مغرب زدہ ذرائع ابلاغ کی زہرناکی
تاریخ عجائب خانہ نہیں ہے۔ یہ تہذیبوں کی زندگی ہے۔ یہ تہذیبوں کا عروج و زوال و احیا ہے۔ یہ آٹھویں صدی کے مسلم اندلس میں اسلامی تہذیب کا عروج ہے۔ یہ پندرہویں صدی کے اسپین میں اسلامی تہذیب کا زوال ہے۔ یہ قسطنطنیہ میں بازنطینی عیسائیت کا عروج ہے۔ یہ سلطان محمد فاتح کے عہد میں مسلمانوں کا عروج ہے۔ یہ کمال کے دور میں ترک مسلمانوں کا زوال ہے۔ اورآج کے ترکی میں یہ اسلام کا احیا ہے۔
ہر تہذیب کی چند مرکزی اور بہت ساری ذیلی علامتیں اور نشانیاں ہوتی ہیں۔ مساجد، مینارے، اور اذانیں اسلامی تہذیب کی علامتیں ہیں۔ یہ مکہ، مدینہ، بیت المقدس، دمشق، بغداد، قرطبہ، اور استنبول میں مرکزی اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی طرح گرجا گھر اور کلیسا ویٹی کن سٹی، یروشلم، قسطنطنیہ، اورغرناطہ وغیرہ میں عیسائی تہذیب کی مرکزی علامتیں ہیں۔ دیگر تہذیبوں میں بھی مرکزی عبادت گاہیں اور مقدس مقامات اہم علامتیں سمجھی جاتی ہیں۔ ان مرکزی علامتوں کی حالتیں اور کیفیات ہی کسی بھی تہذیب کے عروج و زوال و احیا کی وضاحت کرتی ہیں۔ ان کی مرکزیت، تقدس، اور تحفظ پر کوئی تہذیب سمجھوتا نہیں کرتی، کیونکہ یہی اس کی زندگی اور شان و شوکت کا نشان ہوتی ہیں، یہی اس کی پہچان ہوتی ہیں۔ کسی بھی علامت کی قدر وقیمت قدامت سے متعین نہیں ہوتی، بلکہ اُس کی تہذیبی زندگی سے متعین ہوتی ہے۔ جو تہذیبیں مٹ جاتی ہیں، قصۂ پارینہ بن جاتی ہیں، اُن کی ساری علامتیں اور نشانیاں مٹ جاتی ہیں، اور جو کچھ بچ جاتی ہیں، وہ آثارِ قدیمہ کہلاتی ہیں، اور عجائب گھروں میں رکھ دی جاتی ہیں۔ زندہ تہذیبوں کی عجائب خانے میں کوئی جگہ نہیں ہوتی، اور نہ ہی زندہ علامتیں آثار قدیمہ قرار دی جاسکتی ہیں۔
ترکی کے شہر استنبول میں اسلامی تہذیب کی ایک تاریخ ساز علامت مسجد آیا صوفیہ ہے، یہی اس مضمون کا موضوع ہے۔ یہ عمارت عہد بازنطین میں گرجا گھر ہوا کرتی تھی، جو قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کی ملکیت میں آگئی تھی، تاہم جنگ کے دوران اُس کی عمارت کئی جگہ سے تباہ ہوگئی تھی، سلطان نے اس کی مالی سرپرستی کا اعلان کیا، اوربھاری لاگت سے اسے ازسرنو تعمیر کروایا، میناروں کا اضافہ کیا، گنبد کی تعمیر نو کروائی، اور اسے بطور مسجد وقف کردیا۔ گویا یہ قسطنطنیہ میں عیسائیت کے زوال اور اسلامی تہذیب کی فتح کی علامت بن گئی تھی۔ مغرب کے سیکولر غلام مصطفیٰ کمال نے خلافت عثمانیہ پر شب خون مارنے کے بعد، جہاں ترکی کی عام مساجد پر تالے ڈال دیے تھے، علماء کو جگہ جگہ درختوں پر پھندے ڈال کرلٹکادیا تھا، اذانوں اور عربی رسم الخط پر پابندی لگادی تھی، وہیں مسجد آیا صوفیہ کوعجائب گھر کا درجہ دے دیا تھا۔ آج اس مسجد کا احیا ہورہا ہے۔ اس احیا پر مغرب اور مغرب زدگان دونوں ہی خاصے مضطرب ہیں۔ یہ اضطراب تصویر کا سیکولر رُخ انتہائی انتہا پسندی کے ساتھ پیش کررہا ہے۔ مغرب زدہ ذرائع ابلاغ کی زہرناکی نمایاں ہے۔
