آیا صوفیہ : حیرت کیسی، غصہ کیوں؟۔

بازنطینی دور کی عمارت کو مسجد صوفیہ بنانے کے فیصلے سے رومن کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس بہت جزبز ہوئے ہیں۔ انہوں نے 1934ء سے عجائب گھر کی حیثیت میں موجود عمارت کو مسجد بنائے جانے کے فیصلے پر شدید ردعمل ویٹیکن سٹی سے جاری ہونے والے سرکاری رومن کیتھولک اخبار L’Osservatore Romano کے ذریعے ظاہر کیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بازنطینی دور میں گرجا گھر کے طور پر تعمیر کی جانے والی اس عمارت کی تبدیلی سے بھلا کیا فرق پڑے گا۔ اس حوالے سے اس قدر شور مچانے کی ضرورت کیا ہے کیونکہ استنبول کا رخ کرنے والے سیاحوں کے لیے یہ عمارت پہلے کی طرح پُرکشش ہی رہے گی۔ دوسری بہت سی عبادت گاہوں کے مقدر کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ردعمل کا بنیادی سبب عبادت سے ہٹ کر یا بڑھ کر سیاسی تو نہیں۔ دنیا بھر کے سیاسی قائدین کی نظر میں ترک صدر رجب طیب ایردوان ایک تقسیم پسند رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں مگر دنیا بھر کے سُنّی مسلمانوں کی نظر میں وہ دِین کے محافظ کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔ امریکا، یورپی یونین، روس یا کسی اور طاقت کی ناراضی کی پروا کیے بغیر ایردوان پناہ گزینوں سے روا رکھی جانے والی زیادتی اور بدسلوکی پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ فلسطین،روہنگیا، کشمیر، لیبیا، شام، اویغور، عراق، یمن، افغانستان یا خانہ جنگی و عسکریت پسندی کی زد میں آئے ہوئے کسی اور خطے کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف وہ یکساں جوش و خروش سے آواز اٹھاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی بڑے دارالحکومت میں انہیں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
شام اور لیبیا میں ترکی کی عسکری مداخلت نے بہت سی طاقتوں کو ناراض کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس حوالے سے چند مسلم ممالک بھی ان سے خفا ہیں۔ روس سے فوجی ساز و سامان کی خریداری کے فیصلے نے امریکا اور معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) دونوں کو ناراض کیا ہے۔
ایک دور تھا کہ دنیا بھر میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے بے کسوں کی فریاد سننے کا فریضہ مذہبی رہنما انجام دیا کرتے تھے۔ خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے بے سہارا انسانوں بالخصوص بیواؤں اور یتیم بچوں کی داد رسی کے حوالے سے جو کردار مذہبی رہنماؤں کو ادا کرنا تھا، وہ رجب طیب ایردوان نے ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے انہیں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ ایک تلخ حقیقت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ دنیا بھر میں مذاہب کے ماننے والوں میں یہ تاثر بہت تیزی سے ابھرا ہے کہ اُن کے روحانی پیشواؤں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مذہبی اجتماعات میں حاضری گھٹتی جارہی ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ پوپ فرانسس کو اس بات سے زیادہ پریشانی لاحق ہونی چاہیے تھی کہ امریکا اور یورپ میں سیکڑوں گرجا گھر فروخت ہوچکے ہیں، حاضری کم ہوتی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پادری بڑی تعداد میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور بہت سوں کو تو سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔ یہ باتیں زیادہ پریشان کن ہیں مگر اِن پر متوجہ ہونے کے بجائے ترکی میں ایک گرجا گھر کو مسجد بنانے پر ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جب اسرائیل نے صفد (Safad) میں تیرہویں صدی کی مسجد احمر کو نائٹ کلب میں تبدیل کیا تو دنیا بھر میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی بھی رہنما نے ردعمل ظاہر کیا؟ شراب خانے میں تبدیل کیے جانے سے قبل یہ مسجد یہودیوں کا مرکز تھی اور پھر کدما پارٹی نے (جو ایریل شیرون اور زپی لیونی نے مل کر قائم کی تھی) اسے اپنا الیکشن آفس بنایا۔ گزشتہ برس اسرائیل میں نزارتھ کی ایک عدالت میں فلسطینی وقف بورڈ کے سیکرٹری خیر طبری نے مسجد احمر کی حوالگی کے حوالے سے مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مسجد پر انتہا پسند یہودیوں نے حملہ بھی کیا اور قرآن کے نسخوں کی بے حرمتی بھی کی۔ ان نسخوںکو ہٹا کر وہاں احکامِ عشرہ کے نسخے رکھ دیے گئے۔ یہ بات خیر طبری نے لندن میں قائم اخبار ’’القدس العربی‘‘ کو بتائی۔ 1948ء سے اب تک اسرائیل نے دوسری بہت سی مساجد کی بے حرمتی کی ہے، انہیں بمباری کا نشانہ بنایا ہے، مسمار کیا ہے مگر اس حوالے سے عالمی برادری کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
2018ء میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کی گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے حوالے کیں تو اقوام متحدہ نے معمولی نوعیت کا ردعمل ظاہر کیا اور وہ بھی جلد ختم ہوگیا اور پھر ’’قنیطرہ‘‘ (Quneitra) نامی قصبے کا تذکرہ خال خال ہی سنائی دیا۔ مئی2001ء میں پوپ جان پال دوم نے وہاں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے گرجا گھر میں عبادت بھی کی تھی! وہ شام کے تاریخی دورے کا تیسرا دن تھا اور پوپ نے 1947ء میں اسرائیلیوں کے انخلا کے وقت گرجا گھر کی باقیات کا دورہ کیا۔ برسوں کے قبضے کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے انخلا کے وقت قنیطرہ کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا۔ میں نے جب 2010ء میں اس قصبے میں قدم رکھا تو دیکھا کہ وہاں اسرائیلی فون کے انٹینا بھی ہیں اور فوجی بھی تعینات ہیں جنہوں نے قصبے پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ پوپ نے جن میںعبادت کی وہ گریک آرتھوڈوکس چرچ کی باقیات تھیں۔ پوپ کے ساتھ جانے والے صحافیوں نے دیکھا کہ اسرائیلی بمباری سے گرجا گھر تباہ ہوا اور اس سے ملحق احاطے میں موجود قبور کی شدید بے حرمتی ہوئی مگر پھر بھی پوپ جان پال دوم نے اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے کامل احتراز کیا۔ پوپ جان پال دوم دراصل سینٹ پال کے نقوشِ قدم پر چل رہے تھے جنہوں نے دمشق کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے عیسائیت قبول کی تھی۔ پوپ جان پال دوم کے دورے کا بنیادی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات دور کرکے ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنا تھا۔ انہوں نے شام کے دارالحکومت دمشق میں بنو اُمیہ کے دور کی ایک مسجد کا بھی دورہ کیا تھا۔ اسی مسجد میں، مقبول روایات کے مطابق، یحییٰ علیہ السلام کا مقبرہ بھی ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ اگر آج پوپ جان پال دوم ہوتے تو رجب طیب ایردوان کے حکم کو سمجھنے میں غلطی نہ کرتے اور کھلے دل سے قبول کرتے۔ یوں بھی ایردوان نے حکم کے ذریعے 1934ء کے اس حکم نامے کو منسوخ کیا ہے جس کے تحت آیا صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کیا گیا تھا۔ آیا صوفیہ کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے تاریخی ورثے میں شمار کیا ہوا ہے۔
گرجا گھر سے مسجد میں تبدیل کیے جانے والے آیا صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا کوئی قانونی جواز یوں بھی نہیں تھا کہ اس عمارت کو 1453ء میں سلطان محمد دوم نے ایک وقف بورڈ کے تحت قانونی تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس حوالے سے معرضِ وجود میں آنے والی دستاویز آج بھی انقرہ میں ہے۔ اس طاقتور ترک حکمران نے تب یہ گرجا گھر متعلقہ عیسائی حکام سے باضابطہ طور پر خریدا تھا۔
ایردوان کے فیصلے سے سب سے زیادہ جزبز یونانی حکومت ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی میں آزادی نصیب ہونے پر یونانی حکمرانوں نے سلطنت عثمانی کے دور کی سیکڑوں مساجد اور دیگر مذہبی عمارتوں کو تباہ کیا۔ بہت سی مساجد کو بند کردیا گیا یا پھر گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی سیکڑوں تاریخی عمارتوں کو فوجی جیل خانوں، دفاتر، سنیما گھروں، ہاسٹل اور گودام میں تبدیل کردیا گیا۔
