عدالتی فعالیت کا نیا مرحلہ

سیاسی جماعتوں کا ’’بے مقصد ملاکھڑا‘‘۔

مملکت کے معیار اور وقار کا تمام تر انحصار حکومت اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے۔ جیسی سیاست ہوگی حکومت بھی ویسی ہی ہوگی۔ دونوں کے نتیجے میں گورننس بھی اسی طرح کی ہوگی۔ عوام کے اطمینان، عوامی خدمات کے اداروں کی استعداد اور شفافیت… یہ تمام اجزا مل کر اچھی اور بری جمہوریت یا طرزِ حکومت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ماضیِ بعید یا ماضیِ قریب کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ ہر حکومت اقربا پروری، دوست نوازی میں لتھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے کو ہیں اور تبدیلی کے دعووں اور ارادوں سے شروع ہونے والی بات اب دلاسوںتک پہنچ گئی ہے۔ وہ نظامِ سیاست جس کو احتساب کی تلوار کے ذریعے صاف ہونا تھا ان دنوں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ سیاست کا نظام جوں کا توں ہے۔ جتنی توڑ پھوڑ اپوزیشن میں موجود ہے، اتنی ہی تحریک انصاف کے اندر بھی دکھائی دے رہی ہے۔ گورننس میں اصلاحات پر اتنی کمیٹیاں ہیں کہ شاید ان کا حساب رکھنے کے لیے بھی ایک نئی کمیٹی بنانی پڑے۔ روزمرہ گورننس میں بھلا ہو فوج کا، کورونا میں بھی ہاتھ بٹا رہے ہیں اور ٹڈی دَل سے بھی برسرِپیکار ہیں۔ ابھی بارشوں اور سیلاب میں بھی انہیں کام آنا ہے۔ اپوزیشن کا تو خیر اپنا حال پتلا ہے، اس کے تلوں میں فی الحال کوئی خاص تیل نہیں ہے کہ وہ کچھ عملی طور پر کرے۔ پختہ رائے یہ ہے کہ گڈ گورننس سیاسی جماعتوں کی ترجیح نہیں رہی کہ وہ غیر جمہوری طرزعمل کے نیچے اور دبائو میں کام کرتی ہیں۔
ہمارے ملک میں اقتدار کی ٹرائیکا میں اب عدلیہ بھی شامل ہوچکی ہے، اس لیے سیاسی شخصیات آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کی چھلنی سے گزر رہی ہیں۔ ابھی چونکہ ابتدا ہے، آثار بہت واضح ہیں کہ ملک میں جوڈیشل ایکٹو ازم پھر سے بحال ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے ملک میں نیب پر عدم اعتماد اور ایک سو بیس نیب عدالتیں بنانے کا حکم پہلی اینٹ ہے۔ نیب عدالتیں تو موجود ہیں مگر ان کے لیے ججوں کا تقرر نہیں ہوا ہے، چیف جسٹس کے حکم کے بعد ان عدالتوں میں ججوں کا تقرر لازمی کرنا پڑے گا۔ نیب قانون واحد قانون ہے جو گزشتہ بیس سال سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چل رہا ہے اور پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہی نہیںہوئی۔ نیب قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے تو یہ ملک میں احتساب کے لیے بہت بڑی پیش رفت ہوگی۔
اس وقت ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے روبرو ملکی تاریخ کے اہم ترین مقدمات ہیں۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق دو سال قبل تک پاکستان کی تمام اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں میں مجموعی طور پر 31 لاکھ، 87 ہزار سے زائد مقدمات زیر سماعت تھے۔ جس قدر مقدمات نمٹائے گئے ہیں اتنی ہی تعداد میں نئے مقدمات بھی عدلیہ کے روبرو ہیں۔ یہ امر ملک میں امن و امان کی بدترین صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ ملک کی پانچوں ہائی کورٹ میں اس وقت محتاط اندازے کے مطابق 293،316 مقدمات کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جن کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یہ تمام مقدمات عدالتی نظام پر بوجھ اور انصاف میں تاخیر کا باعث ہیں۔ ملک میں قائم کسی بھی حکومت نے ان مقدمات کی وجوہات پر غور نہیں کیا، جب کہ ہر سال وزارتِ داخلہ کے لیے بھاری بجٹ منظور کرلیا جاتا ہے۔ یہ تمام مقدمات پولیس، ایف آئی اے اور وزارتِ داخلہ کے متعلقہ محکموں کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ چیف جسٹس گلزار نے نیب عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا حکم دیا ہے، دیکھتے ہیں اس حکم کی تعمیل کب تک ہوتی ہے؟