چند سال قبل مَیںآیا صوفیہ کے درودیوار پر بنتی اور مٹتی تہذیبوں کا مشاہدہ کررہا تھا، کہ قریب سے دوگورے سیاحوں کی گفتگو کے چند جملے کانوں میں پڑگئے۔ چونک کر پلٹا، اُن پر سرسری سی نظر ڈالی، وہ جذبات کے بہاؤ میں آگے بڑھ گئے تھے۔ الفاظ کی ترتیب یاد نہیں، تاہم مفہوم کچھ یوں تھا کہ ’’مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر فتح حاصل کی اور اس گرجا گھر کو مسجد بنالیا…لیکن ہمارے پاس اسپین میں مسلمانوں کی اس سے بھی بڑی اور زیادہ عالیشان مسجد قرطبہ موجود ہے، جسے ہم نے کیتھڈرل بنالیا ہے‘‘۔ یہاں یہ وضاحت مفید ہوگی کہ مسلمانوں نے آیا صوفیہ پر قبضہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی جبراً اس عبادت گاہ کو ہتھیایا گیا تھا، بلکہ سلطان محمد فاتح نے اس عمارت کو باقاعدہ خرید کر مسجد کے لیے وقف کیا تھا، اور یہی اس کے عدالتی فیصلے کی روشنی میں سامنے آیا ہے۔ جبکہ مسلم اندلس میں مساجد کیا! محلات کیا! مکانات کیا! اور لوگوں کی عزت و ناموس کیا! ایمان و عقائد تک چھین لیے گئے تھے، جبراً عیسائی بنایا گیا تھا، اور جس نے انکار کیا تھا، اُسے ہمیشہ کے لیے اسپین سے نکال دیا گیا تھا۔ جبکہ عیسائی، یہودی آج بھی ترکی میں سیکڑوں گرجا گھروں اور سینا گاگزکی عبادتوں میں پوری سہولت سے شریک ہوتے ہیں۔
جامع مسجد قرطبہ جسے سقوطِ غرناطہ کے بعد ایک کیتھڈرل میں تبدیل کردیا گیا تھا، اور اب اسے قرطبہ کی مسجد- کیتھڈرل پکارا جاتا ہے۔
دائرۃ المعارف کے مطابق اندلس میں مسلمانوں کے فنِ تعمیر کا عرصہ تقریباً سات سو برس پر محیط ہے، جو آٹھویں صدی عیسوی میں جامع قرطبہ کی تعمیر سے پندرہویں صدی عیسوی میں غرناطہ کے قصر الحمرا کی تکمیل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران سیکڑوں محلات، مساجد، درس گاہیں اور پل وغیرہ تعمیر ہوئے۔ علامہ محمد اقبال نے شہرۂ آفاق نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں دل کو چھولینے والی تصویر کھینچی ہے:
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل
اقبال وہ پہلی عظیم ہستی ہیں جنہوں نے کئی صدیوں بعد 1931ء میں اس مسجد میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
اس مسجد کی تعمیر کا خیال امیر عبدالرحمٰن اول المعروف الداخل (756ء-788ء) کو سب سے پہلے اُس وقت دامن گیر ہوا جب اس نے ایک طرف اندرونی شورشوں پر قابو پا لیا اور دوسری طرف بیرونی خطرات کے سدباب کا بھی مناسب بندوبست کرلیا۔ امیر چاہتا تھا کہ مسجد کو اموی جامع مسجد دمشق کا ہم پلہ بنا کر اہلِ اندلس و مغرب کو ایک نیا مرکز عطا کرے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی تعمیر کی نگرانی اس نے خود کی۔