روس نے بھی ایردوان کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دنیا کو تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ بات ایک ایسے ملک کے منہ سے بہت عجیب لگتی ہے جس نے شام میں بشارالاسد کی سفّاک آمریت کو مضبوط تر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ایک ایسی خانہ جنگی کو ہوا دی ہے جس نے شام کی نصف سے زائد آبادی کو بربادی سے دوچار کر رکھا ہے۔ بہت سے اقدامات ہیں جو روس کی منافقت ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس نے کرائمیا کے حوالے سے قابلِ مذمت کردار ادا کیا۔ لیبیا میں باغی کمانڈر فیلڈ مارشل خلیفہ ہفتار کا ساتھ دیا۔ شام میں بشار الاسد کی پشت پناہی کی۔ لٹیوینینکو کے قتل میں اس کا کردار ہے۔ مغرب کے انتخابات میں اس کی مداخلت بھی کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔
آیا صوفیہ کے حوالے سے سب سے بڑا منافقانہ کردار تو یونیسکو کا ہے جس نے اس عمارت کے حوالے سے تاریخی ورثہ ہونے کا رونا رویا ہے۔ 2002ء میں جب چند فلسطینیوں نے بیت الحم کے چرچ آف نیٹیویٹی میں پناہ لی تھی تب اسرائیلی فوجیوں نے ان پر گولی چلانے سے گریز نہیں کیا تھا۔ عیسائیوں کی عبادت گاہ کا تقدس اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں پامال ہونے پر یونیسکو نے کچھ نہیں کہا تھا۔ پوپ جان پال دوم نے معمولی نوعیت کا ردعمل ظاہر کیا تھا تاہم چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے ایک لفظ نہیں کہا گیا۔
یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی نگہبانی پر مامور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے 2017ء میں باضابطہ طور پر الگ ہونے کا اعلان کیا۔ دو ڈھائی عشروں کے دوران امریکا کو تاریخی ورثے کے تحفظ سے زیادہ عراق کی تیل کی تنصیبات کے تحفظ کی فکر لاحق رہی ہے۔
مسجد اقصٰی اور دیگر متبرک مسلم مقامات کی بے حرمتی کے حوالے سے اخباری مضامین اور تجزیوں میں توجہ دلائی جاتی رہی ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اسپین کے شہر کارڈوبا (قرطبہ) میں عظیم الشان مسجد آج بھی گرجا گھر کی شکل میں موجود ہے۔ اسی طور Seville کی مسجد بھی عیسائیوں کے معبد میں تبدیل کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے احتجاج کی توفیق کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔
غزہ کی پٹی کے لیے MEMO (مڈل ایسٹ مانیٹر) کے نمائندے معتصم دلول نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر عبادت گاہوں کی نوعیت بدلنے پر احتجاج بنتا ہے تو پھر اسپین پر 1492ء میں عیسائی افواج کے قبضے کے بعد وہاں کی سب سے بڑی مسجد کو گرجا گھر میں تبدیل کرنے کا بھی نوٹس لیتے ہوئے اس پر احتجاج کیا جانا چاہیے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی عبادت گاہوں کو تبدیل کیا گیا ہے، اُس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ معتصم دلول نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس حقیقت کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم حکمرانوں نے آیا صوفیہ کو عیسائی انتظامیہ سے باضابطہ خریدا تھا، طاقت کے ذریعے اس پر تسلط قائم نہیں کیا تھا۔
دنیا بھر میں جتنے بھی سیاسی قائدین ایردوان کے فیصلے پر جزبز ہوئے ہیں اور ان پر تنقید کے حوالے سے جوش و جذبہ محسوس کر رہے ہیں، انہیں اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنا لازم ہے اور یہ اچھا موقع ہے ایسا کرنے کا۔ ماضی میں جو کچھ بھی غلط ہوا، اُس کے ازالے پر توجہ دینی چاہیے۔ جہاں مذہب اور عبادت کی بات آجائے، وہاں سیاست کو ترجیح دینا کسی بھی اعتبار سے کوئی قابلِ ستائش رویہ نہیں۔ اور خاص طور پر ان کے لیے جو (ما سوائے پوپ فرانسس کے) مذہب کے بارے میں یوں بھی کم ہی جانتے ہیں اور اپنی تاریخ سے تو اور بھی کم واقف ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)