاق بنا دیا تھا۔ سیاسی عدم استحکام کے سلسلے میں عمران خان اور ان کی حکومت نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ میاں نوازشریف اور بے نظیر کو شکایت تھی کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کام نہیں کرنے دیتی، مگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر بھی ناکامی اور سیاسی عدم استحکام کا منظر تخلیق کررہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بے نظیر اور میاں نوازشریف سے کہیں زیادہ نااہل ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں حکومتیں ناکام کیوں ہوتی ہیںِ؟ اور کوئی بھی حکومت کامیابی کا تاثر کیوں تخلیق نہیں کر پاتی؟
پاکستان کے حکمران طبقے کی سب سے بدترین بات یہ ہے کہ اس طبقے کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ اس کا اسلام بھی جعلی ہے، اس کا سوشلزم بھی جعلی ہے، اس کا سیکولرازم اور لبرل ازم بھی جعلی ہے۔ اس کی صرف ایک چیز اصلی ہے… اس کے شخصی، خاندانی اور گروہی مفادات۔ کہنے کو بھٹو صاحب سوشلسٹ تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کا سوشلزم صرف ’’کتابی‘‘ تھا۔ ان کی جو چیز اصلی، فطری اور برجستہ تھی وہ ان کا وڈیرہ ہونا تھا۔ وڈیرہ پن بھٹو صاحب کی اصل شخصیت تھا۔ یہ عنصر اتنا قوی تھا کہ مغرب کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے اور ان کی تعلیم بھی بھٹو صاحب کی شخصیت میں موجود وڈیرے کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ جنرل ضیاء الحق روزے نماز کے پابند تھے، مگر اجتماعی زندگی کے دائرے میں اسلام صرف جنرل ضیاء کی ’’سیاسی ضرورت‘‘ تھا۔ بدقسمتی سے جنرل پرویز کے لبرل ازم کو کبھی شراب اور عورت سے آگے جاتا ہوا نہ دیکھا جاسکا۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے کبھی ڈھکوسلے کی سطح پر بھی کسی نظریے کو اختیار نہ کیا۔ میاں صاحب نے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے دوران کئی بار کہا کہ وہ اب ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں، مگر ہم نے انہی کالموں میں عرض کیا کہ وہ ’’نظریاتی شخصیت‘‘ نہیں ہیں، ’’نظرآتی‘‘ شخصیت ہیں۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کا تو پاکستان بھی بہت چھوٹا ہے۔ ان کا پاکستان پنجاب سے شروع ہوتا ہے، پنجاب میں آگے بڑھتا ہے اور پنجاب میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ وہ دوسرے صوبوں کا نام لیتے ہیں تو قوم کو دھوکہ دینے کے لیے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خدا کے حضور بھی ایک مسلمان اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے نہیں، ایک پنجابی کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔ نظریے کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ افراد ہی کو نہیں، سیاست کو بھی گہرائی اور وسعت عطا کرتا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی نظریاتی سیاست ہوئی ہے، سیاسی استحکام قوموں کا مقدر بنا ہے۔
اسلام صاف کہتا ہے کہ تقویٰ اور علم کے سوا ایک مسلمان کا زادِ سفر اور کیا ہوسکتا ہے! افلاطون تک نے کہا ہے کہ سیاست کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ یا تو فلسفی کو حکمران بنادو، یا حکمران کو فلسفی بنادو۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست کو تقویٰ اور علم نے چھوا تک نہیں ہے۔ بلکہ تقویٰ اور علم سیاسی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تقویٰ اور علم کی قلت سے ’’اہلیت کا بحران‘‘ جنم لیتا ہے۔ ریاست کو چلانا تو بڑی بات ہے سائیکل چلانے کے لیے بھی اہلیت درکار ہوتی ہے، مگر ہماری سیاست نااہلی کے سہارے چل رہی ہے۔ چنانچہ حکومت ابھی ٹھیک سے اقتدار سنبھالنے بھی نہیں پاتی کہ اس کی ناکامی کی اطلاعات آنے لگتی ہیں۔ ایک چیز ہوتی ہے جسے اصطلاح میں ’’اسٹیٹ کرافٹ‘‘ یا ریاست کو چلانے کا فن کہا جاتا ہے، مگر ہمارے حکمران طبقے کے اسٹیٹ کرافٹ کا یہ عالم ہے کہ ملک کی 40 فیصد آبادی ابھی تک ناخواندہ ہے۔ ملک میں 70 فیصد لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم نہیں۔ ملک کی 70 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید اور ملک کو اس کی آمدنی کا 70 فیصد فراہم کرنے والا شہر ہے، مگر کراچی میں ہمارے حکمرانوں کے اسٹیٹ کرافٹ کا یہ عالم ہے کہ وہ گلیوں سے کچرا تک نہیں اٹھا پاتے۔ وہ آدھے کراچی کو پانی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ کراچی کے نالے صاف نہیں کرا پاتے، چنانچہ شہر برسات میں ’’اربن فلڈنگ‘‘ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کراچی کا یہ حال ہے تو ملک کے غریب علاقوں کا کیا حال ہوگا!۔
بدقسمتی سے پاکستان کے سیاست دانوں کی عظیم اکثریت کانچ کے برتنوں کی طرح ہے۔ بھٹو صاحب 6 سال تک اقتدار میں رہے، مگر ان کے بدترین مخالف بھی کبھی اُن پر یہ الزام نہ لگا سکے کہ بھٹو صاحب کرپٹ ہیں۔ مگر میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری تو چہرے تک سے کرپٹ لگتے ہیں۔ چنانچہ الزامات کی بارش ہمارے سول حکمرانوں کا تعاقب کرتی رہتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کے پاس کردار کا سرمایہ ہوتا تو انہیں اقتدار سے نکالنا اتنا آسان نہ ہوتا جتنا کہ ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ایک اہم سبب ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کی ناکامی سے کہیں زیادہ اُن کی کامیابی سے خوف کھاتی ہے۔ چنانچہ وہ سیاسی قیادت کے خلاف محاذ گرم رکھتی ہے۔ اصولی اعتبار سے پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کو اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کرنی چاہیے، مگر پاکستانی سیاست دانوں میں اس کام کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے بھی اس کے ساتھ سازباز کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ چنانچہ آصف علی زرداری ہوں یا میاں نوازشریف… سب سیاست دان ’’سمجھوتے کی سیاست‘‘ کرتے ہیں۔ سمجھوتے کی سیاست کرنے والوں کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ خود کو ’’سیاسی ہیرو‘‘ کی طرح قوم کے سامنے لائیں۔