عبد الرحمٰن الداخل کے بعد امیر ہشام اول (788ء – 796ء) مسندِ امارت پر متمکن ہوا۔ اس نے بھی اس مسجد کی تعمیر و توسیع کا کام جاری رکھا۔ اس نے اپنے دورِ حکومت کے سات سال میں تمام مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا۔ اس عظیم الشان مسجد کا وہ عظیم مینار جو چہار پہلو تھا اُسی کے زمانے میں تعمیر ہوا۔ اس مینار کا شمار عجائباتِ عالم میں ہوتا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس یکتائے زمانہ مسجد کی تکمیل پر ماہ و سال نہیں صدیاں خرچ ہوئیں۔ ہر امیر نے اپنی بساط اور ذوق کے مطابق اس پر بے دریغ خرچ کیا۔ ہزاروں مزدوروں نے سیکڑوں معماروں کی معیت میں اس مسجد کی تعمیر و آرائش پر اپنا خون پسینہ ایک کیا، تب جاکر اسے وہ مقام حاصل ہوا جو بہت کم عمارتوں کو حاصل ہے۔ دسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینی ڈکٹ سے اپیل کی کہ انہیں مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ اسپین کے اسلامک بورڈ نے پوپ کے نام خط میں لکھا کہ اسپین کے کلیسا نے ان کی درخواست مسترد کردی ہے۔ دسمبر 2006ء کے اوائل میں ہسپانوی کیتھولک چرچ نے مسلمانوں کو جامع قرطبہ میں نماز کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس عبادت گاہ میں مشترکہ عبادت کے لیے دیگر مذاہب سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ مسلم بورڈ کے جنرل سیکرٹری منصور ایکسڈیرو کے مطابق قبل ازیں سیکورٹی گارڈز نے اندرونی حصے میں پرانی مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کے بعض عناصر اسپین میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ (ذریعہ معلومات: آزاد دائرۃ المعارف ، وکی پیڈیا)
ترکی کے سرکاری ٹی وی ٹی آر ٹی نے آیا صوفیہ کی تاریخ مختصراً یوں بیان کی ہے: آیا صوفیہ ایک ایسی پہاڑی پر قائم ہے، جہاں سے بحر مرمرہ اور آبنائے باسفورس دکھائی دیتے ہیں۔ مسجد آیا صوفیہ کئی تبدیلیوں سے گزری ہے۔ یہ عمارت قسطنطنیہ میں چھٹی صدی میں پہلی بار تعمیر کی گئی، اور دنیا کی چند عظیم یادگاروں میں سے ایک قرار پائی۔ بازنطینی بادشاہ قسطانطیوس ثانی نے اس کی بطور گرجاگھر تعمیر شروع کی، 360ء میں آیا صوفیہ کی عمارت لکڑیوں پر کھڑی ہوئی، اور بہت جلد فسادات میں نذرِ آتش کردی گئی۔ تھیو ڈوسیوس ثانی نے سن 415ء میں ماربل سے اسے پھر تعمیر کیا۔ جو سن 532ء میں، نیکا بغاوت کے دوران زمین بوس کردی گئی۔ اُس عمارت کی کچھ باقیات آج بھی موجود ہیں۔ آج کی موجودہ عمارت وہ ہے، جسے سن 537ء میں شہنشاہ جسٹینن نے تعمیر کروایا تھا، وہ اپنے عہد کا سب سے بڑا گرجاگھر بنانا چاہتا تھا، آیا صوفیہ تب تقریباً ہزار برس تک دنیا کا سب بڑا چرچ رہا۔ سن 1453ء میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد، سلطان محمد دوم نے باقاعدہ ادائیگی کرکے آیا صوفیہ خرید لیا، اور اسے مسجد بنالیا۔ سلطان محمد فاتح دوم نے اس کا نام آیا صوفیہ برقرار رکھا، جس کا مطلب ’’Holy Wisdom‘‘ ہے۔ اس کی دیواروں پر منقش تصاویر پر پلاستر کروایا گیا، سلطان نے اس پر میناروں اور محرابوں کا اضافہ کیا، یہ سن 1616ء تک استنبول کی مرکزی مسجد تھی، پھر مسجد سلطان احمد کی تعمیر ہوئی، جسے نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ سن 1931ء میں بازنطین انسٹی ٹیوٹ آف امریکہ کے بانی تھامس وائٹ مور نے استنبول کا سفر کیا، اور مصطفیٰ کمال سے اجازت حاصل کی کہ آیا صوفیہ کی دیواروں سے پلاستر اکھڑ وا دیا جائے تاکہ گرجاگھر کی منقش دیواریں پھر سے نمایاں ہوجائیں، اور اسے ایک مسجد سے عجائب گھر بنادیا جائے۔ سن 1972ء میں کتاب Hagia Sophia a history of Constantinople سامنے آئی، اس میں مصنف نے وائٹ مور کا یہ اقتباس نقل کیا کہ ’’سانتا صوفیہ اُس دن تک ایک مسجد تھی کہ جب میری مصطفیٰ کمال سے بات ہوئی، مگر اگلی صبح جب میں مسجد پہنچا، اُس کے دروازے پر مصطفیٰ کمال نے اپنے ہاتھوں سے لکھ رکھا تھا کہ ’’عجائب گھر مرمت کے لیے بند ہے‘‘، اور پھر یونیسکو نے جھٹ پٹ اسے ورلڈ ثقافتی میراث بنالیا۔ ‘‘
یقیناً جو تہذیبیں مٹ جاتی ہیں، وہ عجائب گھرکی زینت بن جاتی ہیں، مگر جو تہذیبِ فطرت پورے عالم موجودات میں جاری و ساری ہو، ہر ذرّے میں گردش کررہی ہو، ہر لمحہ نئی آن نئی شان میں ہو، اُسے مٹانا کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں، مصطفیٰ کمال کی حقیقت ہی کیا ہے! مسلمان اکثریت کے ملک میں ایک مسجد کوعجائب گھر قرار دینا اپنی اصل میں ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی، اور غیر جمہوری قدم کے سوا کیا ہوسکتا ہے!
آج قریباً ایک صدی بعد اس مسجد کی حیثیت بحال ہوئی ہے۔ ترک صدر اردوان نے اسٹیٹ کونسل کے فیصلے کے بعد آیا صوفیہ کی عجائب گھر کی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے دوبارہ سے مسجد کے طور پر استعمال کیے جانے کا حکم نامہ جاری کیا، اور اس معاملے پر قوم سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ آیا صوفیہ کے دروازے مقامی و غیر ملکی مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے کھلے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بنی نوع انسانی کا ورثہ آیا صوفیہ اپنی نئی حیثیت میں پہلے سے کہیں زیادہ مخلصانہ ماحول میں وجودی اہمیت برقرار رکھے گا۔ ہر کسی کو ترکی کی عدالتی کارروائی اور فیصلے کا احترام کرنا ہوگا۔ جناب اردوان نے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف کوئی بھی مؤقف اور بیان ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ عیسائی مقدس شہر ویٹی کن کو عجائب گھر قرار دے کر عبادت کے لیے بند کرنا بھی منطقی طور پر اُسی طرح غیر قانونی اور ناجائز عمل ہوگا کہ جس طرح مسجد آیا صوفیہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ٹھیک 567 سالہ قدیم ایک حق ہے۔ اگر کسی نے مذہبی استحقاق اور منافرت انگیزی پر ہی بحث کرنی ہے، تو اس کے لیے آیا صوفیہ نہیں بلکہ اسلام دشمنی اور غیر ملکیوں سے نفرت کا معاملہ موضوع ہونا چاہیے۔ ترک قوم کی رواداری اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ آج تک ’’الٰہی حکمت‘‘ کا مفہوم رکھنے والی اس عبادت گاہ کا نام تک بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ 24 جولائی 2020ء بروز جمعہ نماز جمعہ کے ساتھ 86 سال بعد آیا صوفیہ کو عبادت کے لیے کھولنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ مسجد آیا صوفیہ کا احیا مسجد ِ اقصیٰ کی آزادی کا پیغام دیتا ہے۔