سپریم کورٹ نے حال ہی میں لاکھڑا کول مائننگ پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق ازخود نوٹس لیا اور اس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے نیب اور نیب عدالتوں کی مایوس ترین کارکردگی پر سخت ریمارکس دیے ہیں کہ ’’نیب کا ادارہ نہیں چل رہا، کیوں ناں نیب عدالتیں بند کردی جائیں؟ اور نیب قانون کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے؟ عدالت نے نیب کے بڑے عیوب کی نشاندہی کی اور حکم صادر کیا کہ زیر سماعت ریفرنس کا فیصلہ قانون کے مطابق تین ماہ میں کردیا جائے۔ اس وقت1226 ریفرنس زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری قانون کو بھی طلب کرلیا اور چیئرمین نیب کو اپنے دستخط سے تجاویز جمع کرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے نیب کی120نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کا بھی حکم دیا۔
پیٹرول بحران کیس بھی بری گورننس کی ایک مثال ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے وفاق اور پنجاب حکومت کی بیڈ گورننس کا ایسا پوسٹ مارٹم کیا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ان کی گورننس پر کتنی ہی جانب سے طرح طرح کی مسلسل تنقید ایک طرف… اور لاہور ہائی کورٹ کا کیا گیا پوسٹ مارٹم اس پر کتنا بھاری ہے، ملاحظہ ہو: پیٹرول بحران وفاقی حکومت کی خراب گورننس کی انتہا ہے، سرکاری ریکارڈ چھپانے کی کوشش کی تو سخت کارروائی کریں گے۔ ایک اور کیس کی سماعت میں انہوں نے پنجاب حکومت کے ڈپٹی کمشنرز کو عدالتی اختیارات دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ پنجاب میں سسٹم کا بیڑا غرق کردیا، عدالتوں میں تماشا لگا رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ایگزیکٹو عدلیہ کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، دونوں کے الگ الگ اختیارات ہیں۔ آخر گڈ گورننس ہے کیا؟ چیف جسٹس نے برہم ہوکر کہا کہ مجھے پیٹرول بحران کمیشن کے لیے مضبوط لوگ چاہئیں ورنہ عدالت نام تجویز کرے گی۔ حکومت وفاقی ہو یا پنجاب کی… ملک کی ہر دو اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان نے گڈ گورننس کے فقدان اور بیڈ گورننس کی واضح نشاندہی کی ہے۔
ایک اہم ترین معاملہ ابھی اسمبلی میں آنے والا ہے، اپوزیشن رکن کی جانب سے سوالات جمع کرائے گئے ہیں جن میں پوچھا گیا ہے کہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کن چھے کمپنیوں کو 16 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈ دیئے ہیں، اور کیا یہ اُن کے براہِ راست کلائنٹ تھے؟ ان کمپنیوں میں اینگرو گروپ کو 2 ارب، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کو 1.5 ارب، ایچ بی ایل کو 10 ارب،ایم سی بی کو 1.5 ارب، اور دو سیمنٹ کمپنیوں ڈی جی خان کو پانچ سو ملین اور میپل لیف سیمنٹ کو سات سو ملین کا ریفنڈ دیا گیا، یہ رعایت گڈ گورننس پر دھبہ ہے۔ یہ بھی پریشان کن صورتِ حال ہے کہ ماضی کے کھلواڑ سنبھالے نہیں گئے کہ حکومت نے ایمنسٹی دینے کا ایک اور فیصلہ کرلیا ہے۔ چیئرمین ’نیا پاکستان ہائوسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ لیفٹیننٹ جنرل(ر) علی انور حیدر کے مطابق شعبۂ تعمیرات ملکی تاریخ کا بہترین پیکیج ہے جو ایک طرف سرمایہ کاروں کو کسی رکاوٹ کے بغیر اپنا سرمایہ گردش میں لانے کا موقع فراہم کرے گا، دوسری طرف بینکوں کے ذریعے سالانہ 330 ارب روپے کے قرضے فراہم کیے جائیںگے۔ حکومت کے اس فیصلے کا اثر یہ ہوگا کہ 31 دسمبر تک تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے اور بینکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ نجی قرضوں میں سے 5 فیصد تعمیرات کے شعبے کو دیں گے۔ پالیسی کے تحت بینکوں کے لیے شرح منافع کا تعین بھی کردیا گیا ہے۔ گھر کی تعمیر کے لیے تین لاکھ روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ تعمیراتی انڈسٹری کے لیے یہ پیکیج آئوٹ آف بکس امتیازی قدم بھی سمجھا جارہا ہے، کہ تعمیراتی انڈسٹری میں جو پیسہ لگے گا اس بارے میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیروں نے اسمال اینڈ میڈیم انڈسٹری کے فروغ کے لیے یہ تجاویز رکھی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کے لیے اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ یہ فیصلے بھی ماضی کا ہی تسلسل ہیں تو پھر تبدیلی کہاں ہے؟ ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی منتخب افراد کے بجائے غیر منتخب مشیروں کے سہارے چل رہی ہے۔ یہ پیکیج اُس وقت دیا گیا ہے جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت کا قرض مئی کے آخر تک اوسطاً 14.2 ارب یومیہ کے حساب سے 34.5 کھرب روپے ہوگیا ہے، وفاقی حکومت کا 34.5 کھرب روپے کا قرض ان واجبات کے علاوہ ہے جس کے لیے حکومت بالواسطہ قرض دہندگان کی مقروض ہے، اس طرح مجموعی ملکی قرض مرکزی حکومت کے قرض سے کہیں زیادہ ہے، جس کے اعداد و شمار اگلے ماہ دستیاب ہوں گے۔ مارچ 2020ء کے اختتام تک مجموعی ملکی قرض بڑھ کر 35.2 کھرب روپے ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کہتے ہیں کہ ہماری پارٹی میں کوئی گینگ یا مافیا نہیں، ہم پاکستان کے اور اپوزیشن کرپشن کی نمائندہ ہے۔ حکومت کی پاک دامنی کا یہ دعویٰ کئی حوالوں سے قابلِ غور ہے۔ چینی، گندم اور پیٹرول کے بحران میں وزیروں اور مشیروں کا جو کردار رہا ہے، حکمراں جماعت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے ارکان کے کیسوں پر کارروائی میں احتسابی اداروں میں جس لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے، بی آر ٹی، مالم جبہ اور فارن فنڈنگ کیس سمیت حکومت سے متعلق دیگر معاملات جس طور پر معلق ہیں، ایک وفاقی وزیر کا سر ٹیفکیٹ جعلی ہونے کے کیس کو روکنے میں پنجاب کے اینٹی کرپشن یونٹ کا جو کردار رہا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اب وفاقی وزیر مذہبی امور نیب کے شکنجے میں جاتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم کی سابق خاتون مشیر اطلاعات کی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں برطرفی کے بعد کسی کارروائی کے بجائے جس طرح چپ سادھ لی گئی ہے، یہ تمام باتیں وزیر اطلاعات کے اس دعوے کو کہ ’’ہم پاکستان اور اپوزیشن کرپشن کی نمائندہ ہے‘‘ نظرثانی کا مستحق ثابت کرتی ہیں۔ عمران خان حکومت کی سابق مشیر اطلاعات نے مشورہ دیا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سب اپنی اپنی منجھی کے نیچے ڈانگ پھیریں۔ یہ کام واقعی ہونا چاہیے، مگر نہیں ہورہا۔ منجھی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کا موقع تو آرڈیننس نے بھی فراہم کردیا ہے جو حکومت نے 20 مئی کوجاری کیا تھا۔ یہ آرڈیننس عالمی عدالتِ انصاف سے متعلق نظرثانی اور بھارتی جاسوس کو سہولت دینے سے متعلق ہے۔ آرڈیننس بھارتی جاسوس کو سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی سہولت کا ہے۔ یہ آرڈیننس سینیٹ اور قومی اسمبلی اجلاس میں پیش نہیں کیا گیا، مگرحکومت جے آئی ٹی کے قصوں کو لے کر ماضی کی طرح سیاسی پوائنٹ اسکور کررہی ہے۔ جواب میں پیپلزپارٹی میدان میں اتری ہوئی ہے۔ یہ ملاکھڑا دراصل بے مقصد، اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی خاطر سجایا گیا ہے۔ حکومت اگر سنجیدہ ہے تو اسے جے آئی ٹی کی رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں معاملہ عدالت کے روبرو پیش کردینا چاہیے۔ اصل میں گھسی پٹی کہانی کے مقاصد کچھ اور ہیں، لہٰذا الزامات کی یہ جنگ بہت جلد مذاکرات کی میزپر پہنچ جائے گی۔ تحریک انصاف کی حکمت عملی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے، جرائم پیشہ افراد سے تعلق کی طلسم ہوشربا والی داستان سامنے لاکر اسے دبائو میں لایا جائے۔ پیپلز پارٹی جواب میں خاموش رہ کر تحریک انصاف کو تھکا دینا چاہتی ہے۔ آخر میں ہوگا وہی جو اصل قوت چاہتی ہے جسے متبادل کی تلاش تو ہے مگر اسے ہرگز ہرگز جلدی نہیں ہے۔
حالیہ بحث پر تجزیہ یہی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ صرف سپنے دکھا سکتی ہیں، قوم کو منزل پر نہیں پہنچا سکتیں، اور نہ ان میں ایسی کوئی صلاحیت نظر آتی ہے۔ ہمارے سیاسی نظام کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ یہاں انسانی جذبات سے کھیلنے والے عناصر کے لیے ہر وقت ایک اسٹیج میسر رہتا ہے، یہ عناصر گلے کی پھولتی رگوں کے ساتھ اپنا ہنر دکھاتے رہتے ہیں، اور قوم بھی ان کے دیے ہوئے نشے کی عادی بن چکی ہے، اسی لیے یہ معاملہ ان دنوں ٹی وی اسکرینوں کی زینت بنا ہوا ہے۔