وبا کا پھیلائو اور اقتصادی و سماجی بحران

دنیا میں کورونا کی عالمی وبا کی تباہ کاریاں جاری ہیں، کورونا کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ31 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ 5 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کورونا کے متاثرین کی تعداد کے اعتبار سے عالمی نظام کا قائد اور سپر پاور کی حیثیت رکھنے والا امریکہ سب سے آگے ہے۔ سائنسی، ٹیکنالوجیکل اور طبی ترقی میں کامیابی کا دعویٰ کرنے کے باوجود اُس کی طرف سے ابھی تک اس وبا کے خاتمے کی یقین دہانی سامنے نہیں آسکی ہے ۔ یہ وبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور مرض کے متاثرین اور ہلاکتوں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے۔ اس وبا سے نجات کی کوئی ترکیب دریافت نہیں کی جاسکی ہے۔ اس پس منظر میں عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادہانوم نے کہا کہ مستقبل قریب میں اس وبا کے اثرات کم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ ’’زندگی دوبارہ اپنے معمول پر نہیں آئے گی۔ یہ وائرس انسانوں کا بڑا دشمن ہے، اور اگر بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو یہ وبا پھیلتی چلی جائے گی اور حالات بدترین ہوجائیں گے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جنیوا میں ایک میٹنگ کے دوران کیا، اور عالمی قائدین اور دنیا کی حکومتوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے، اور اب بھی ان کا احساس یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں کوتاہی کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اگر بعض حکومتیں کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدام نہیں کرتیں تو صورتِ حال خراب سے خراب تر ہوتی جائے گی۔ ہم اُن ممالک کے متاثرین میں خطرناک اضافہ دیکھ رہے ہیں جہاں طے شدہ اقدامات پر عمل نہیں ہورہا۔
کورونا کی وبا کے آنے کے بعد طبی قیادت اور سیاسی قیادت میں تقسیم واضح طور پر نظر آئی۔ بالخصوص عالمی ادارۂ صحت اور امریکی صدر باہم محاذ آرا ہوگئے۔ امریکہ نے عالمی ادارۂ صحت کی قیادت پر الزام لگا کر اس کی امداد بند کردی، یہاں تک کہ امریکی صدر اپنے ملک میں طبیبوں کے قائد سے لڑ گئے۔ اس لیے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ نے بغیر نام لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو غیر ذمے دار قرار دیا ہے۔ ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ اپنے خیالات چھپانے کے عادی نہیں ہیں۔ انہوں نے چین اور عالمی ادارۂ صحت کو کورونا کی وبا کے پھیلنے کا ذمے دار قرار دیا، اور عالمی ادارۂ صحت کی امداد بند کردی۔ یہ بات صحیح ہے کہ بعض عالمی قائدین اور حلقوںنے ابتدا میں اس وبا کو سنجیدہ نہیں لیا۔ لیکن ان کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ ان کے اندازے درست نہیں تھے۔ اس عرصے میں چین سمیت بعض ملکوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس وبا پر قابو پالیا ہے۔ لیکن مکمل قابو پانے کا دعویٰ درست ثابت نہیں ہوسکا۔ المیہ یہ ہے کہ جن احتیاطی تدابیر پر اتفاق کیا گیا ہے ان کی وجہ سے سماجی اور اقتصادی بحران میں اضافہ ہوگیا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے علاوہ جو دیگر عالمی ادارے ہیں وہ جو رپورٹیں جاری کررہے ہیں ان سے اقتصادی ہولناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دنیا پہلے ہی اقتصادی بحران میں مبتلا تھی۔ امیر اور غریب میں فرق بڑھتا چلاجارہا ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دار اور غریب ممالک کی تقسیم ہے۔ خود دولت مند اور خوشحال ممالک میں ایسے غریبوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو فاقہ کشی، بے گھری اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی وبا کے باعث فاقہ کشی بڑھ رہی ہے، کروڑوں افراد بھوک کا شکار ہوسکتے ہیں، بے روزگاری میں اضافے سے عوام میں بے چینی پھیلنے، سیاسی عدم استحکام اور اندرونی خلفشار کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک اور عالمی تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی مہلک وبا نے تعلیم کے لیے غیر معمولی ہنگامی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ تقریباً ایک کروڑ 87لاکھ بچے کورونا وائرس کے بعد شاید ہی اسکول جاسکیں۔ اس وبا سے بچنے کے لیے جو احتیاطی اقدامات کیے گئے ہیں اُن میں تعلیمی اداروں کی بندش بھی شامل ہے۔ سیودی چلڈرن کی رپورٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں پہلی بار عالمی سطح پر ایک پوری نسل کی تعلیم درہم برہم ہوگئی ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے ایک ارب 80کروڑ طلبہ تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں۔ معاشی بحران کے بعد طلبہ کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہوجائے گی۔ ایک اور عالمی ادارے بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا بحران سے دنیا بھر میں بھوک اور ناقص غذائیت بڑھ رہی ہے، لوگ مزید غریب ہورہے ہیں، صحت بخش خوراک تک ان کی رسائی محدود ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں 69 کروڑ افراد خوراک کی کمی کا شکار تھے، موجودہ عالمی وبا کی وجہ سے مزید 13کروڑ 20 لاکھ افراد فاقہ کشی میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے ایک عہدیدار کے مطابق عالمی وبا خوراک کی دستیابی نہیں بلکہ رسائی کا مسئلہ پیدا کررہی ہے۔ یعنی اقتصادی سرگرمیوں کی بندش عالمی وبا کی ہلاکت سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے فکرمند قیادت کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی قیادت ہو یا امریکہ جیسی سرمایہ دار طاقتوں کے حکمران… سب کے سب دولت پرستی کی وجہ سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