آیا صوفیہ کے عدالتی فیصلے میں کہا گیاہے کہ: ’’عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس عمارت کا سوائے مسجد کوئی بھی دوسرا استعمال قانونی طور پر ممکن نہیں ہے۔ سن 1934ء میں کابینہ نے جو فیصلہ کیا تھا، اور آیا صوفیہ کی بطور مسجد حیثیت منسوخ کردی تھی، اور اسے عجائب گھر کا درجہ دے دیا تھا، وہ قطعی طور پر غیر قانونی اقدام تھا۔‘‘
اس فیصلے کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اعلان ہوتے ہی استنبول کے لوگ مسجد آیا صوفیہ کے باہر جمع ہوئے، اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوئے، اذان ہوئی اور نمازِ شکرانہ ادا کی گئی۔ وہ چھیاسی برس سے یہاں نماز کی ادائیگی کے لیے شدت سے انتظار کررہے تھے۔
اس فیصلے پر اعتراضات کا وزن کیا ہے؟ مغربی دنیا کا اعتراض قابلِ اعتنا ہی نہیں، کیونکہ وہ مسجد قرطبہ سے مسجد اقصیٰ تک، اور مقبوضہ کشمیر سے اراکان قتلِ عام تک ، اور بغداد سے دمشق تک اسلامی تہذیب کی ہرہر علامت مٹانے میں پیش پیش رہی ہے۔ رہ گئے مغرب زدگان! وہ بے چارے سوائے کورس میں منفی پروپیگنڈا دہرانے کے کچھ نہیں کرسکتے۔ اگر اُن سے پوچھا جائے کہ مسجد قرطبہ کی بطور مسجد بحالی پر اُن کا کیا مؤقف ہے؟ تو کیا انھیں سانپ نہیں سونگھ جائے گا؟ یا اب تک انھوں نے مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے کتنی آواز بلند کی ہے؟ اور آج وہ ایک مسجدکے احیا پر تلملارہے ہیں! اور اگر یہ ایک گرجا گھر ہے، تو پھر یہ چھیاسی سال سے اس کے عجائب گھر قرار دیے جانے پر کیوں خاموش رہے؟ کیسا منافقانہ تضاد ہے کہ مغرب زدگان کو عجائب گھر کو مسجد بنانے پر آج اعتراض ہے،لیکن کل تک ایک گرجا گھر کو عجائب گھر قرار دیے جانے پر کوئی اعتراض نہ تھا! کیوں؟ اس لیے کہ انھیں گرجاگھر سے کوئی دلچسپی نہیں، انھیں پریشانی صرف اس بات سے ہے کہ کہیں کوئی اسلامی علامت زندہ نہ ہوجائے۔ آج آیا صوفیہ کا احیا ہوا ہے، کل مسجد اقصیٰ کا احیا بھی ہوسکتا ہے، اور پھر مسجد قرطبہ… اور پھر احیا کا یہ سلسلہ اسلامی تہذیب کا احیا بھی ہوسکتا ہے… اور اسلامی تہذیب کا احیا مغرب اور مغرب زدگان کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟
تاہم یہ فطری ہے کہ جب بھی تہذیبوں کی علامتوں میں تصادم ہوگا، فیصلہ اُسی تہذیب کے حق میں آئے گا جس کا مستقبل روشن ہوگا۔ یہ کائنات خدا کا گھرہے۔ یہ روئے زمین خدا کا گھر ہے۔ مسجد خدا کا گھر ہے۔ عجائب گھر نہیں ہے! یہی تاریخ کی ازلی حقیقت ہے۔ یہی تاریخ کا ابدی فیصلہ ہے۔